خوشونت سنگھ زندگی میں بہت سے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز رہے ۔سیاست میں آئے تو راجیہ سبھا کے ممبر منتخب ہوئے‘ لیکن ان کے اصل جوہر اس وقت کھلے جب وہ The illustrated weekly of indiaکے ایڈیٹر بنے ۔ خوشونت سنگھ کی ادارت میں یہ رسالہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا ۔ خوشونت نے National Heraldاور Hindustan Times کی ادارت بھی کی لیکن ان کی بنیادی پہچان ان کی تحریریں ہیں ۔خوشونت سنگھ نے ناول لکھے ‘مضامین تحریر کیے ‘ذاتی زندگی کے واقعات قلم بند کیے اورسیاست اور تاریخ کو بھی موضوع بنایا۔ ان کی تحریروں میں ایک خاص مزاح اور جرأت مندانہ اظہار یہ ہے ۔ اسلوب میں وارفتگی ‘ سلاست اور روانی ہے ۔ A Train to Pakistanکے علاوہ خوشونت سنگھ کا ایک اور ناول جس نے شہرت پائی ''Dehli‘‘ تھا۔ سکھوں کی تاریخ پرکتاب A History of Sikhsکا انداز تحقیقی ہے۔ اسی طرح پنجاب پران کی کتاب Land of Five Rivers پنجاب کے بارے میں معلومات کا اہم ذریعہ ہے ۔خوشونت کی ذاتی زندگی کے حوالے سے تحریر کی گئی کتاب Truth, Love and a Little Malice ان کی زندگی کے دلچسپ گوشوں سے متعارف کرواتی ہے ۔خوشونت سنگھ کی خدمات کے عوض انہیں بھارت کا بڑا اعزاز پدما بھوشن دیا گیالیکن 1984ء میں بھارتی حکومت کی گولڈن ٹمپل پر فوج کشی کے نتیجے میں بطور احتجاج انہوں نے یہ ایوارڈ حکومت کو واپس کر دیا۔ خوشونت سنگھ کی کتابوں ‘ مضامین اور مختلف تحریروں کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ایک انسان اپنی مصروف زندگی میں اتنا کچھ کیسے لکھ سکتا ہے؟ لیکن لکھنا خوشونت سنگھ کا Passion تھا۔ خوشونت سنگھ کے بیٹے راحل کا کہنا ہے کہ ان کے والد ہر روز بلا ناغہ لکھا کرتے تھے۔یوں خوشونت سنگھ نے زندگی کے آخری ایام تک لکھا اور خوب لکھا ۔ ان کی کتابوں کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔ لکھنے میں انہیں ایک طرح کی لذت کا احساس ہوتا تھا ۔اس لذت سے وہ پہلی بار اس وقت آشنا ہوئے جب انہوں نے ہڈالی کے سکول میں لکڑی کی تختی پر سر کنڈ ے کے بنے ہوئے قلم سے لکھنا سیکھا تھا ۔ قلم دوات اور تختی ان کے بستے کا حصہ ہوتے۔بہت بعد میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرتے ہوئے جب وہ فا ؤنٹین پن سے لکھتے تو انہیں ہڈالی سکول کے قلم اور دوات یاد آجاتے۔ہڈالی میں ان کی ابتدائی زندگی کے چند ہی برس گزرے تھے لیکن یہ ان کی شخصیت میں رچ بس گئے تھے۔ہڈالی چھوڑنے کے بعد وہ دوبار وہاں گئے تھے۔دوسری بار کا دورہ انہیں یاد ہے‘ ان دنوں وہ لاہور رہتے تھے اور ایک طویل مدت کے بعد اپنے آبائی گاؤں جا رہے تھے۔ان کے شوق کا عالم عجب تھا۔ ان کا جی چاہتا تھا کہ اڑ کر ہڈالی پہنچ جائیں لیکن سفر تھا کہ کٹ ہی نہیں رہا تھا۔وہ بار بار کھڑکی سے باہر دیکھ رہے تھے۔آخر ٹرین کی رفتار آہستہ ہوئی اور ہڈالی کا سٹیشن آگیا۔انہوں نے باہر نکل کر ایک لمبی سانس لی ۔ ہوا میں ہڈالی کی مٹی کی وہی مانوس سوندھی سوندھی خوشبو تھی۔ وہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور جھک کر اس مٹی کو چوم لیا ۔ وہی مہکتی مٹی جہاں خوشونت (شالی) گرمیوں کی تپتی دوپہروں اور جاڑوں کی ٹھنڈی شاموں میں ننگے پاؤں گھوما کرتا تھا ۔اسی اثنا میں گاؤں کے ایک شخص نے انہیں پہچان لیا اورپھرایک ایک کر کے لوگ اکٹھے ہوتے گئے۔وہ ان سے پوچھ رہے تھے کہ ہڈالی سے جا کر وہ کیا کرتے رہے؟ کن ممالک میں گئے؟ باہر کے ملکوں میں کیا دیکھا ؟ لیکن خوشونت سنگھ ان سے اپنے گاؤں ہڈالی کے بارے میں جاننا چاہ رہا تھے۔اپنی حویلی ‘اپنے سکول‘ گاؤں کے بڑے بوڑھوں کا احوال ۔ وہ ہڈالی کی گلیوں میں بچہ بن گئے تھے۔اس دورے میں وہ گاؤں سے بہت سی محبتیں سمیٹ کر لائے۔
وہ واپس دہلی آ ئے توہڈالی کے دورے کی خوب صورت یادیں ان کے ہمراہ تھیں‘ ان کی زندگی کاتمتماتا آفتاب ڈھلوان کے رستے پر سفر کر رہا تھا۔ وہ عمرِ عزیز کے 71برس گزار چکے تھے ۔ان کی زندگی کے سارے خواب پورے ہو چکے تھے ‘عزت ‘شہرت اور دولت کی دیویاں ان کی چوکھٹ سے لگی کھڑی تھیں‘لیکن ایک خواب ابھی باقی تھا ۔زندگی کے سفر کے اس جھٹ پٹے میں وہ اپنے گاؤں ہڈالی کو آخری بار دیکھنا چاہتے تھے ۔ہڈالی کے تصور کو تازہ رکھنے کے لیے انہوں نے دہلی میں اپنے گھر کا نام ہڈالی ہاؤس رکھا تھا۔کہتے ہیں عمر کے آخری حصے میں انسان شدت سے اپنے بچپن کو یاد کرتا ہے‘ خوشونت کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔وہ جب بھی تنہا ہوتے تو ہڈالی تصور میں ان کے آس پاس ہوتا۔اس کا کھلا آسمان ‘ ہوائیں‘ اس کے گلاب اور مو تیے کے پھول‘ اس کے سرسوں کے تاحدِ نظر پھیلے کھیت‘ اس کی سنسان دوپہریں‘ اس کی رنگوں میں ڈوبی ہوئی شامیں‘ خوشبوؤں میں لپٹی ہوئی راتیں‘ اس کاتاروں بھرا آسمان ‘ اس کی بارشوں میں مہکتی ہوئی مٹی کی خوشبو۔ وہ اکثر سوچتے کہ کیا میں اپنی زندگی کی شام ہونے سے پہلے ہڈالی جا سکوں گا؟ کہتے ہیں جذبے سچے ہوں تو امکان کے در خودبخود کھل جاتے ہیں۔ 1986ء میں انہیں پاکستان آنے کا موقع مل ہی گیا ۔دورے کا بنیادی مقصد تو کچھ اور تھا لیکن خوشونت سنگھ کیلئے یہ اپنا دیرینہ خواب پورا کرنے کا موقع تھا ۔وہ خواب جو وہ دہلی کی مصروف زندگی میں جاگتی آنکھوں سے دیکھا کرتے تھے۔اپنے بچپن کے دنوں کے خواب‘ جب گاؤں کے رہٹ کے گرد بیل گھومتے تھے۔جب صبح دم ان کی آنکھ پرندوں کے چہچہانے سے کھل جایا کرتی تھی۔جب وہ حیرت سے گاؤں کی عورتوں کو دیکھتے تھے جو کنویں سے پانی بھر کر واپس آرہی ہوتیں۔دو گھڑے ان کے سر پر اور ایک بغل میں ہوتا۔وہ پہروں سوچتے کہ تین گھڑے اٹھا کر چلتے ہوئے توازن کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے۔وہ خواب جب ہم عمر بچے گاؤں کی پگڈنڈیوں پر دیوانہ وار دوڑتے ہوئے سرسوں کے کھیتوں کے اندر سے گزرتے تو ان کے کپڑوں پر زرد نقش ونگار بن جاتے۔آج خوابوں کا وہ نگر دیکھنے کا وقت آ گیا تھا۔انہیں براستہ لاہور ہڈالی آنا تھا۔ان کے گاؤں والوں کو ان کی آمد کی خبر تھی۔گاؤں سے باہر لوگوں کا جمِ غفیر ان کے استقبال کیلئے موجود تھا۔ لوگ پھولوں کے ہار لیے کھڑے تھے۔ ان کے کیلئے ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں گاؤں کے لوگوں کی محبت کا شکریہ ادا کیا۔اب وہ گاؤں کی گلیوں میں گھوم رہے تھے۔لوگوں کا ہجوم ان کے ہمراہ تھا۔انہوں نے اپنی حویلی دیکھی اور پھر وہ سکول جہاں وہ پڑھتے تھے۔ انہوں نے شیشم کے اس درخت کو دیکھا جس کی چھاؤں میں وہ دوستوں کے ہمراہ کھیلا کرتے تھے اور پھر ان کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے‘ اکہتر سالہ خوشونت سنگھ ہچکیاں لے لے کر رونے لگے۔کہتے ہیں جہاں لفظ کم پڑ جائیں وہاں آنسو زبان بن جاتے ہیں۔ انہیں یقین تھا کہ یہ ان کا ہڈالی کاآخری دورہ ہے‘ شاید وہ پھر یہاں کبھی نہ آ سکیں گے۔انہوں نے واپس جا کر وصیت کی کہ انہیں ہڈالی میں سپردِ خاک کیا جائے۔ 2014ء میں خوشونت سنگھ کا دہلی میں انتقال ہوا تو رواج کے مطابق ان کی ارتھی کو جلایا گیا۔ ان کے بچوں کو اپنے والد کی آخری خواہش یاد آئی۔موت کے بعد بھی ہڈالی جانے کی خواہش ۔ وصیت کے مطابق ان کی راکھ کو ہڈالی لایا گیا جہاں ان کے پرانے سکول میں ایک مختصر تقریب میں خوشونت سنگھ کے نام کی تختی کو دیوار میں نصب کیا گیا۔اس کے لیے استعمال ہونے والے سیمنٹ میں خوشونت سنگھ کی راکھ کو ملایا گیا تھا۔یوں تختی کے ساتھ راکھ بھی در و دیوار کا حصہ بن گئی ۔اس سارے منظر کو سکول کا بوڑھا شیشم کا درخت حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اسے یک لخت اپنے اطراف ایک مانوس مہک کا احساس ہوا۔ اسے کیا خبر تھی یہ اسی شالی کی مٹی کی مہک ہے جو کبھی اس کی چھاؤں میں پہروں کھیلا کرتا تھا۔