تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     26-07-2020

مسکرانا واجب ہے

''منفی مواد بکتا ہے‘ اعصاب شکن میڑیل ٹریفک بڑھاتا ہے‘ سنسنی خیزی زیادہ لوگوں کو متوجہ کرتی ہے ‘ بری خبر کشش رکھتی ہے‘ خوف لوگوںکے کان کھڑے کردیتا ہے ‘ انسانی رویہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب سے کوویڈ 19 نے دنیا کو اپنی لپیٹ میںلیا ‘ یہی کچھ دیکھنے میں آیا ۔ ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے ۔ ہر کوئی زیادہ سے زیادہ سنسنی خیز‘ خوفناک اور خراب موادڈال کر سامعین کی توجہ چاہتا ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا کے بہترین افراد جس طرح عالمی وبا سے نمٹ رہے ہیں ‘ اس نے خوف اور غیر یقینی پن میں اضافہ کیا ہے۔ اب یہ بات فطری ہے کہ جن ممالک کے پاس بہترین سائنسی ریسرچ کا ڈھانچہ اور وسائل تھے وہ بھی بے بس دکھائی دیے توغریب اور پسماندہ ممالک کا کیا حال ہوا ہوگا؟ فیس بک‘ واٹس ایپ اور دیگر میڈیا خوفناک کہانیوں اور المناک مثالوں سے لبریز ہیں۔ان کی کہانیوں میں معیشت زمین بوس ہوچکی ہے‘ لوگ مررہے ہیں‘ جرائم کا گراف بلند ہوچکاہے۔ پیغام یہی ہے کہ حالات خراب اور ناقابل ِبرداشت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نہ کسی چیز پر خوشی منانی چاہیے ۔ ممکن ہے کہ خوشی کے زیادہ لمحات نہ ہوں ‘لیکن اچھے واقعات ضرور پیش آرہے ہیں ۔ بُری خبروں کے درمیان اچھی خبروں کی سرگوشیاں بھی ہیں۔ دبی ہوئی سہی لیکن ہیں ضرور۔ ذہنی تنائو بہت زیادہ ہے ؛ چنانچہ ضروری ہے کہ ہم اچھی چیزیں دیکھیں اور دوسروں کے ساتھ شیئر کریں۔ لوگوں کو امید اور مسکراہٹ دیں۔ دنیا معمول کی زندگی کی طرف لوٹنے کی جدوجہد کررہی ہے ۔ مجموعی طور پر زیادہ تر ممالک زندگی اور روزگار کے مواقع کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس حوالے سے آٹھ میدانوں میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینا دلچسپ ہوگا۔ان سے اچھے مستقبل کا پتہ ملتا ہے ۔ 
1: ویکسین کی دریافت سابق اندازوں سے کہیں تیز تر ہوسکتی ہے ۔ عام طور پر ویکسین کی دریافت ‘ جانچ ‘ نتائج اور تیاری وغیرہ کے مراحل میں پندرہ سال لگتے ہیں۔ کوویڈ 19 کی ویکسین کے لیے پوری دنیا کے بہترین دماغ کام کررہے تھے ‘کم از کم ساٹھ نمونے آزمائشی مراحل میں ہیں ‘ تو قع تھی کہ 2021 ء کے وسط میں کہیں جا کر ویکسین بازار میں دستیاب ہوپائے گی ‘ تاہم آکسفورڈ نے تمام اندازوں کو مات دے دی ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ٹیم ویکسین کی تین مراحل پر آزمائش کرچکی ہے۔ ایک برطانوی ادویہ ساز کمپنی آسٹرا زنیکا فراہمی کا نظام ترتیب دے رہی ہے تاکہ ویکسین دنیا بھر میں فوری طور پر دستیاب ہوسکے ۔ اگر اگست میں ہونے والا اس کا ٹیسٹ توقع کے مطابق آگیا تورواں سال کے اختتام تک ویکسین ہنگامی حالات میں استعمال کے لیے دستیاب ہوگی ۔
2: پاکستانی معیشت دنیا کی بہت سی معیشتوں سے سخت جان نکلی ۔ بہت سے امیر ممالک کی معیشت زمین بوس ہوگئی ‘ اُن کے پاس نقدرقم اور خوراک باقی نہ رہی ‘ غریب ممالک غریب تر ہوتے گئے۔ پاکستان کے بارے میں خیال کیا جارہا تھا کہ اس کی معیشت کا کباڑا ہوجائے گاکیونکہ یہ پہلے ہی ڈگمگارہی تھی ‘ مارچ اور اپریل میں اس خدشے کی تصدیق ہوتی دکھائی دی ‘ تاہم مئی کے بعد سے معیشت کے مایوس کن اعدادوشمار میں بہتر ی آنے لگی۔ جس دوران برطانیہ کی معیشت 10.2فیصد‘ امریکا کی 8 فیصد اوربھارت کی 4.5 فیصد سکڑنے کی توقع کی جارہی ہے ‘ پاکستانی معیشت کا زوال خطے میں کم ترین ‘ یعنی 0.4 فیصد ہے۔ درحقیقت پاکستان کی برآمدات میں غیر متوقع طور پر اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے ۔ کچھ بین الاقومی ایجنسیاں آنے والے برس میںایک فیصد معاشی شرح نمو کی پیش گوئیاں کررہی ہیں۔ 
3: برآمدات میں قابل ِ ذکر اضافہ ہوا ہے ۔ خیال کیا جارہا تھا کہ سب سے زیادہ گراوٹ برآمدات میں دیکھنے میں آئے گی ۔ اپریل میں اندازہ تھا کہ مارکیٹیں بند ہونے سے پاکستان کو رواں برس 70فیصد خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ خوفناک حدتک بڑھ جائے گا‘ تاہم مئی میں برآمدات میں کمی50 فیصد اور جون کے آغاز میں33 فیصد رہی ۔ دوسری طرف بنگلہ دیش اور بھارت کو بالترتیب 13 فیصد اور 17 فیصد کمی کاسامنا ہے۔ بیرونی ممالک سے بھجوائی جانے والی رقوم میں ریکارڈ اضافے کی وجہ سے اس وقت کرنٹ اکائونٹ خسارہ انتہائی کم سطح پر ہے ۔ 
4: سٹاک مارکیٹس میں اضافے کا رجحان ہے ۔ غیر یقینی پن پیدا کرتے ہوئے کوویڈ 19 نے بازار ِ حصص کو تباہ کردیا تھا۔ کاروبار میں ہونے والی کمی سٹاک مارکیٹ کے لیے مہلک ہوتی ہے ۔ پاکستانی سٹاک مارکیٹ اتارچڑھائو کا شکار رہی ۔ اس دوران اس پر ایک خوفناک دہشت گرد حملہ بھی ہوا‘ تاہم اب اس میں بہتری آنا شروع ہوگئی ہے ۔ گزشتہ چند ہفتوں سے اس میں آٹھ ہزار پوائنٹس کا اضافہ برقرار رہا ۔ 
5۔ پاکستان اپنی مصنوعات اور مارکیٹس میں جدت لارہا ہے ۔ جس دوران عالمی شہرت یافتہ ملبوسات کے برانڈز کے سٹور بند ہیں اور کچھ کمپنیاں دیوالیہ ہورہی ہیں‘ ٹی شرٹ اور دیگر ملبوسات کی برآمد کو شدید دھچکا لگا ہے ۔ شپمنٹ مسترد کیے جانے سے لگتا تھا کہ کپڑے کی صنعت تباہ ہوجائے گی‘ تاہم جلد ہی پاکستانی برآمد کنندگان نے میڈیکل حفاظتی سامان اور ماسک کے آرڈر لینا شروع کردیے کیونکہ دنیا میں ان کی مانگ بڑھ رہی تھی ۔ بحران سے پہلے پاکستان یہ سامان باہر سے منگواتاتھا لیکن اب یہ ایکسپورٹر بن چکا ہے۔ اس میں دنیا بھر سے ایک سوملین ڈالر سے زیادہ کے آرڈر مل چکے ہیں ۔ اسی طرح پاکستانی برآمدکنندگان نے افریقی اور وسطی ایشیائی ممالک کی مارکیٹس کار خ کرتے ہوئے آرڈر لیے کیونکہ دیگر ممالک سپلائی پوری نہیں کرپارہے تھے ۔ 
6: مقامی تحقیق اور ترقی کا آغاز ہوچکا ۔ اس بحران کا سب سے متاثر کن پہلو یہ ہے کہ اس میں نہ صرف مختلف ملبوسات مشینوں پر تیار کیے گئے بلکہ بہت سی ایسی مشینیں بھی ملک میں ہی بنائی گئیںجو اس سے پہلے پاکستان میں نہیں بنتی تھیں ‘ جیسا کہ وینٹی لیٹرز۔ ان مشینوں کی دنیا میں بہت مانگ ہے ۔ تیار ہونے والے پورٹیبل وینٹی لیٹرزSafe Vent SP 100 کی پہلی کھیپ این ڈی ایم اے کے حوالے کی گئی ۔ ہری پور میں قائم اس پلانٹ پر ہر ماہ تین سو وینٹی لیٹرز تیار کرنے کی گنجائش موجود ہے ۔ 
7: پاکستان نے 2030 ء سے پہلے ماحولیاتی تبدیلی کنٹرول کرنے کا ہدف حاصل کرلیا۔ ہم نے تمام عمر یہی سنا تھا کہ پاکستان عالمی اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ پاکستان ملینیئم ڈ یویلپمنٹ گول حاصل نہ کرسکا۔ ایس ڈی جی بھی مشکل دکھائی دیتا ہے ۔ کوویڈ19 کے دوران یہ سننا واقعی پرمسرت حیرت کاباعث بنا کہ پاکستان نے ماحولیاتی تبدیلیوں کو محدود کرنے کا ہدف ایک عشرے قبل ہی حاصل کرلیا ہے ۔ پاکستان نے یہ گولز دس ارب درخت لگانے ‘ کلین گرین پاکستان‘ ایکو سسٹم ریسٹوریشن فنڈ اور پروٹیکٹڈ ایریا منصوبے کے ذریعے حاصل کیا ہے ۔ 
8: سمارٹ لاک ڈائون اور احساس پروگرام کو عالمی پذیرائی ملی۔ شاید سب سے خوش آئند پہلو پاکستان میں کوویڈ 19 کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کرنا ہے ۔ جس دوران امریکا سمیت عالمی طاقتیں وائرس کو محدود کرنے میں ناکام تھیںتو خدشہ تھا کہ گنجان آبادی رکھنے والے غریب ممالک اس کا آسان شکار ہوجائیں گے ۔ گزشتہ عید کے بعد متاثر ہ افراد کی بڑھنے والی تعداد نے کسی حد تک اس خدشے کی تصدیق کردی تھی ‘تاہم پاکستان کی سمارٹ لاک ڈائون پالیسی نے نہ صرف ہونے والے اضافے کو روک لیا بلکہ امپیریل کالج لندن کے ایک جائزے کے مطابق اس کے پھیلائو کی شرح ایک سے بھی کم رہی ۔ اس طرح پاکستان کا شمار اُن گنے چنے ممالک میں ہوا ہے جنہوں نے کامیابی سے وائرس کا پھیلائوروکا ۔ صرف یہی نہیں ‘ پاکستان کے احساس پروگرام کو عالمی بینک نے ایک کامیاب ماڈل قرار دیا ہے 
قبل از وقت جشن منانا مناسب نہیں ‘ تاہم حوصلہ شکن باتیں خوف کو بڑھاتی اور پیداوار کو روکتی ہیں۔ ایسے نامساعد حالات میں تشویش زدہ چہروں پر مسکراہٹ بکھیرناضروری ہے ۔ انسانوں کے لیے بحالی اور تخلیق کے لیے خوشی اور امید کی ضرورت ہے۔ تو چلیں ‘ ایک مسکراہٹ ہوجائے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved