تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     25-07-2020

سرخیاں‘ متن‘ فکاہات اور عرفان صدیقی کی تازہ غزل

بلاول مناظرہ کر لیں، آئینہ دکھانے کیلئے تیار ہوں: مراد سعید
وفاقی وزیر برائے مواصلات مراد سعید نے کہا ہے کہ ''بلاول مناظرہ کر لیں، آئینہ دکھانے کے لیے تیار ہوں‘‘ اور اس کے لیے ہم نے آئینہ خرید لیا ہے لیکن اس میں اپنا آپ دیکھ کر ہی اتنی پریشانی ہوئی کہ کہ سارا چیلنج ہی ماند پڑ گیا، ایسا لگتا ہے کہ یہ آئینہ ہی خراب ہے جبکہ بازار میں دستیاب سب آئینے ایک ہی جیسے ہیں اس لیے سوچا ہے کہ ہم اپنا آئینہ الگ بنائیں گے جس میں ہماری اپنی شکلیں ذرا بہتر نظر آئیں، اگرچہ ہم ایک دوسرے کو بھی ایسے ہی نظر آتے ہیں جیسے کہ ہم ہیں اور اب سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ پلاسٹک سرجری کروا کر شکلیں ہی تبدیل کر لی جائیں کیونکہ موجودہ شکلوں کے ساتھ گزارا کرنا دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اے پی سی میں شرکت اپنے ایجنڈے پر کریں گے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کی اے پی سی میں شرکت اپنے ایجنڈے پر کریں گے‘‘ بلکہ شامل ہونے والی ہر جماعت کو اپنے اپنے ایجنڈے پر ہی شرکت کرنی چاہیے کیونکہ اس کا نتیجہ تو حسبِ معمول نکلنا کچھ نہیں اس لیے کم از کم اپنے اپنے ایجنڈے کو تو محفوظ کر لیا جائے اور ایسا نہ ہو کہ ایجنڈے کا بھی وہی حشر ہو جو اے پی سی کا ہونے والا ہے جبکہ ہم تو اپنے ایجنڈے کو ہوا تک نہیں لگنے دیں گے کہ ہوا میں ابھی تک کورونا وائرس موجود ہے‘ یہ نہ ہو کہ لینے کے دینے ہی پڑ جائیں حالانکہ ان معاملات میں ہمارا کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ سارا کام میری روز روز کی تقریروں ہی سے ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکومت ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے‘‘ حالانکہ ہم نے اپنے ادوار میں جو کچھ بھی کیا ہے، سارے کا سارا ہی غیر سیاسی تھا جبکہ روپے پیسے کا سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور جو صرف تجارت کی ذیل میں آتا ہے جو ہمارا حق ہے اور جس سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ ہم بنیادی طور پر تاجر لوگ ہیں جبکہ ملک میں تاجرانہ سرگرمیوں کی عام اجازت ہے۔ اس لیے حکومت نے اگر ہم سے انتقام لینا ہی تھا تو غیر سیاسی انتقام لے لیتی لیکن وہ ہمارے ساتھ انتہائی غیر تاجرانہ حرکتیں کرنے پر تلی ہوئی نظر آتی ہے بلکہ ہماری جمع پونجی کے بھی پیچھے پڑ گئی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
نیب قوانین میں اپوزیشن ہم پر دبائو 
ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''نیب قوانین میں اپوزیشن ہم پر دبائو ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے‘‘ حالانکہ بیچاری کے پاس دبائو نامی کسی چیز کا وجود ہی نہیں نظر آتا جبکہ ہماری روایت ہے کہ ایسی چیزیں انتی ہی ابھرتی ہیں جتنا کہ دبایا جائے چنانچہ ہم اپنا دبائو بھی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ جواباً اپوزیشن پر ڈال سکیں کیونکہ لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پروپیگنڈا کرنے والوں کو جواب
عوامی خدمت سے دیں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''پروپیگنڈا کرنے والوں کو جواب عوامی خدمت سے دیں گے‘‘ اگرچہ یہ سوال گندم، جواب چنا ہی ہوگا کیونکہ آخر محاوروں پر بھی عمل کرنا پڑتا ہے کہ یہ وضع ہی اسی لیے کئے گئے ہیں جس کے ساتھ ساتھ قومی زبان کی خدمت بھی ہوتی رہے گی اور اگر اور نہیں تو ہم قومی زبان کی خدمت سے تو سرخرو ہو سکیں گے کیونکہ خدمت جو بھی ہو، خدمت ہی شمار ہوگی اور زبان کی خدمت بھی عوامی خدمت سے کسی طرح کم نہیں ہے یعنی گندم اگر 'بہم نہ رسد بھُس غنیمت است‘ جبکہ یہ محاورہ نہیں بلکہ ایک قاعدہ کلیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے جو بھی دال دلیا ہماری طرف سے پیش کیا جائے، اسے شرفِ قبولیت بخشا جائے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔
بیمار گھوڑا
ایک شخص کا گھوڑا بیمار پڑ گیا تو وہ اسے حیوانات کے ہسپتال میں لے گیا جہاں اسے کافی سارا سفوف دیا گیا اور اس کے استعمال کا طریقہ بھی بتایا کہ یہ سفوف کسی نال وغیرہ میں بھر کر اور نال گھوڑے کے منہ میں ڈال کر پھونک مار دیں۔ ساری دوا گھوڑے کے پیٹ میں چلی جائے گی۔ وہ شخص دوا لے کر گھر گیا اور کچھ عرصے کے بعد وہ دوبارہ ڈاکٹر کے پاس اس حالت میں پہنچا کہ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور چہرہ بھی سرخ ہو رہا تھا جسے دیکھ کر ڈاکٹر بولا: کیا ہوا؟ گھوڑے نے پہلے پھونک مار دی! اس نے جواب دیا۔
شیر کی شادی
جنگل میں شیر کی شادی کی تقریب بپا تھی اور ہر طرف رونق لگی ہوئی تھی جبکہ ایک چوہا خاص طور پر پھُدکتا پھر رہا تھا، کبھی وہ دیگوں والے کی ڈانٹ ڈپٹ کرتا اور کبھی ٹینٹوں قناتوں والے کی، آخر کسی نے اس سے پوچھا کہ شادی تو شیر کی ہو رہی ہے، تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ شادی سے پہلے میں بھی شیر ہوا کرتا تھا، چوہے نے جواب دیا۔
باتیں کرنے والی مینا
ایک شخص نے کسی دور کے شہر سے اپنی دادی کی سالگرہ پر ایک باتیں کرنے والی مینا تحفے میں بھیجی۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے دادی کو فون کیا اور کہا: دادی ماں! کہیے پرندہ کیسا رہا؟ نہایت لذیذ!‘‘ بڑھیا نے جواب دیا۔
اور، اب آخر میں اسلام آباد سے عرفان صدیقی کی تازہ غزل:
سورج کے اور زمین کے کچھ درمیاں بھی ہو
یہ دھوپ ہے تو سر پہ کوئی سائباں بھی ہو
اک اور زندگی سہی اس کی تلاش میں
لیکن کوئی پتا، کوئی نام و نشاں بھی ہو
ان موسموں نے دست و پا مفلوج کر دیے
اک بحرِ تند و تیز ہو اور بیکراں بھی ہو
لب سی دیے گئے مگر لازم ہے احتیاط
ایسا نہ ہو کہیں کسی منہ میں زباں بھی ہو
اس پیکرِ جمیل کی تحسین ہو چکی
تھوڑی سی اب ستائشِ کوزہ گراں بھی ہو
موجِ ہوائے دشت کی شوخی کو کیا غرض
شاید کسی شجر پہ کوئی آشیاں بھی ہو
اس جستجو میں غولِ بیاباں کے ہو رہے
شاید غبارِ دشت میں اک کارواں بھی ہو
دیمک زدہ سی چوکھٹیں رنگوں میں چھپ گئیں
لیکن کسی کو فرصتِ سُود و زیاں بھی ہو
چُپ چاپ راکھ ہوتے ہوئے شہر بھی تو تھے
لازم نہیں کہ آگ لگے اور دُھواں بھی ہو
آج کا مطلع
دل کی تختی سے مٹایا ہوا تُو
یاد آتا ہے بھلایا ہوا تُو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved