پاکستان کو سر سبز بنانے کی کوششیں اہم ہیں: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''پاکستان کو صاف اور سر سبز بنانے کی کوششیں اہم ہیں‘‘ اگرچہ اب تک یہ نہ تو پوری طرح صاف ہو سکا ہے اور نہ ہی سر سبز، لیکن ہم صرف کوشش ہی کر سکتے ہیں۔ آگے صاف اور سر سبز ہونا اس کا اپنا کام ہے جبکہ ہم اپنا کام یعنی کوششیں پوری شد و مد سے کر رہے ہیں لیکن یہ بدقسمت ملک کرپشن سے بھی صاف نہیں ہوا کیونکہ کرپشن میں ملوث حضرات یا تو جیل میں بی کلاس لے لیتے ہیں یا ضمانتیں کروا لیتے ہیں، تاہم ہماری کوششیں اس سلسلے میں بھی جاری ہیں لیکن ہم جس بات کی بھی کوشش کرتے ہیں اس کا الٹا ہی اثر ہوتا ہے اور ہم دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں جس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
25 جولائی عوامی مینڈیٹ چوری ہونے کا دن : شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''25 جولائی عوامی مینڈیٹ چوری ہونے کا دن ہے‘‘ جبکہ اس سے پہلے ہمارے مخالفین کا مینڈیٹ چوری ہوا کرتا تھا لیکن اس بار ہمارے ہی مینڈیٹ پر ہاتھ صاف کر لیا گیا حالانکہ چرانے والوں کو مستقل مزاجی کا ثبوت دینا چاہیے تھا لیکن کیا کیا جائے، یہاں ہر چیز گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے، اگرچہ یہ ایک محاورہ ہی ہے کیونکہ کسی نے آج تک گرگٹ کو رنگ بدلتے نہیں دیکھا بلکہ ہم نے تو کبھی گرگٹ کی شکل بھی نہیں دیکھی البتہ اس کا شوق کافی زیادہ ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہر سازش ناکام بنا کر عوام کے ساتھ ہیں: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''ہر سازش ناکام بنا کر عوام کے ساتھ ہیں‘‘ اگرچہ عوام ہم سے ذرا دُور ہوتے جا رہے ہیں اس لیے ہمیں بھی ان کے ساتھ کھڑا ہونے میں کافی دقت پیش آ رہی ہے اور عوام کو بھی ہم سے دور رہنے پر کافی سہولت میسر آ رہی ہے جبکہ اب تک ہونے والی ہر سازش کو ہم نے ناکام بنایا ہے لیکن ایک سازش کو ناکام بناتے ہیں تو دوسری شروع ہو جاتی ہے اور دوسری کے بعد تیسری اور پھر چل سو چل، چنانچہ اپوزیشن کا سارا وقت ہمارے خلاف سازشیں تیار کرنے اور ہمارا وقت انہیں ناکام بنانے میں صرف ہو جاتا ہے، گویا بقول شاعرع
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں، سب مزے میں ہیں
آپ اگلے روزلاہور میں صادق سنجرانی اور جام کمال سے ملاقات کر رہے تھے۔
عمران کشمیر کے سفیر بننے کے بجائے
کلبھوشن کے وزیر بن گئے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عمران کشمیر کے سفیر بننے کے بجائے کلبھوشن کے وزیر بن گئے‘‘، اگرچہ اسے قونصل رسائی نہ دینے سے زیادہ سے زیادہ عالمی عدالت انصاف ہمارے خلاف ایکشن لے سکتی تھی جبکہ ہمیں ایک زندہ قوم کی طرح ایسے حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے جبکہ ان سے تو انکل نواز شریف ہی اچھے رہ گئے جنہیں کلبھوشن سے اتنی نفرت تھی کہ انہوں نے آج تک اس کا نام تک نہیں لیا کیونکہ اس سے ان کے دوست نریندر مودی برا مان سکتے تھے لیکن انہوں نے اس کی بھی پروا نہیں کی حالانکہ ہمارے بیرسٹر اعتزاز احسن نے کلبھوشن کا نام لینے پر کروڑوں روپے انعام کی بھی پیشکش کی تھی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اختر مینگل سے ملاقات کر رہے تھے۔
عوام دو سال سے سلیکٹڈ حکومت
کی سزا بھگت رہے ہیں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''عوام دو سال سے سلیکٹڈ حکومت کی سزا بھگت رہے ہیں‘‘ حتیٰ کہ اب انہیں اس کی عادت پڑ گئی ہے اور ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے جبکہ ہمارے عوام بھی عجیب ہیں کہ انہیں ہر بُری چیز کی عادت ہو جاتی ہے، پہلے کافی دیر تک انہیں ہماری عادت پڑی رہی اور خیال تھا کہ باقی عادتوں کی طرح ان کی یہ عادت بھی قبر تک ساتھ ہی جائے گی جبکہ اب انہیں ہماری عادت پڑنا تو اور بھی مشکل نظر آ رہا ہے کیونکہ ہمیں سلیکٹ کرنے والوں کی عادت بھی تبدیل ہو چکی ہے اور ہم دو سال سے حیران و پریشان ہو کر دیکھ رہے ہیں کہ انہیں کیا ہو گیا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بیوقوف شیر
ایک لکڑ ہارا جنگل میں اپنے کام میں مصروف تھا کہ ایک طرف سے ایک بلی برآمد ہوئی اور اس سے فر یاد کی کہ شیر مجھے پریشان کرتا ہے، اس نے میرا جینا حرام کر رکھا ہے۔ اتنے میں شیر بھی ایک طرف سے آ نکلا جسے لکڑ ہارے نے ڈانٹا کہ تم بلی کو تنگ کرنے سے باز آتے ہو یا نہیں۔ اگر اتنے بہادر ہو تو مجھ سے مقابلہ کر لو۔ شیر تیار ہو گیا لیکن لکڑ ہارے نے کہا کہ تم یہاں انتظار کرو، میں قریبی گائوں میں ایک ضروری پیغام دے کر آتا ہوں اور تم سے مقابلہ کرتا ہوں۔ شیر نے کہا ٹھیک ہے۔ لکڑ ہارا گائوں کی طرف چل پڑا لیکن چند قدم ہی چل کر واپس آ گیا اور بولا: ''مجھے ڈر ہے کہ تم بھاگ جائو گے‘‘۔ شیر نے کہا کہ یقین کرو ، میں نہیں بھاگوں گا بلکہ تمہارا انتظار کروں گا۔ یہ سن کر لکڑ ہارا پھر روانہ ہوا اور چند قدم چل کر پھر واپس آ گیا اور بولا کہ مجھے ڈر ہے کہ تم بھاگ جائو گے۔ جس پر شیر نے کہا کہ تمہاری جس طرح تسلی اور یقین ہو تم کر لو۔ لکڑ ہارا بولا کہ میں تمہیں درخت سے باندھ جاتا ہوں اور واپس آ کر تم سے مقابلہ کروں گا۔ شیر راضی ہو گیا جس پر لکڑ ہارے نے اپنے رسے سے شیر کو ایک درخت سے باندھ دیا اور اپنی کلہاڑی سے ایک شاخ کاٹ کر سوٹا تیار کیا اور شیر کی دھلائی کرنے لگ گیا۔ بلی جو شیر کی چیخیں سن کر اُدھر آ نکلی تھی‘ شیر نے اُس سے کہا: جب میں تمہارے جتنا رہ جائوں گا تب تو یہ مجھے چھوڑ دے گا نا؟
اور اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل
یہ توڑ پھوڑ کرتا ہوا اور کون ہے
دل میں ہمارے‘ تیرے سوا اور کون ہے
تُو نے تو اتنا شور مچایا نہ تھا کبھی
اب کچھ دنوں سے‘ تُو ہی بتا اور کون ہے
میری تلاش سے بھی اگر تُو نہیں ملا
دیتا ہوا یہ تجھ کو صدا اور کون ہے
مجھ پر تو آج تک نہ پڑی ہے تری نظر
یہ تیرے راستے میں پڑا اور کون ہے
اس شہرِ بے مثال میں گر تُو نہیں تو پھر
سب سے الگ، یہ سب سے جدا اور کون ہے
اور، جس جگہ پہ میرے سوا کوئی بھی نہ تھا
جا کر وہاں بھی میں نے کہا، اور کون ہے
اتنا پتا ہے کچھ بھی پتا چل نہیں رہا
آیا ہوا کہاں سے یہ کیا اور کون ہے
میں ہی تری سنبھال میں جب آ نہیں سکا
یہ اور کوئی، میرے خُدا، اور کون ہے
اک میں تو خیر تھا ہی بڑی دیر سے ظفرؔ
میرے علاوہ مجھ سے خفا اور کون ہے
آج کا مطلع
محبت ہے مگر اس کو خبر ہونے سے ڈرتا ہوں
کہ اس خوشبوئے دل کے منتشر ہونے سے ڈرتا ہوں