تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     27-07-2020

Rise of East

بے شک واقعات علیحدہ علیحدہ ہیں لیکن ذرا غور سے دیکھیں، اِن میں ایک تسلسل صاف طور پر نظر آ رہا ہے۔ صرف تھوڑے سے عرصے میں رونما ہونے والے ان واقعات نے دنیا کی سیاست کو گُھما کر رکھ دیا۔
ان میں سے پہلا واقعہ اگرچہ امریکہ بہادر کے ہاتھوں رونما ہوا، لیکن اس کا محل وقوع ایشیا کے حصے میں آیا۔ یہ تھا مسلمانوں کی فلسطینی ریاست کے مقدس مرکز، بیت المقدس کو اسرائیل کا مستقل کیپیٹل آف دی نیشن قرار دینے کا فیصلہ‘ جو 2017 میں دسمبر کی 6 تاریخ کو ہوا۔ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ 1967 میں عرب کی کمزور ریاستوں میں اتنی جان بھی نہیں تھی کہ وہ بیت المقدس کے لئے محض 5 لاکھ آبادی والے یہودی آباد کاروں کے جنگی کیمپ نما ملک کو عرب زمینوں پر توسیع پسندی سے ہی روک دیتے۔ سال 1967 جون کی 7 تاریخ سے لے کر 27 جولائی 2020 تک 53 سال، 1 مہینہ، 20 دن گزرنے کے بعد بیت المقدس پر اسرائیل کا جبری قبضہ امریکی سطح پر تسلیم کروا دیا گیا۔ کوئی اسے مسلمان قوم کی سیاہ بختی کے علاوہ اور کیا کہہ سکتا ہے کہ آج بھی عرب زمینوں کے وسائل کے انبار اور توپوں کے گولے لیبیا سے یمن تک اور شام سے عراق تک ایک دوسرے پر ہی گرائے جا رہے ہیں۔ 
ایسے میں دنیا بھر کے 1 ارب 80 کروڑ مسلمان اور ان کی ریاستوں کے منیجرز، 2 حصوں میں تقسیم ہیں۔ اکثر منیجرز، مصلحت کو ملّت پر ترجیح دیتے آئے ہیں۔ دوسری جانب عوامی سطح پر امت مسلمہ کے لوگ ہر مسئلے پر احتجاج بلند کرنے اور آواز اُٹھانے کو اپنا مقدس فرض سمجھتے ہیں۔ مسلم ریاستوں میں عوامی جذبات کے اظہار کا یہ سلسلہ اسرائیل کے قیام کے اعلان کے ساتھ عروج پہ چلا گیا‘ جبکہ یہ تڑپ خلافت عثمانیہ کے خاتمے سے لے کر آج تک ہر جگہ موجود ہے۔ جناب خالد مسعود فوزی نے بہت خوب کہا:
رہِ طلب میں اِک احتیاجِ عزمِ سفر
کوئی الم نہیں، گرداب میں سفینہ ہو 
وہاں حیات اُبھرتی ہے تازہ دم ہو کر 
جہاں تلافیٔ مافات کا قرینہ ہو
پچھلے ایک سال کے عرصے میں شاید قدرت کو مسلمانوں کی اس قابل رحم حالت پر رحم آ گیا ہے؛ چنانچہ ایشیا کے تین حکمرانوں نے اپنی اپنی ریاستوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی اپنی طرف سے زوردار آواز اٹھائی ہے‘ جیسا کہ پوری دنیا کو مخاطب کر کے ملائیشیا کے عظیم مسلم آئیکون مہاتیر محمد صاحب نے مسلمانوں کو دہشت گرد ماننے سے انکار کیا‘ پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان نے یو این ایس سی کے سٹیج پر سے اسلامو فوبیا کو للکارا‘ جبکہ تُرکی کے صدر جناب رجب طیب اردوان نے القدس سے اُٹھنے والی سسکیوں کو سن لیا۔ اپنے ہوں یا پرائے ہوں ترکی کے اس دلیر بیٹے نے ان کے ہاتھوں دبائو میں آنے یا کسی طرح سے بھی بلیک میل ہونے سے انکار کر دیا۔ اس پس منظر میں اُن واقعات کو سمجھنا بہت آسان ہو گا جن کے درمیان تسلسل کا ذکر پہلے ہوا ہے۔
اسی سلسلے کا دوسرا واقعہ پڑوسی دوست ملک ایران کے کوسٹل شہر چاہ بہار میں رونما ہوا۔ وہی چاہ بہار جہاں سے سال 2016 میں انڈین نیوی کا کمانڈر کلبھوشن سُدھیر یادیو پاکستان میں تباہ کاریاں کرنے داخل ہوا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں جو پاسپورٹ تھام رکھا تھا‘ اس پر اس کا نام حسین مبارک پٹیل لکھا تھا۔ بھارت کے جاسوس دہشت گرد کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ صرف تین چار سال کے عرصے میں بھارت چاہ بہار سے بے دخل کر دیا جائے گا‘ جہاں پہ وہ ڈیپ سی بندرگاہ کے منصوبے کا مالی پارٹنر بھی تھا۔ بھارت ایرانی چاہ بہار سے بے آبرو کر کے نکالے جانے پہ خوب شور مچا رہا ہے۔ بھارتی میڈیا نے ایران پر ہر وہ الزام لگا دیا جو وہ عشروں سے پاکستان پر لگاتا آ رہا ہے۔ ابھی بھارت کے میڈیائی جاں باز، ایرانی چاہ بہار سے انڈیا کی ذلت آمیز بے دخلی سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ اگلا واقعہ رونما ہو گیا‘ اور وہ یہ کہ ایران نے قدرتی گیس پائپ لائن کے بہت بڑے علاقائی منصوبے Farzad-B Gas Project سے بھی بھارت کو نکال باہر کیا۔ ملٹی نیشنل پارٹنر شپ کے اس منصوبے سے نکلنے پر بھارت اس وقت شدید غصے میں ہے اور اپنے ہی غضب میں تلملا رہا ہے۔ محض چند دنوں کے اندر اندر ایرانی چاہ بہار کے بعد دوسری بے دخلی پر بھارتی میڈیا نے ایران کے ساتھ ساتھ چین اور پاکستان کو بھی نشانے پر رکھ لیا ہے۔
ایشیا میں کئی اعتبار سے گیم چینجر واقعات کا سلسلہ آگے بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ اسی دوران برادر اسلامی ملک ترکی کی ایک اعلیٰ عدالت کا اعلیٰ فیصلہ آ گیا۔ 10 جولائی 2020 کے تاریخ ساز دن ترکی اعلیٰ ترین عدالت، کائونسل آف سٹیٹ نے تفصیلی سماعت کے بعد یہ فیصلہ سنایا کہ استنبول میں واقع آیا صوفیہ کی تاریخی عمارت کا سٹیٹس بطور مسلم عبادت گاہ بحال کر کے اسے نمازیوں کے لئے کھول دیا جائے۔ آیا صوفیہ کی عظیم مسجد کو 86 سال پہلے نمازیوں اور اذان سے محروم کر دیا گیا تھا۔ آیا صوفیہ مسجد کو جدید ترکی کا باپ کہلانے والے مصطفیٰ کمال اتا ترک اور عصمت انونو نے ایک مغربی سکالر کے کہنے پر میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا۔ ایسا میوزیم جس میں مسجد اور چرچ دونوں کے آثار موجود تھے‘ مگر مسجد میں قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے، نماز ادا کرنے اور اذان کی آواز بلند کرنے پر پابندی لگا دی گئی؛ تاہم مسجد آیا صوفیہ میں کرسچین زائرین کو آنے اور مذہبی رسوم ادا کرنے کی آزادی تھی۔ دو روز پہلے جمعہ کے دن ترکی کے صدر رجب طیب اردوان صاحب نے آیا صوفیہ میں با جماعت نماز پڑھی۔ مسجد کے امام صاحب نے جمعہ کا خطبہ ادا کرتے وقت منبر پر اپنے ہاتھ میں وہ تلوار تھام رکھی تھی جس کے ذریعے سلطان محمد فاتح نے سال 1453 عیسوی میں استنبول فتح کیا تھا‘ جس کے ساتھ ہی اس علاقے میں رومن ایمپائر کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا تھا۔
مغرب کے کچھ لوگ کہتے ہیں‘ ترکی نے بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کا بدلہ لیا ہے۔ کچھ کا کہنا ہے‘ چرچ کو مسجد کیسے کہا جا سکتا ہے؟ وہ سارے غرناطہ سے شرق و غرب میں ان 5 ہزار سے زائد مساجد کو بھول جاتے ہیں جن میں چرچ بنے، سٹور روم بنے اور جانوروں کے باڑے بنے، جو آج بھی موجود ہیں۔ جسے شک ہو وہ سوشل میڈیا کے آرکائیوز دیکھ لے۔ پچھلے سال 38 لاکھ سیاح آیا صوفیہ کی زیارت کو آئے۔ طیب اردوان نے کہا: نمازِ جمعہ میں 35 لاکھ لوگ شریک ہوئے۔ آپ دنیا کے کسی خطے میں مسلمان سے پوچھ لیں، وہ کہے گا: آیا صوفیہ میں 1 ارب 80 کروڑ مسلمانوں نے نماز کی تسکین اور قوت حاصل کی ہے۔
فرانس کے صدر Emmanuel Macron صاحب نے پیرس میں ترکی کا ایک سکول بند کیا۔ جواب میں ترکی نے سارے فرانسیسی سکول بند کر دیئے۔ صرف گھنٹوں میں میکرون ایگزیکٹیو آرڈر واپس ہو گیا۔ فرانسیسی صدر نے بڑے پن کا مظاہرہ کر کے اپنے اقدام کو غلط قرار دیا اور ترکوں سے کُھلی معافی مانگ لی۔
جینٹلمین! میرے نزدیک واقعات کا یہ تسلسل رائز آف ایسٹ کا ثبوت ہے۔ ملائیشیا اور نیپال بھی اسی کا حصہ ہیں۔ پاکستان کے بعد چین نے ایران سے معاہدے کیے۔ ایران ترکی سے تعلقات بحال کرنا چاہتا ہے۔ رُوس کا ترکی سے مفاداتی اشتراک ہے۔ اشتراک سب نے سیریَن کانفلکٹ میں دیکھ لیا۔ وقتِ موجود اور آنے والے عشرے ڈیڑھ عشرے میں طاقت کا توازن تاریخ کے اس نئے دھارے میں ہے۔ بھارت تاریخ کی غلط سائیڈ پر کھڑا ہے۔ تاریخی غلطی سے کوئی سبق سیکھے یا نہ سیکھے؛ تاریخ اسے سبق سکھا کر چھوڑتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved