لاہور بلکہ ایک لحاظ سے سارا پنجاب خطرے میں ہے، یہ فقط اندیشہ یا گمان نہیں‘ شواہد ہیں‘ آنکھیں کھول دینے والے شواہد۔ یہ کوئی آئندہ بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلاب کا خطرہ نہیں جس کا میں واویلا کر رہا ہوں‘ اس سے بہت بڑا خطرہ ہے۔ اتنا بڑا کہ اس سے لاہور شہر کا جغرافیہ اور حلیہ ہی بدل جانے کے اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جو کچھ ہمارے لاہور کے ماضی کے حکمرانوں کی ستم ظریفیوں سے بچا ہے وہ سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔ ہمارا تو خیال تھا کہ کپتان لاہور سے شروع کریں گے‘ پورے پنجاب میں اور پھر دیگر صوبوں میں زبردست مثبت تبدیلیاں لائیں گے‘ ایسی تبدیلیاں جن کے انتظار میں میری نسل کے لوگوں کی آنکھیں پتھرا چکیں‘ لاکھوں نہیں کروڑوں لاہور کو سنورتا دیکھنے کی امیدیں اپنے سینے میں دفن کر کے منوں مٹی کی گود میں جا سوئے۔
سب کچھ تو تباہ نہیں ہوا‘ پھر بھی بہت کچھ ہو چکا اور بہت کچھ بچا ہوا بھی ہے۔ جو کچھ تباہ ہو چکا‘ ختم ہو چکا اس پر کیسا واویلا؟ جو کچھ بچا ہوا ہے‘ ہمیں اس کی فکر ہے۔ اور یہ بھی کہ جنہوں نے بے ہنگم‘ بے ربط ترقی کے نام پر لاہور کی تاریخی شناخت اور صدیوں سے بنے مقام کو نیست و نابود کیا ہے‘ ان کا حساب کب ہو گا؟ ماضی میں بربادیاں لانے والوں کا احتساب ابھی مکمل نہیں ہوا کہ لوٹ مار کرنے والوں کی نئی کھیپ تیار ہو کر میدان میں اتر چکی ہے۔ ہوشیار اور خبردار ہو جائیں اور کپتان صاحب کو خبر نہیں تو انہیں خبر کر دیں کہ شاید‘ شاید وہ اپنا سیاسی قبلہ اور سمت درست کر سکیں۔ ماضی کے حکمرانوں کے واپس آنے کے اندیشے سے تو دل کانپ اٹھتا ہے۔ ہم نہ سنبھلے‘ بیدار نہ ہوئے اور اپنے لاہور جیسے خوبصورت شہروں اور ملک کو بچانے کی فکر نہ کی تو اس کا جو خمیازہ ہم اپنی زندگی میں بھگت چکے‘ اس سے کہیں زیادہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔
جنہوں نے اس خطے سے یا دیگر ممالک سے آ کر بر صغیر کے بڑے بڑے تاریخی اور قدیم شہروں کو دیکھنے کا شرف حاصل کیا ہے‘ ان میں سے اکثر لاہور کو خوبصورت ترین تصور کرتے ہیں۔ قدیم شہر‘ انگریزوں کا جدید شہر‘ درمیان میں بہتی نہر‘ باغات‘ لاہور کی ''ٹھنڈی سڑک‘‘ مغلوں کی تاریخی عمارات‘ اور پھر اس شہر میں بسنے والے لاکھوں زندہ دل لوگ۔ کوئی اور شہر کیا مقابلہ کر سکتا ہے۔
یہ خاکسار جب تعلیم کی غرض سے نصف صدی پہلے لاہور آیا تھا تو شہر کا نقشہ یہی تھا‘ جس کا ذکر کیا گیا ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں موٹر سائیکل پر سوار ہو کر خالی سڑکوں پر فراٹے بھرتے تھے۔ شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا تھا۔ تب یہ شہر اتنا پھیلا ہوا نہیں تھا۔ مجھے اس کی تب کی کچھ حدود یاد ہیں۔ ایک طرف ماڈل ٹائون اور گلبرگ‘ دوسری طرف شالا مار باغ حدود تھیں۔ وحدت کالونی کے ساتھ نئی جامعہ پنجاب آخری حد تھی اور پھر آگے کھیتوں سے گزر کر چوک یتیم خانہ آتا تھا اور بند روڈ۔ تب لاہور کی فضا اتنی گدلی نہیں تھی۔ ہوا صاف اور دھوپ چمک دار ہوتی تھی۔ لوگ مال روڈ پر ٹہلنے اور نہر کے کناروں پر سیر کے لئے آتے تھے۔ اونچی اونچی تعمیرات نہیں ہوئی تھیں تو تاریخی مقامات اور عمارات بھی محفوظ اور بہتر حالت میں نظر آتی تھیں۔ آپ میں سے اکثر یہ دلیل دیں گے کہ آبادی کئی گنا ہو جائے تو شہروں کو ہر سمت میں پھیلانے میں کیا حرج ہے؟ حرج یہ ہے کہ شہروں کا بنیادی ڈھانچہ ان کا تاریخی ورثہ‘ تعمیراتی ساخت اور جغرافیائی تانا بانا‘ یہ سب مسخ نہیں ہوتے‘ وہ ایک ہی رہتے ہیں۔ لندن اور نیو یارک کو دیکھ لیجئے یا دنیا کے دیگر ترقی یافتہ شہروں کو‘ وہاں کے تاریخی ورثے کو بڑی احتیاط کے ساتھ محفوظ کیا گیا ہے۔ ہمارے لاہور کا حال مختلف ہے۔ ماڈل ٹائون اور گلبرگ تباہ ہو چکے ہیں‘ یعنی پہلے جیسے نہیں رہے۔
کون سا ملک ہے‘ وہ کون سے عوامی نمائندے ہیں اور وہ کون سے شہر کے باسی ہو سکتے ہیں کہ گھروں کی جگہ بلند و بالا عمارتیں کھڑی کر دیں اور سب کچھ ان میں چھپ کر رہ جائے۔ لاہور ہی نہیں یہی کچھ راولپنڈی‘ ملتان اور دیگر کچھ شہروں میں بھی ہو چکا ہے۔ غیر ملکی حکمرانوں سے‘ چلو مغلوں کو بھی باہر کا تصور کر لیں‘ فقط دلیل کے لئے‘ حالانکہ وہ تو ہمارے لئے خوبصورت ورثہ چھوڑ کر گئے تھے‘ ہم نے اپنی آزادی کو کیسے استعمال کیا؟ اسلام آباد بھی حریص غاصبوں اور ''مافیا‘‘ کی کارستانیوں سے نہیں بچ سکا۔ آپ نے دنیا کے کسی ملک میں پارکوں کے اندر کلب‘ تجارتی عمارتیں اور فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ وغیرہ بنتے دیکھے ہیں؟
ایسا اسلام آباد کے وسط میں فاطمہ جناح پارک میں ہوا ہے۔ اس پر کسی اور وقت بات ہو گی‘ فی الحال لاہور کا مقدمہ ہی لڑتے ہیں‘ کہ لاہوری تو بے چارے پتہ نہیں کب سے دھوکا بازوں کے نرغے میں رہ کر دھوکے پہ دھوکا کھانے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ایک درویش منش لاہوری مفکر اور ماہرِ تعمیرات جناب کامل خان صاحب نے میائوں (میاں صاحبان) کی نارنجی (نارنگی) ٹرین سے لاہور کی تعمیراتی شناخت اور تاریخی ورثے اور عمارات کو لاحق خطرات سے قوم کو آگاہ کیا ہے۔ سابق حکمرانوں کو کچھ عرصہ عدالتوں میں بھی گھسیٹا۔
ایک طرف ذاتی وقت اور سرمایہ‘ دوسری طرف حکومت پنجاب کا خزانہ اور وسائل۔ نارنجی ٹرین کے منصوبے کو دیکھ کر یہ خاکسار آنکھیں بند کر لیتا ہے اور یہ سوچ کر دل دکھتا ہے کہ وہ شہر جس نے میائوں (میاں صاحبان) کو اقتدار دیا‘ عزت دی‘ شہرت‘ طاقت دی‘ نام دیا‘ پہچان دی‘ انہوں نے اس شہر کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ بھائی صاحب معاف کرنا‘ ہم نے اس نوعیت کی میٹرو کو دلی میں بنتے اور اب چلتے دیکھا ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ میٹرو کیا ہوتی ہے اور چلانے والے اسے کیسے چلاتے ہیں۔ دلی میں اور دوسرے شہروں میں بھی سوائے چند جگہوں کے ساری کی ساری میٹروز زیرِ زمین ہیں۔ جس طرح آپ لندن‘ جہاں پاکستان کے ہر نام ور سیاست دان نے قیمتی جائیدادیں خرید رکھی ہیں‘ سب زیرِ زمین ہے، یہاں تو غیر ملکی استعماری حکمرانوں سے بھی زیادہ ظالمانہ روش اختیار کی گئی ہے۔ یہ لوگ تو عوام کی دولت پر ہاتھ صاف کرنے والے نکلے ہیں۔
کپتان صاحب کی پنجاب حکومت ہو‘ خیبر پختونخوا حکومت یا مرکزی حکومت‘ ماضی کے لٹیروں کے دست و بازو اور خود لٹیرے نمایاں نظر آتے ہیں۔ پتہ نہیں اس وقت گجرات شہر کا نام ذہن میں کیوں گھوم رہا ہے۔ گمان تھا کہ کپتان سب کو اپنی سمت میں چلائے گا‘ زبردست مصلح ثابت ہو گا اور پاکستان کی ریاست اور معاشرے کو تبدیل کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کرے گا۔ ابھی بھی میرا دل نہیں مانتا کہ کپتان کرپشن اور بدعنوانی کو برداشت کرے گا۔ لاہور رنگ کا سکینڈل تو کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ کیا اس میں سرائیکی وسیب کے بلوچ وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار صاحب کا ہاتھ نہیں ہے؟ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ اس کے بارے میں تفتیش ہونی چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔
اصل خطرہ تو میں بھول ہی گیا‘ جس کا ذکر کرنا مقصود ہے۔ اس میں تو بزدار صاحب کا کردار نمایاں ہے‘ اور اس کے پیچھے وہی ''مافیا‘‘ ہے جس کا ذکر اب بھی کپتان صاحب کرتے رہتے ہیں۔ اعلان ہوا کہ ایک آرڈی ننس کے ذریعے ''راوی فرنٹ اتھارٹی‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور یہ اتھارٹی ایک لاکھ ایکڑ پر شہر کے شمال میں لاہور کو توسیع دے گی۔ سنا ہے کہ ایک لاکھ ایکڑ پر خان صاحب جنگلات لگا دیں تو اور کچھ نہیں تو اس سے لاہور کا موسم اور ماحول‘ دونوں بہتر ہو جائیں گے۔ ''مافیا‘‘ کھربوں روپے کی چمک دیکھ رہا ہے۔ لاہور کو لاہور ہی رہنے دیں‘ مزید تباہ نہ کریں تو بہتر ہو گا۔ بہت ہو چکا‘ پتہ نہیں لاہوری گھروں سے نکل کر احتجاج کریں گے یا خاموشی سے یہ تباہی بھی سہہ لیں گے۔