چند مہینوں کے بعد جب میں لوٹا تو دیکھا کہ اس کی جَوَن ہی بدلی ہوئی تھی۔ ایک بے حد صابر‘ ایک انتہائی شکر گزار بندہ۔ حیرت سے میں اسے دیکھتا رہ گیا۔
عادل‘ میرا دوست پیدائشی شکوہ کناں تھا۔ اسے ہر چیز سے شکوہ تھا۔ اپنے گھر والوں سے‘ محلے سے‘ پوری دنیا سے لیکن سب سے بڑھ کر اسے اپنے خالق سے شکوہ تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اتنے چھوٹے سے دماغ کے ساتھ خدا نے نجانے کیوں اسے تخلیق کر ڈالا ہے۔ جو چیز وہ ایک گھنٹے میں یاد کرتا ہے‘ ذہین لوگ پانچ منٹ میں یاد کر لیتے ہیں۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ وہ شکست کے لیے ہی پیدا ہوا ہے۔ اسے اچھی یونیورسٹی میں داخلہ نہیں مل سکتا‘ کوئی سکالرشپ نہیں مل سکتی۔ ایک دفعہ کہنے لگا: شاید میں ہومو سیپین نہیں بلکہ ہومو اریکٹس ہوں۔
ہاں! ایک چیز تھی‘ جس میں اسے ملکہ حاصل تھا اور وہ تھا رقص۔ اپنی ناکامیوں کا غم وہ رقص میں غلط کرتا تھا۔ اس کے خاندان کی تقریبات میں سبھی ناچ لیا کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ کوئی برے لوگ تھے‘ دوسروں جیسے ہی تھے؛ کچھ اچھے‘ کچھ برے۔
یہی وہ دن تھے‘ جب اس کی چچا زاد بہن شازیہ کی شادی طے ہوئی۔ وہ ہردل عزیز لڑکی تھی۔ اس شادی کے لیے سب خصوصی طور پر تیاری کر رہے تھے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے کئی گروپوں میں آپس میں شرط لگ گئی۔ طے یہ ہوا کہ جو سب سے اچھا رقص کرے گا اور جس کی سب سے زیادہ پذیرائی ہوگی‘ اسے خصوصی انعام دیا جائے گا۔ دراصل یہ عادل کو اُکسانے کا حربہ تھا۔ رقص میں اس سے خیر کسی نے کیا جیتنا تھا۔
شازیہ کا ایک بھائی تھا‘ سلطان۔ وہ دماغی طور پر معذور تھا‘ ہر وقت اس کی رال بہتی رہتی۔ اسے کچھ باتیں سمجھ آتی تھیں اور زیادہ تر نہیں۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا تھا کہ توازن خراب نہ ہو جائے۔ سترہ سال کی عمر میں بھی سیڑھیاں وہ گھٹنوں کے بل چڑھا کرتا۔ ان دنوں وہ چپ بیٹھا سب کو رقص کی تیاری کرتے دیکھتا رہا۔ خدا جانے اسے کیا سمجھ آ رہی تھی۔
شادی کا دن آیا۔ سب سے پہلے تیمور لوگوں نے سٹک ڈانس کیا۔ سب نے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی‘ سجی سجائی سٹکس پکڑ رکھی تھیں اور وہ ان کو لہرا رہے تھے‘ آپس میں ٹکرا رہے تھے۔ خوب تالیاں بجیں۔ پھر سعدیہ لوگ سٹیج پر آئے۔ انہوں نے جو انوکھا ڈانس پیش کیا‘ وہ چیخ سے شروع ہو کر چیخ پر ختم ہو تا تھا۔ اس رقص میں ہر چند لمحات کے بعد رقص کرنے والے پانچوں لڑکے لڑکیاں مل کر ایک سریلی چیخ مارتے۔ اسی انداز میں اس کا اختتام ہوا۔ تالیاں بجتی رہیں۔ پھرعروج لوگ سٹیج پر آئے۔ انہوں نے ایک مشہور فرنچ ڈانس پیش کیا۔ اسے بھی سراہا گیا۔
تقریب آگے بڑھتی گئی؛ حتیٰ کہ عادل کی باری آئی۔ کسی کو کوئی شک نہیں تھا کہ یہ دن اس کا ہے۔ اس نے ایک روسی ڈانس پیش کیا لیکن اپنی اختراع کے ساتھ۔ اس ڈانس کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ ہر ایک منٹ کے بعد وہ اپنی ایک ٹانگ موڑ کر دوسری ٹانگ پر پھرکی کی طرح گھوم جاتا۔ جتنی دیر وہ رقص کرتا رہا‘ تالیاں بجتی رہیں۔ اس نے محفل لوٹ لی۔ جب وہ رکا تو سب تالیاں مارتے ہوئے کھڑے ہو گئے اور چیخنے لگے: Once More, Once More۔ دوسری دفعہ بھی یہی ہوا۔ اسے آٹھ دفعہ یہ پرفارمنس دینا پڑی۔ عادل جیت چکا تھا۔
تقریب ختم ہونے لگی۔ دلہا‘ دلہن کو لے کر سٹیج سے اترنے لگا۔ یہی وہ وقت تھا‘ جب انہوں نے سلطان کو گھٹنوں کے بل سٹیج پر چڑھتا دیکھا۔ دلہن کو اپنے بھائی سے بہت محبت تھی۔ اسے دیکھ کر وہ رک گئی۔ انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ سلطان کو کس حد تک پتا ہے کہ آج ہو کیا رہا ہے۔ سب یہ سمجھے وہ دلہن کی طرف جائے گا۔ کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ اس کے ایک ہاتھ میں سٹکس دبی ہوئی تھیں۔
سلطان پرفارمنس دینے آیا تھا!
اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ دو نوں ہاتھوں میں ایک ایک سٹک پکڑی جاتی ہے۔ انہیں آپس میں ٹکرایا جاتا ہے۔ اس نے دونوں سٹکس ایک ہی ہاتھ میں پکڑ رکھی تھیں اور انہیں لہرا رہا تھا۔ سلطان اور شازیہ (دلہن) کے ماں باپ کی آنکھیں بھر آئیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا‘ جیسے اسے سمجھ آگئی ہے کہ آج اس کی بہن کی رخصتی کا دن ہے۔ وہ اپنی بہن کو سرپرائز دینے آیا تھا۔
پھر سلطان نے گھومنے کی کوشش کی اور گر پڑا۔ ہال میں مکمل سکوت طاری تھا۔ آہستہ آہستہ وہ کھڑا ہوا۔ پھر ایک پائوں کے بجائے دونوں پائوں پر آہستہ آہستہ گھوم گیا۔ اسے رقص نہیں آتا تھا۔ اتنے دنوں سے وہ جو کچھ دیکھ رہا تھا‘ وہ سب اس نے مکس کر دیا تھا۔ اس نے تالی بھی مارنے کی کوشش کی اور اس کے ہاتھ سے ایک سٹک گر پڑی۔ پھر اس نے چیخ ماری‘ جو دراصل ایک بھیانک آواز تھی۔ اس دوران کتنی ہی مرتبہ اس نے بازو سے اپنی رال صاف کی۔
یہ ایک بدترین پرفارمنس تھی لیکن پتا نہیں کیا ہوا کہ پورا ہال سیٹیوں اور تالیوں سے گونج اُٹھا۔ ایک طرف سے آواز آئی Once More۔ اس کے کے پیچھے فرمائشی آوازوں کا ایک طوفان تھا۔ وَنس مور‘ وَنس مور۔ دلہن اپنے بھائی کو خود سے لپٹا کر روتی رہی۔ پھر اس نے سلطان کو پکڑ کر دوبارہ سٹیج پر کھڑا کیا اور اس نے ایک بار پھر یہی ٹوٹی پھوٹی پرفارمنس دی۔ دلہا دلہن سامنے کھڑے ہو کرتالیاں بجاتے رہے۔ سب حیرت اور شوق سے سلطان کو دیکھ رہے تھے۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ رقص بھی کر سکتا ہے۔ اس کے بعد تو جیسے میلہ لگ گیا۔ جیسے ہی اس کا رقص ختم ہوتا‘ ونس مور کی صدائیں بلند ہوتیں۔
عادل حیرت سے یہ سب دیکھتا رہا۔ اس ٹوٹے ہوئے رقص میں ایسی کیا بات تھی کہ جس نے سب نگاہوں کو خیرہ کر دیا تھا۔ چودہ مرتبہ تو ونس مور کا تقاضا اس نے خود سنا۔ پھر گننا چھوڑ دیا۔ آخر سلطان تھک گیا۔ پھر وہ دلہا دلہن والے صوفے پر لیٹ گیا اور فوراً ہی سو گیا۔ وہ اسی طرح سویا کرتا تھا۔ دلہن اس کے پاس بیٹھ کر اسے چومتی رہی۔ یہ سب کچھ فلمایا جا رہا تھا۔یہ وہ تحفہ تھا‘ جو سب سے انمول تھا۔ اگر ہالی ووڈ سے انجلینا جولی بھی ان کی شادی میں رقص کرنے آ جاتی تو وہ خوشی انہیں کبھی نہ دے سکتی‘ جو سلطان کے مجہول سے رقص نے پیدا کر دی تھی۔ ان کی ساری زندگی کے لیے ایک یادگار ریکارڈنگ ہو چکی تھی۔
عادل سوچتا رہا۔ سلطان نے خدا سے یہ شکایت نہیں کی کہ مجھے بھی نارمل بنایا ہوتا۔ وہ تو جیسا تھا‘ اسی طرح میدان میں اترا اور محفل لوٹ کر لے گیا۔ عادل نے کہا: ایک ایسا لڑکا‘ جسے رقص کی الف ب بھی معلوم نہیں تھی‘ اس نے مجھے شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ کیسے‘ آخر کیسے؟
آپ کو معلوم ہے کیسے؟ میں بتاتا ہوں کیسے۔ اگر دنیا والے ایک ٹوٹے پھوٹے رقص کرنے والے کو فاتح قرار دے رہے ہیں تو اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے دماغ کی صلاحیت کم ہے اور اپنے دماغ کے حساب سے اس نے بہت بڑی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بے شک وہ رقص ٹھیک نہیں تھا لیکن اس نے بہترین رقص کرنے والے کو منہ کے بل گرا دیا تھا۔ تو جو تخلیق کرنے والا ہے‘ کیا وہ حساب کرتے ہوئے اس چیز کو ملحوظ نہیں رکھے گا کہ میں نے ایک بندے کو صلاحیت ہی بہت کم دی؟ آپ زندگی میں دوسروں کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ حالانکہ آپ کو مختلف جہت میں کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دانشور نے کیا خوب کہا تھا:
Life is the most difficult exam; many people fail because they try to copy others, not realizing that everyone has a different question paper۔
قرآن میں لکھا ہے: اللہ کسی جان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ہر شخص کی استطاعت مختلف ہے۔ کوئی بجلی کا بل زیادہ آنے پر چیخنا شروع کر دیتا ہے اور کوئی تین ایب نارمل بیٹوں کو انتہائی سکون اور محبت سے پالتا رہتا ہے۔ یہ نہیں سوچتا کہ بڑھاپے میں میرا سہارا کون بنے گا۔ وہ جانتاہے کہ سب امور اُس نیلی چھتری والے کے ہاتھ میں ہیں۔