تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     27-07-2020

نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری!

پاکستان میں پب جی گیم پر پابندی کا معاملہ ان دنوں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے‘ جبکہ دوسری طرف ملک میں یُو ٹیوب پر پابندی لگانے کا سوچا جا رہا ہے۔ پب جی گیم پر پابندی دو ہفتے قبل پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے لگائی تھی۔ پی ٹی اے کو عوام کی جانب سے شکایات موصول ہوئی تھیں کہ یہ گیم نوجوانوں میں متشددانہ رویے پیدا کر رہی ہے جبکہ اس گیم کی وجہ سے سے کئی نوجوان خود کشی بھی کر چکے ہیں۔ میں نے اپنے گزشتہ ایک کالم میں واضح طور پر لکھا تھا کہ اس گیم کے پیچھے موجود عالمی مافیا مالی طور پر اس قدر پر مضبوط ہے کہ اس کے راستے میں آنے والی تمام رکاوٹیں تحلیل ہوتی چلی جاتی ہیں۔
پب جی گیم کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسے کھیلنے والا نہ دن دیکھتا ہے نہ رات‘ وہ ایک نشے کی طرح اس سے چمٹ جاتا ہے۔ والدین کی اصل کمائی ان کی اولاد ہوتی ہے اور آج اولادیں ان گیموں کی وجہ سے اپنے والدین‘ دین‘ تعلیم اور معاشرے سے کٹتی جا رہی ہیں۔ میں نے انٹرنیٹ پر ذاتی طور پر بھی لوگوں سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آخر وہ کون سے فوائد ہیں جن ثمرات کا علم صرف ان افلاطونوں کو ہے جو اسے کھیلتے ہیں یا جو اس پر پابندی کی وجہ سے بے چین ہیں۔ مجھے جو فائدے معلوم ہوئے وہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ فیصلہ آپ خود کر لیجئے۔ پب جی کی حمایت کرنے والے کہتے ہیں کہ گیم کھیلنے والوں کی یادداشت بہت مضبوط ہو جاتی ہے۔ گیم کھیلنے والے بہترین کوآرڈی نیشن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ ایک وقت میں کئی کام کرنے کے ماہر ہو جاتے ہیں۔ ان کے دماغ کے کام کرنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ کسی کام پر فوکس کرنے کے ماہر ہو جاتے ہیں۔ یہ گیم کھیلنے والے مشکلات کو حل کرنا زیادہ بہتر طریقے سے سیکھ لیتے ہیں۔ اور آخری چیز جو کسی نے حمایت میں بتائی ہے وہ ان کی سوشل سکلز ہیں کہ یہ نوجوان سوشل تعلقات اور معاملات کے ماہر ہو جاتے ہیں۔ اب آپ پب جی کا نشہ یعنی اسے کھیلنے والے کسی نوجوان کو دیکھئے اور اوپر بیان کردہ ''فوائد‘‘ سے ان کا موازنہ کیجئے‘ آپ کو ان میں ایک بھی چیز مشترک نہیں ملے گی۔ یہ خوبیاں وہ اپنی زندگی میں استعمال تب کریں گے جب گیم سے ان کی جان چھوٹے گی۔ دن رات کونے کھدرے میں بند یہ نوجوان نہ تو سوشل رہتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کام میں دھیان دیتے ہیں کہ جس سے ان کے دماغ کے تیز ہونے کا ثبوت مل سکے۔ ماہرین کے مطابق کمپیوٹر سکرین کے سامنے مسلسل تیس سے چالیس منٹ سے زیادہ بیٹھنا آنکھوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ کمپیوٹر کا کام کرنے والوں کو بھی کہا جاتا ہے کہ وہ آدھا گھنٹہ یا ایک گھنٹہ کام کرنے کے بعد سکرین سے نظریں ہٹا لیں اور چند منٹ کے لئے چل پھر لیں۔ کسی سے کچھ دیر بات چیت کر لیں اور اس کے بعد دوبارہ سکرین کے سامنے بیٹھیں۔ اس سے ان کا دماغ بھی فریش ہو جائے گا اور وہ مسلسل آنکھوں پر زور ڈالنے سے بھی بچ جائیں گے۔ جبکہ پب جی گیم مسلسل دس دس گھنٹے کھیلی جاتی ہے جو آنکھوں کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ آخری سب سے بڑا نقصان وقت کا ضیاع ہے جو اس وقت قیمتی ترین متاع ہے۔ یہ وقت دوبارہ واپس نہیں آ سکتا‘ نوجوان مگر سمجھنے کو تیار نہیں۔ میں خود یہ مانتا ہوں کہ کسی بھی چیز پر پابندی لگانا اس کا حل نہیں‘ لیکن بعض اوقات انسان یا ریاست کو اپنے بچوں اپنے عوام کے حق میں ایسے فیصلے کرنا پڑتے ہیں جنہیں کرتے وقت بہت مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اداروں کو یہ کہہ کر گمراہ کر رہے ہیں کہ گیم بند ہونے سے پاکستان میں ای کامرس کو نقصان پہنچے گا اور ہم دنیا میں پیچھے رہ جائیں گے۔ یہ سراسر جھوٹ پر مبنی لاجک ہے۔ ای کامرس کا پب جی سے کوئی تعلق نہیں۔ پب جی سے پچانوے فیصد سے زیادہ پیسہ اس گیم کے مالک کو ملتا ہے باقی لوگ صرف ٹائم اور جوانی برباد کرتے ہیں۔ 
پاکستان میں ای کامرس کی ترقی کی وجہ فری لانسنگ اور سافٹ ویئر ایکسپورٹ ہے پب جی نہیں۔ پاکستان میں ڈیجی سکلز اور ای روزگار جیسے کئی سرکاری منصوبے ہیں جو نوجوانوں کو گھر بیٹھ کر ڈالر کمانے میں معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سافٹ ویئر کی برآمدات میں ہمارا بڑا کردار ہے۔ ای کامرس میں اگر اضافہ کرنا ہے تو اس کے لئے پب جی کی بحالی نہیں بلکہ کچھ اور اقدامات کی ضرورت ہے جن میں سرفہرست پے پال جیسی ادائیگی کی سہولیات کو یہاں لانا ہے۔ اس کے علاوہ فیس بک کو بھی پاکستان میں مونیٹائزیشن کی اجازت ہونی چاہیے۔ اسی طرح ایمازون‘ ای بے وغیرہ پاکستان میں آئیں تو آن لائن خریدوفروخت میں بے بہا اضافہ ہو سکتا ہے۔ یوٹیوب بھی پاکستان میں آئی ٹی برآمدات میں اہم ترین کردار ادا کر رہی ہے مگر بدقسمتی سے اسے بند کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں یو ٹیوب چینل پانچ چھ سال قبل تک صرف تفریح کی خاطر استعمال کیا جاتا تھا‘ لیکن آج اس کا استعمال یونیورسٹی سے بھی آگے بڑھ چکا ہے۔ کچھ منفی ذہن رکھنے والے افراد نے ایسی ویڈیوز اپ لوڈ کرنا شروع کر دی ہیں‘ جن کی وجہ سے سے پاکستان میں یوٹیوب کو بند کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یوٹیوب لاک ڈاؤن کے دوران بچوں بڑوں سب کے لیے ایک نعمت ثابت ہوئی ہے۔ آن لائن تعلیمی لیکچرز سے فائدہ اٹھا کر بچوں نے اپنا قیمتی وقت بچایا ہے جبکہ بیروزگار نوجوان روزگار کے نئے طریقے سیکھ کر کمانے کے بھی قابل ہوئے ہیں۔ بہت سے بے روزگار صحافیوں‘ جو معاشی بحران کا شکار ہوئے ہیں‘ نے بھی یوٹیوب کا رخ کیا اور وہاں سے اپنے گھر کا دال دلیا چلانے لگے۔ یہ تمام لوگ بھی یوٹیوب بند ہونے کی وجہ سے سے نئے بحران کا شکار ہو جائیں گے۔ آج اگر ہم یوٹیوب کو اس وجہ سے بند کر دیں گے کہ اس کے ذریعے لوگ منفی پروپیگنڈا کر رہے ہیں تو اس سے ان کا کوئی نقصان نہیں ہو گا اور یہ کسی اور پلیٹ فارم کے ذریعے اپنا یہ دھندہ جاری رکھیں گے۔ وہ فیس بک کا سہارا لیں گے‘ انسٹا گرام پر چلے جائیں گے یا کہیں اور‘ جبکہ اس کا اصل نقصان پاکستان کی برآمدات‘ پاکستان کے بے روزگار افراد اور خود حکومت کو ہو گا کیونکہ اس وقت ملک میں نوکریوں کی پہلے ہی بہت زیادہ کمی ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کئی ادارے بند ہو چکے ہیں‘ کئی بند ہونے کے قریب ہیں تو اس وقت یوٹیوب کو بند کرنا ہزاروں لاکھوں پاکستانیوں کے پیٹ اور ان کے اہل خانہ کی روزی پر لات مارنے اور انہیں فاقوں کی دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ اگر بند ہی کرنا ہے تو پب جی جیسی گیموں کو بند کرنا چاہیے جن کا معاشی فائدہ ایک فیصد بھی نہیں ہو گا جبکہ یوٹیوب کو بند کرنے کا مطلب ڈیجیٹل پاکستان کو بند کرنا ہو گا۔ اس سے بھارت سب سے زیادہ فائدہ اٹھائے گا۔ جو لوگ یو ٹیوب کو منفی پروپیگنڈے کے لئے استعمال کرتے ہیں انہیں اپنا محاسبہ خود کرنا چاہیے بلکہ شرم کرنی چاہیے کہ اگر وہ ٹیکنالوجی بنا نہیں سکتے تو کم از کم اس کا درست استعمال ہی سیکھ لیں۔ ان کی اس شر انگیزی کی وجہ سے لاکھوں گھرانوں کا مستقبل اور روزگار دائو پر لگ رہا ہے۔ ویسے میرے خیال میں ایسے لوگو ں کو زیادہ اہمیت دینا مناسب نہیں۔ یو ٹیوب پر اس وقت نوے فیصد سے زائد ویڈیوز مثبت موضوعات پر بن رہی ہیں جبکہ ہر چیز کا منفی استعمال کرنے والے بھی ہوتے ہیں‘ انہیں اہمیت دے کر بانس پر چڑھانے کی ضرورت نہیں۔ جیسے جیسے اچھا کام کرنے والوں کی تعداد بڑھتی ہے‘ منفی پروپیگنڈا کرنے والے عناصر اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ ویسے یوٹیوب کو بند کرنے سے بہتر ہے‘ کیوں نہ ملک میں انٹرنیٹ ہی منقطع کر دیا جائے کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved