سب کچھ ہو سکتا ہے، ہو کر رہے گا، ہم نہیں تو کوئی آنے والی نسل ہی کر دے گی۔ سوال یہ ہے کہ جمود سے کیسے چھٹکارا حاصل کریں، دہائیوں سے غالب مایوسی کے سائے کیسے ڈھلیں۔ نقطۂ آغاز کہاں ہو‘ ریاستی، سیاسی اور عوامی توجہ کا مرکز کیا ہو؟ ان سب سوالوں کا جواب موجود ہے۔ انسان تاریخ، مشاہدے اور دوسروں کے تجربوں سے سیکھتا ہے۔ نیت اور قبلہ درست ہو، تو کوئی دیر نہیں لگتی۔ نہ نعروں کے غلغلے کی ضرورت ہے، نہ اشتہار بازی، لمبی تقاریر یا بُری منصوبہ بندی کی۔ سیاست ہو حکمرانی، ترقی یا تبدیلی، اوپر سے نہیں، نچلی سطح سے شروع ہوتی ہے، اور وہیں ختم ہوتی ہے۔ جن ملکوں اور ریاستوں نے یہ راز پا لیا ہے، ان کی ترقی آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ کئی دہائیوں تک ٹِپ اونیل امریکہ کے طاقت ور سیاست دان رہے، اور امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر بھی۔ انہوں نے سیاست پر اپنے تمام تر مشاہدات کی بنیاد پر عملی زندگی کو پیشِ نظر رکھ کر آنے والی نسلوں کے لیے خاصا کچھ لکھ چھوڑا۔ انہوں نے جو کچھ لکھا‘ مختصراً اس کا عنوان اور لبِ لباب یہ تھا ''تمام سیاست مقامی ہوتی ہے‘‘۔ کسی بھی ملک کی مقننہ ہو یا صدارتی عہدہ، انتخاب مقامی ہوتا ہے، شہروں اور دیہات میں بسنے والے لوگ انہیں منتخب کرتے ہیں۔ وہ اپنا منشور بھی عوام کے مسائل، جو ذاتی نہیں عوامی اور ملکی ہوتے ہیں، حل کرنے کی غرض سے سامنے لاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ہر عوامی نمائندے کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے حلقے میں کچھ ترقیاتی کام کرا سکے‘ لوگوں کے کام آئے کہ اس کے بغیر سیاست کے میدان میں سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔
بد قسمتی سے، ہمارے ہاں انگریزی راج سے لے کر آج تک حکومت کا تصور یہ ہے کہ سب کچھ وفاقی حکومت میں وزیر اعظم، ان کی کابینہ، یا صوبائی حکومت میں وزیر اعلیٰ صاحب کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے ذمہ، اگر کرنا چاہیں تو، بہت سے اہم قومی، ریاستی اور ملکی سطح کے کام ہوتے ہیں‘ جیسے پالیسیاں ترتیب دینا، قوانین بنانا، ملک چلانے اور عوامی فلاح کے کام کرنے کے لیے وسائل پیدا کرنے کے علاوہ سلامتی، ترقی، تعلیم اور صحت کے معیار اور رسائی کو ضروری بنانا۔ لیکن دنیا میں کون سی ریاست ہے، جو اس نوعیت کے کاموں میں مصروف نہیں۔ سب کرتے ہیں، لیکن ان کاموں کو سرانجام دینے کا ایک سلیقہ ہے، ترتیب ہے اور نظام ہے۔ ہمارے نظام میں ریاستی اور حکومتی طاقت چند عہدوں اور شخصیتوں میں مرکوز ہے۔ یہ آئینی اور جمہوری نظام کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ جمہوری نظاموں میں، نوعیت جو بھی ہو‘ اختیارات کی تقسیم عمودی بھی ہوتی ہے اور متوازی بھی۔ یہ صرف اختیارات کو بانٹنا نہیں ہوتا، بلکہ ذمہ داریوں کو وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر ترتیب دینا، مسائل کی نوعیت کے اعتبار سے سہل طریقے سے انہیں حل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ ہر بار ہمیں مغرب کی مثال اس لیے دینا پڑتی ہے کہ موجودہ جمہوری اور ریاستی نظام کے تاریخی ارتقا اور نشوونما کا وہ صدیوں سے مرکز رہے ہیں۔ عوام کے حقوق کی فکری اور عملی جنگیں پہلے وہاں ہی لڑی گئیں۔ مقامی حکومت، جمہوری حکومت کا بنیادی ستون ہے۔ مقامی مسائل مقامی حکومتیں ہی حل کرتی ہیں۔ یہ بد قسمتی ہے، کہ ہماری سب منتخب حکومتوں نے مقامی حکومتوں کی ترقی اور استحکام تو کجا، انہیں سرے سے اٹھنے ہی نہیں دیا۔ ہر نئی حکومت نے آ کر اصلاحات کے نام پر منتخب مقامی حکومتوں کو چلتا کیا۔ تحریکِ انصاف نے بھی ''بہتر نظام‘‘ کا نعرہ دے کر جو کچھ زمین پر تھا، اس کو بھی نیست و نابود کر دیا۔ اس وقت پنجاب میں کوئی مقامی حکومت نہیں، سب اختیارات ضلعی نوکر شاہی کے حوالے کر دیئے ہیں۔ پھر دیہات کیسے سدھریں گے؟
عوامی نمائندے مقامی حکومت کے ہوں یا کسی اور سطح کے‘ ہماری نوکر شاہی ان کو حکومت چلانے کا اہل خیال نہیں کرتی۔ ہماری تنقید ان کے کردار، پالیسیوں اور بد عنوانی پر رہتی ہے، مگر جمہوری نقطۂ نظر سے حکومت چلانے کا اہل وہی ہے، جسے عوام نے منتخب کیا ہو، اور جسے عوام کی تائید حاصل ہو۔
سب لکھنے والے دیہات کی زبوں حالی کا رونا روتے رہتے ہیں‘ خصوصاً گندگی، سڑکوں کی بری حالت، طبی و تعلیمی سہولتوں کی عدم فراہمی کے حوالے سے شکایات ان کے لبوں پر رہتی ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لئے مقامی حکومتیں مکمل طور پر با اختیار ہوتی ہیں۔ اختیارات تو صرف کاغذ تک ہی محدود رہتے ہیں اگر وسائل فراہم نہ ہوں۔ برطانیہ اور امریکہ میں مقامی حکومتیں مقامی سطح پر ٹیکسوں کی صورت میں زیادہ تر وسائل خود ہی پیدا کرتی ہیں۔ امریکہ میں تو ان کا ایسا مکمل انتظام ہے کہ ریاستی اور وفاقی حکومت کا بالکل حقیقی عکس۔ عدالتیں مقامی ہوتی ہیں۔ پولیس اور سکولوں کا نظام مقامی حکومتیں ہی چلاتی ہیں۔ فائر بریگیڈ کا نظام اسی کے تحت چلتا ہے۔ تجارت کے لیے ضروری لائسنس بھی وہی فراہم کرتی ہیں جبکہ جائیدادی ٹیکس بھی شہری اور مقامی حکومتیں ہی وصول کرتی ہیں۔
ہم نے سب نظام آزما لیے، صدارتی‘ پارلیمانی، نیم صدارتی، فوجی اور غیر فوجی‘ لیکن دیہات کی حالت جوں کی توں ہے۔ اس میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔ بعض علاقوں میں تو دیہات آج بھی پس ماندہ ہی ہیں۔ اگر کوئی بہتری کہیں پر دکھائی دیتی ہے تو کچھ متحرک ارکان اسمبلی اور کچھ مقامی لوگوں کی ہمت کا نتیجہ ہے۔ دیہی مسائل کا مسئلہ غور طلب ہے، مگر اس کا حل پارلیمانی جمہوریت ہی ہے۔ جہاں سرپرستی کی سیاست زوروں پر ہو، مقامی حکومتوں کو اختیارات اور وسائل کی فراہمی نا ممکن تو نہیں سیاسی مصلحتوں کا شکار ضرور ہو جاتی رہی ہے، اور اب بھی ہے۔ اراکینِ اسمبلی فرماتے ہیں کہ انہیں ترقیاتی فنڈز نہ دیئے گئے اور ان کے اختیارات مقامی سطح پر ضلعی حکومتوں کے تعاون سے برقرار نہ رکھے گئے تو وہ دوبارہ منتخب کیسے ہوں گے؟ ان کا دبائو شہباز شریف صاحب پر تھا اور اب عمران صاحب پر بھی ہے۔ یہاں بزدار صاحب کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ پارٹیاں تو ماضی کا حصہ بن چکیں، اب تو صرف دھڑے بندیاں ہیں۔ دھڑے یہی چاہتے ہیں کہ مقامی حکومتیں سرے سے بنیں ہی نہیں، اگر بن بھی جائیں تو ان کے اختیارات اور کارکردگی کو محدود رکھا جائے۔
پنجاب میں بلدیاتی نظام کا نیا خاکہ اور قانون میرے نزدیک قابلِ ستائش ہے‘ ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ اور اگر اس پر عمل درآمد شروع کر دیا جائے، تو باقی صوبوں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔ مگر ابھی سب کچھ کاغذوں اور فائلوں میں بند ہے۔ اس میں شہری اور مقامی حکومتوں کی تعداد بڑھائی گئی ہے، سینکڑوں سے ہزاروں میں۔ دیہی حکومت کا ہر گائوں کی سطح پر دیہات کونسل کی تشکیل اس تصور کے بالکل قریب ہے جو ہم مغرب میں دیکھتے ہیں‘ اور یہ بھی کہ ہر دیہات کونسل کو ترقیاتی کاموں کی نشاندہی، منصوبہ بندی اور اس کے لیے وسائل کی فراہمی براہ راست ہو گی۔ ماضی میں یہ ہوتا رہا ہے کہ دیہات کو ہم نے ضلعی حکومت پر اور ہر ضلعی حکومت کو صوبائی حکومت کے زیر اثر بلکہ مغلوب رکھا ہے۔ سب اختیارات اور وسائل کے لیے محتاج رہے۔ یہ محتاجی ختم ہو، اور مقامی خود مختاری کو آپ ایک دفعہ آزما کے دیکھ لیں۔ یہی طریقہ ہے کہ لوگوں میں اختیارات کے ساتھ ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اپنے کچرے کے ڈھیروں کو صاف کرنے کے لیے وہ ضلع یا تحصیل کی حکومت کی طرف نہیں دیکھیں گے۔ میرے خیال میں مثالی دیہات کونسلیں تو ابھی سے قائم کر دینی چاہئیں۔ دائرہ کار مقامی مسائل کے لحاظ سے متعین ہو تو لوگوں کی اپنی مقامی حکومت تک صرف رسائی نہیں ہو گی بلکہ آہستہ آہستہ وہ سوال بھی کر سکیں گے کہ ان کے مسائل حل کیوں نہیں ہوئے۔ اگر جمہوریت کی مقامی بنیاد مضبوط نہ ہوئی تو پھر ہمیں ہوائی جمہوریت کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔