تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     24-07-2020

سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت… (1)

وقت کے ساتھ سوشل میڈیا کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے اور پیغام رسانی کے لئے یہ سب سے جدید اور تیز فورم ہے۔ خبر‘ وڈیو‘ تصویر منٹوں‘ سیکنڈوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کو ہم چھ حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں‘ اس میں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس سرفہرست ہیں؛ جن میں فیس بک اور لنکڈ اِن قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد مائیکرو بلاگنگ سائٹس آتی ہیں؛ جن میں انسٹاگرام، سنیپ چیٹ، پن ٹرسٹ وغیرہ شامل ہیں۔ پھر وڈیو شیئرنگ سائٹس آتی ہیں؛ اس میں یوٹیوب، فیس بک لائیو، آئی جی ٹی وی، سکائپ اور ٹک ٹاک قابل ذکر ہیں۔ اس کے ساتھ میسجنگ ایپس بھی سوشل میڈیا کا اہم حصہ ہیں جن میں وٹس ایپ، وائبر، لائن، فیس بک میسنجر، وی چیٹ، ٹیلی گرام اور بوٹیم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی مختلف سائٹس، بلاگز وغیرہ سوشل میڈیا کا حصہ ہیں جہاں پر لوگ خیالات کا تبادلہ کر سکتے ہیں، ان میں قیورا، گوگل گروپس وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اب تو بہت سی گیمیں بھی ایسی آ گئی ہیں جن سے بہت سے لوگ منسلک ہوکر‘ مل کر کھیل کھیلتے ہیں، ان میں پب جی اور لڈو وغیرہ شامل ہیں۔
سوشل میڈیا کا مقصد یہی ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے رابطے میں آئیں اور تبادلۂ خیال کریں۔ یہاں پر میڈیا شیئرنگ ہوتی ہے‘ جن میں فوٹوز اور وڈیوز وغیرہ شامل ہیں۔ بحث و مباحثے کے فورم پر ملکی اور غیر ملکی‘ ادبی و سماجی صورتحال پر تبادلۂ خیال ہوتا ہے، کورونا کی وبا میں لوگ گفتگو اور پڑھائی کے لئے سب سے زیادہ زوم اور سٹریم یارڈ ایپ کا استعمال کر رہے ہیں۔ تحریری مواد کو شیئر کرنے کے لئے مختلف سائٹس بنی ہوئی ہیں جہاں لوگ شاعری‘ کالم اور مضامین وغیرہ شیئر کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ وڑد پریس پر بھی بلاگنگ کی جاتی ہے اور اپنے خیالات لوگوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بہت سے شاپنگ پیجز اور گروپس بھی بنے ہیں اور آن لائن پرچیزنگ ویب سائٹس اس کے علاوہ ہیں۔
سوشل میڈیا کے یقینا بہت سے مثبت پہلو ہیں‘ ہر کوئی ''سٹار‘‘ بن سکتا ہے‘ مشہور ہو سکتا ہے‘ اس کو اس کے لیے ٹی وی یا فلم کے پردے کے سہارے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس سے ہم نئے لوگوں سے ملتے ہیں، نئے دوست بنتے ہیں، کتنے لوگوں کی شادیاں سوشل میڈیا پر ملنے کے بعد ہوئیں۔ معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے، ہم نئی دنیا کے بارے میں جانتے ہیں، بہت سی اقوام ایک دوسرے کی قریب آتی ہیں، سب مل کر سماجی برائیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، لوگ بہت سی چیزیں بنانا سیکھتے ہیں، اپنے کیریئر کو آگے بڑھا سکتے ہیں، یہاں پر ہر طرح کی فلمیں اور گانے بھی میسر ہیں اور سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا سے آپ پیسے بھی کما سکتے ہیں۔
فیس بک اور یوٹیوب صارفین کو بہترین کانٹینٹ تخلیق کرنے پر پیسے بھی دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے بہت سے لوگوں کو سٹار بنا دیا ہے جس کی سب سے بڑی مثال کیوٹ سا بچہ ''احمد شاہ‘‘ ہے جس کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی‘ اب وہ ٹی وی سٹار ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ گانے گا رہے ہیں، کھانے پکا رہے ہیں، بزنس کر رہے ہیں، مزاحیہ وڈیوز بنا رہے ہیں، تبصرے اور تجزیے کر رہے ہیں، درس و تدریس ہو رہی ہے، نیوز شیئر ہو رہی ہیں اور دین کی تبلیغ کا کام بھی اس کے ذریعے بھرپور طریقے سے کیا جا رہا ہے‘ یہ سب اس کے مثبت پہلو ہیں۔
تاہم دوسری طرف سوشل میڈیا کے کچھ تاریک پہلو بھی ہیں جس سے معاشرے میں بگاڑ آ رہا ہے۔ بہت سے لوگ خفیہ شناخت کے ساتھ اس کا استعمال کر رہے ہیں، شرپسند اس کے ذریعے لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں، ان کا ڈیٹا چوری کرتے ہیں، کچھ منفی عناصر معاشرے میں برائی پھیلانے کے لئے بھی سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں اور ملک، اداروں اور اہم قومی شخصیات کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ مذہب‘ عصبیتوں‘ قومیتوں اور شخصیات کی توہین کرکے معاشرے میں انتشار پھیلاتے ہیں۔ اخلاق باختہ اور پُرتشدد چیزیں اَپ لوڈ کرکے نوجوان نسل کو گمراہ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ دشمنوں کے آلہ کار بن کر قوم کے بچوں کو ملک سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔بلوچستان کے حوالے سے یہ دیکھا گیا کہ بہت سے فیک بلوچ اکائونٹس بھارت اور افغانستان سے آپریٹ ہو رہے ہیں اور وہ ملک کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ تاہم ان کا پول سوشل میڈیا پر بہت سے محب وطن پاکستانیوں نے کھول کر رکھ دیا ہے۔ اس کے بعد 27فروری 2019ء کو ہم نے دیکھا کہ بھارت ہماری جیتی ہوئی جنگ کے اعداد و شمار سوشل میڈیا پر بدل رہا تھا‘ اس پر بھی پاکستانیوں نے بھارتیوں کو منہ توڑ جواب دیا اور بھارتی جھوٹ کا اثر زائل کیا۔ انہوں نے اس بات کی بھی پروا نہیں کی کہ ان کے اکائونٹ معطل ہو جائیں گے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سوشل میڈیا پر فیس بک اور ٹویٹر کا جھکائو بہت تک بھارت کی جانب ہے اور اکثر پاکستانی جب مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کچھ لکھتے ہیں تو ان کے اکاونٹ بلاک کر دیے جاتے ہیں۔ تاہم بہت سے ممالک اپنی جنگیں اب سوشل میڈیا پر لڑ رہے ہیں‘ اس لئے پاکستان کو بھی اپنے دفاع میں سامنے آنا ہوگا۔ قومی سطح پر کوئی ادارہ ہونا چاہیے جو پارٹی‘ سیاست اور شخصیات سے بالاتر ہوکر صرف میڈیا و سوشل میڈیا پر ملکی دفاع کا کام کرے۔ اگر ہم لوکل سطح پر دیکھیں جہاں پاکستانی سوشل میڈیا کا بہت اچھا استعمال کر رہے ہیں وہیں کچھ لوگ اس کا منفی استعمال بھی کر رہے ہیں۔ وہ ہمہ وقت سیاست دانوں، ملکی اداروں، اہم شخصیات اور ہمارے طرزِ معاشرت کو متنازع بنانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔یہ لوگ اپنے اصل اکائونٹس کے ساتھ یہ سب نہیں کرتے بلکہ اس کے لئے انہوں نے بہت زیادہ فیک یعنی جعلی اکائونٹس بنا رکھے ہیں‘ وہاں سے یہ لوگوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ میں 7 بار سے زائد سوشل میڈیا پر منفی مہم کا نشانہ بنی ہوں‘ میں نے ایک چیز نوٹ کی ہے کہ اس طرح کی مہم بہت حد تک جعلی ہوتی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ایک فیک اکائونٹ کوئی جھوٹا ٹویٹ کرتا ہے اور بہت سے فیک اکائونٹس اس کو ری ٹویٹ کرتے ہیں‘ یہ اکائونٹس باہم مربوط ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو فالو کر رہے ہوتے ہیں۔ میں ٹویٹ کرنے والے‘ ری ٹویٹ کرنے والے اور لائک کرنے والے‘ سب کو بلاک کر دیتی ہوں۔ اس سے بہت حد تک منفی مہم رک جاتی ہے۔ جب ان کی ٹویٹر پر دال نہیں گلتی تو یہ وٹس ایپ، فیس بک اور یوٹیوب کا سہارا لیتے ہیں۔ میرے فالورز اکثر انہیں جواب دینے کے خواہاں ہوتے ہیں لیکن میں منع کر دیتی ہوں کیونکہ ٹرولز گمنامی میں رہیں‘ یہی ان کی سزا ہے۔
وٹس ایپ سے بھی اکثرمنفی مہم چلائی جاتی ہے جو فیس بک اور یوٹیوب پر فیک اکائونٹس کے ذریعے پھیلائی جاتی ہے۔ اس منفی مہم میں خاص طور پر ملک کی اہم شخصیات، ان کے اہل خانہ، اہم ملکی اداروں، اینکر پرسنز، ان کے اہل خانہ ، صحافیوں بالخصوص خواتین صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اداکار، گلوکار وغیرہ بھی اس کی زد میں آتے رہتے ہیں۔ اس وقت خاص طور پر ٹک ٹاک کو ریگولیٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے، اخلاق سوز کاموں میں ملوث لوگ یہاں پر بہت متحرک ہیں، بہت سے لوگ خود کو مشہور کرنے کے لئے اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے رہتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے اکثر نیم برہنہ تصاویر اور وڈیوز بھی لیک کی جاتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں۔ میرے نزدیک اس ایپ کو بند ہونا چاہیے۔ جو ٹک ٹاکرز فحش وڈیوز بنا رہے ہیں‘ ان کو سزا دینی چاہیے کیونکہ ان سے نوجوان نسل کی اخلاقیات تباہ ہورہی ہیں۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved