تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     27-07-2020

مائنس عوام تو مائنس آل

کیا حزبِ اقتدار‘ کیا حزبِ اختلاف‘ کیا حریف‘ کیا حلیف سبھی کے دلوں میں نہ صرف لڈو پھوٹ رہے ہیں بلکہ یہ بغلیں بھی بجاتے پھرتے ہیں کہ نیب کی کارکردگی پر اُٹھنے والے سوالات کی آڑ میں وہ اپنی لوٹ مار اور کرپشن کو تحفظ دینے میں کہیں نہ کہیں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ احتسابی عمل کو انتقامی کارروائیاں قرار دینا اسی مائنڈ سیٹ کی پیداوار ہے جس کے تحت ماضی میں بعض حکمرانوں نے یہ ادارہ بنایا تھا۔ یوں تو مملکتِ خداداد کے سبھی حکمرانوں اور اشرافیہ کی بد اعمالیوں کی اَنگنت داستانیں منظر عام پر آچکی ہیں‘ لوٹ مار اور نفسانفسی کے اس گھمسان میں نہ کسی حکمران نے کوئی لحاظ کیا اور نہ ہی کسی منصب دار نے کوئی حیا کی۔ ایسا اندھیر مچائے رکھا کہ بند آنکھ سے بھی سب کچھ صاف نظر آرہا ہے۔ ٹریفک سگنل سے لے کر آئین اور قانون تک‘ بلند بانگ دعووں سے لے کر عہدوپیماں تک‘ان لوگوں نے کیا کچھ نہیں توڑا۔ 
جس معاشرے میں قیادت کی دیانت پر سوالیہ نشان لگ جائے تو کیسی حکومتیں اور کیسی قیادتیں؟ سیاسی مخالفین کو احتساب کی آڑ میں زیرِ عتاب رکھنے کی روایت کا آغاز نواز شریف نے کیا۔ ماضی کے احتسابی سربراہان حکمرانوں کی کٹھ پُتلی بن کر اُن کے اشاروں پہ کام کرتے رہے۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل کروانی ہوں یا سربلند کو سرنگوں کرنے کا ٹاسک ہو‘ ان لوگوں نے جبر کا بدترین نمونہ بن کر حکمرانوں کی سبھی خواہشات پوری کیں۔ سیاسی حریفوں کو کچلنے سے لے کر اختلاف ِرائے اور آزادیٔ اظہارکا گلا گھونٹنے تک نواز شریف صاحب کے پروردہ اور احتسابی ادارے کے پہلے سربراہ سیف الرحمن اپنے آقا کے سبھی احکامات انتہائی مستعدی اور فرمانبرداری سے بجا لاتے رہے۔ 
سیاسی مخالفین کو انتقام اور عناد کی بھٹی میں جلانے کیلئے امتیازی قوانین اور طاقت کے استعمال کا رواج ہر دور میں رہا ہے جبکہ زیر عتاب رہنے والوں نے بھی اقتدار میں آکر اپنے پیش رَوئوں کو کبھی معاف نہیں کیا۔ احتساب کے نام پر انہیں بھی نہ صرف وہی رگڑا لگوایا بلکہ قیدوبند کے ساتھ ساتھ مختلف عذابوں سے بھی دوچار رکھا۔ بوئے سلطانی کے مارے حکمرانوں کے چند واقعات نمونے کے طور پر پیشِ خدمت ہیں۔ صدر ایوب کے دورِ میں ایبڈو( Elected Bodies Disqualification Ordinance )کے تحت درجنوں سیاست دانوں کو نااہل قرار دے کر ان کی سیاست پر تاحیات پابندی لگائی جاتی رہی ۔ متاثرہ سیاست دانوں میں سیدہ عابدہ حسین کے والد کرنل عابد حسین بھی شامل تھے‘ جبکہ لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے ایوب کھوڑو بھی اس قانون اور جبر کا نشانہ بن کر نااہل قرار پائے‘ جس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کو موافق حالات اور صاف میدان میسر آسکا۔ اسی طرح چوہدری ظہور الٰہی پر بھینس چوری کا مقدمہ بھی ملکی تاریخ کا انوکھا اور ناقابلِ فہم واقعہ ہے۔ ایبڈو قوانین کی زد میں آنے والے سیاستدانوں پر الزامات بھی دورِ حاضر سے کچھ مختلف نہ تھے۔ اختلافِ رائے اور حکومت مخالف سرگرمیوں کو ملکی سا لمیت سے متصادم‘ انتشار اور انارکی قرار دے کر ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا گیا جبکہ حکومتِ وقت کے خلاف بولنا یا اس کے طرزِ حکمرانی پر تنقید کرنا‘ ریاستی جبر اور حکمرانوں کے عتاب کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ ادھر کسی نے لب کشائی کی اُدھر اس پر ایبڈوکا قانون لگا کر نااہل اور قابلِ گرفت قراردے دیا جاتا تھا ۔ 
ذوالفقار علی بھٹوصدر ایوب خان کی کابینہ میں شامل تھے ‘پھر اُنہیں کے خلاف برسرِ پیکار بھی رہے اور برسرِ اقتدار آنے کے بعد سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے دورِ ایوبی کے سکھائے ہوئے گُر بھی آزماتے رہے۔ بم برآمدگی کے بعد عدالتی کٹہرے میں کھڑے اُستاد دامن کو جب اپنی صفائی میں بولنے کا موقع دیا گیا تو وہ صرف اتنا ہی کہہ پائے کہ جس نے مجھے یہاں لا کھڑا کیا ہے کل وہ خود بھی اسی جگہ کھڑا ہو گا۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو استاد دامن کے زبان و بیان سے کس قدر تنگ اور نالاں تھے پھرچشمِ فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ کٹہرے میں کھڑے استاد دامن کے وہ الفاظ ذوالفقار علی بھٹو کے لیے مکافاتِ عمل بن گئے۔ 
اسی طرح ضیاء الحق کے دور میں ملک و قوم پر افتاد ہی آن پڑی‘ اقتدار کو طول اور استحکام دینے کے لیے جو جھانسے اور حربے آزمائے گئے وہ بھی ہماری تاریخ کا ایک بدترین دور تھا۔ کیا ریاست‘ کیا سیاست‘ کیا صحافت سبھی پر قیامت ہی ٹوٹ پڑی‘ ریاستی مشینری مارشل لاء کے تابع رہی تو صحافت اور آزادیٔ اظہار کو نہ صرف کڑی پابندیوں کا سامنا رہا بلکہ کارکن صحافیوں کی کثیر تعداد کو قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ اسی طرح ضیاء الحق کے تربیت یافتہ نواز شریف نے بھی سیاسی مخالفین کو زیر عتاب رکھنے کی روایت کو جاری رکھا۔ انسدادِ دہشت گردی کا قانون ہو یا احتساب بیورو‘ سبھی کو مخالفین کی گھات پر لگا دیا گیا۔ بینظیر کے دور میں نامناسب زبان استعمال کرنے پر شیخ رشید کو طویل عرصہ پابندِ سلاسل رکھا گیا‘ شریف برادران کے خلاف مقدمات اور انتقامی کارروائیاں بھی جواب آں غزل کے طور پر برابر جاری رہیں‘ کردار کشی سے لے کر ایک دوسرے کو غدار کہنے تک کسی نے کسی بھی الزام سے گریز نہیں کیا؛تاہم پھر مملکت کی تاریخ میں پہلی بار چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ یہی ادارہ حکمرانوں اور اشرافیہ سے جواب طلبی کی علامت بن گیا ۔اقتدار اور اختیار کے نشے میں یک طرفہ اور عوامی مفادات کے برعکس فیصلوں کے ایڈونچر کرنے والوں سے بھی پوچھا گیا کہ تم نے یہ فیصلے کس قانون اور ضابطے کے تحت کیے؟ ملکی وسائل اور معیشت کو کیوں بھنبھوڑتے رہے ؟ سماجی انصاف اور اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال کر رکھ دیا‘ کیوں؟ سبھی کو یکساں طور پر جوابدہی کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ کیا حکومت کیا اپوزیشن‘ کیا افسر شاہی ‘کیا سہولت کار‘ سبھی کو احتساب کی چکی میں برابر کا پیس ڈالا گیا۔ شریف برادران ہوں یا زرداری‘ و ہ سب شجرِ ممنوعہ بھی جڑ سے اُکھاڑ پھینکے گئے جن کو ہاتھ لگانے کا تصور بھی محال تھا۔ 
دورِ حکومت نواز شریف کا ہو یا بینظیر کا‘ پرویز مشرف کا ہویا آصف علی زرداری کا... درآمدی وزرائے اعظم معین قریشی اور شوکت عزیزسے لے کر موجودہ حکمرانوں تک‘ کون کیا ہے‘ کہاں سے آیا ہے‘ کیسے آیا ہے اور کس مقصد سے آیا ہے‘ یہ حقیقتیں اب ظاہر ہو چکی ہیں‘ تو پھر کیسا میرٹ اور کہاں کی گورننس؟ باریاں لگی ہوئی ہیں‘ عوام دربدر اور زندہ درگور نظر آتے ہیں۔اس منظر کا پس منظر کون نہیں جانتا۔ کسے نہیں معلوم کہ اس سیاہ بختی کی سیاہی بے کس اور لاچار عوام کے منہ پر کس نے ملی ہے؟ یہ تاریکیاں اور اندھیرے کئی دہائیوں سے عوام کا کیوں مقدر بنے چلے آرہے ہیں۔ احتسابی عمل سے خائف کیا حریف کیا حلیف سبھی باہمی مفادات کے جھنڈے تلے اکٹھے ہو کر نیب کے خلاف متحد نظر آتے ہیں۔ اگر یہ سب اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تو جزا اور سزا سمیت مکافاتِ عمل کے تصور سے عوام کا یقین ہمیشہ کے لیے اٹھ جائے گا۔ 
وزیراعظم عمران کا تازہ ترین بیان اخبارات میں نمایاں نظر آرہا تھا کہ انہوں نے 2018ء کے عام انتخابات میں دو جماعتی گٹھ جوڑ توڑ دیا ہے۔ وزیراعظم کا یہ دعویٰ سوفیصد درست ہے‘ لیکن یہ گٹھ جوڑ انصاف سرکار کے غیر سنجیدہ اور اناڑی چیمپئنز کی وجہ سے دوبارہ جُڑتا نظر آرہا ہے۔ عوامی توقعات اور مفادات کے برعکس اقدامات انصاف سرکار کی روزِ اوّل والی مقبولیت کو کہاں سے کہاں پہنچا چکے ہیں؟ اگر انصاف سرکار نے احتساب کے خلاف متحد اشرافیہ کی حوصلہ افزائی کی تو اس کے اپنے چند دانے احتساب کی چکی میں پسنے سے ضرور بچ سکتے ہیں‘ لیکن یاد رہے کہ یکطرفہ اور مائنس عوام فیصلے ہی مائنس ون‘ مائنس تھری اور مائنس آل جیسی تھیوری کو جنم دیتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved