''بھارتی حکومت کے منظورِ نظر دہشت گردگروپوں سے اس کے پڑوسی ممالک کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں‘‘۔ یہ الزام چین‘ پاکستان یا نیپال نے نہیں بلکہ اقوام متحدہ نے لگایا ہے اور حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی انسدادِ دہشت گردی کمیٹی نے اپنی 26th رپورٹ شائع کرکے اس بیانیے پر مہرِتصدیق ثبت کر دی ہے کہ بھارت‘ افغانستان کی سر زمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے اند ردہشت گردوں کی معاونت کرنے کے ساتھ ساتھ ان گروپوں کے ذریعے دہشت گردی کی کارروائیاں بھی کروا رہا ہے۔
چین سے گوادر ڈیپ سی پورٹ کی تعمیر کے کاغذی مراحل ابھی مشرف حکومت کے ساتھ ابتدا میں ہی تھے کہ بھارت نے 2005ء میںسکیورٹی فورسز پر حملوں اور ان کی دفاعی تنصیبات کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کے ٹاور اور پائپ لائنیں تباہ کرانا شروع کر دیں اور جب سی پیک کا اعلان ہوا تو بلوچ قبائلیوں کے کچھ ناراض گروپوں کو ساتھ ملا کر افغانستان لایا جانے لگا جہاں انہیں گوریلا تربیت دینے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینا شروع کر دی۔ نریندر مودی نے تو کھل کر کہنا شروع کر دیا کہ وہ سی پیک کو کبھی بھی منظور نہیں کریں گے کیونکہ اس کے روٹ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے گزارے جا رہے ہیں ۔
2011ء میں سابق امریکی سینیٹر چک ہیگل نے کیمرون یونیورسٹی اوکلاہاما میں طلبہ اور سکالرز کے ایک گروپ سے سوال و جواب کے سیشن میں حیرت انگیز انکشاف کرتے ہوئے کہا تھاکہ ''بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو آپریٹ کرتا ہے‘‘۔ اس پر ہال میں بیٹھے حاضرین اور سیمینار کے منتظمین سب حیران رہ گئے کیونکہ اس وقت تو پورے انگلش میڈیا نے پاکستان کو دہشت گردوں کے لئے محفوظ ملک کا خطاب دے رکھا تھا؛ جب چک ہیگل سے وضاحت اور ثبوت مانگے گئے تو انہوں نے تحریک طالبان پاکستان، حامد کرزئی اورعبداﷲ عبداﷲ کے انڈین نیٹ ورک سے متعلق ایک ایک تفصیل بتا نا شروع کر دی کیونکہ وہ سینیٹ کی اٹیلی جنس کمیٹی کے رکن رہ چکے تھے‘ جہاں انہیں افغانستان کے متعلق سی آئی اے کی تمام معلومات فراہم کی جاتی تھیں۔ چک ہیگل کے الفاظ تھے ''India had been using Afghanistan as a second front against Pakistan‘‘۔سابق امریکی سینیٹر ہیگل سے سوال و جواب کا یہ سلسلہ باقاعدہ ریکارڈ کیا گیا لیکن اسے پبلک کرنے سے نجانے کیوں گریز کیا گیا۔ امریکی صدر اوباما نے جب چک ہیگل کو ڈیفنس سیکریٹری کے طور پر نامزد کیا تو امریکن نیوز پورٹل کے زیر اہتمام واشنگٹن فری بیکن ویب سائٹ نے 26 فروری 2013ء کو ریکارڈ کی گئی اس گفتگو کو من و عن ریلیز کر دیا اور جیسے ہی یہ وڈیو ریلیز ہوئی‘ اس نے ہر طرف تہلکہ مچا دیا۔ ان کی وڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مضبوط انڈین لابی‘ سینیٹ میں ان کی نامزدگی روکنے کیلئے تمام تر وسائل کے ساتھ حرکت میں آ گئی، اسرائیل اور بھارت کی مضبوط لابیوں کی بھر پور مخالفت کے با وجود سینیٹ نے اکثریتی ووٹوں سے ان کی بطور ڈیفنس سیکریٹری نامزدگی کی توثیق کر دی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ یہ وڈیو ریلیز ہونے کے بعد برطانیہ، جاپان اور یورپی یونین‘ امریکی کانگریس اور سینیٹ سمیت اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی موجودگی میں امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کو بلا کر ان کے انڈیا سے متعلق الزامات کی تفصیلات اور ثبوت طلب کرتے اور پھر انہیں پرکھنے کے بعد بھارت کو ایک دہشت گرد ریا ست ڈکلیئر کر تے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔
اب ایک مرتبہ پھر 25 جولائی کو اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے ''اس وقت تحریک طالبان پاکستان کے چھ سے سات ہزار دہشت گرد افغانستان میں موجود ہیں اور وہاں سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں جن کا ان دہشت گردوں کی قیادت برملا اعتراف کرتی ہے۔ ان کے اعتراف کے بعد افغانستان ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر تا؟‘‘ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے کمانڈرز بڑے فخر سے اقرار کرتے ہیں کہ پاکستان کے اندر بہت سی ہائی پروفائل دہشت گردی کی کارروائیاں انہوں نے جماعت الاحرار اور لشکر اسلام کی معاونت سے کی ہیں جن کے ٹھکانے افغانستان میں ہیں اور یہ تمام دہشت گروپ مکمل طور پر بھارت کے ہاتھ میں ہیں۔ ذرائع کے مطابق عبداﷲ عبداﷲافغان فوج کے بہت بڑے دھڑے کو ساتھ ملا کر تحریک طالبان پاکستان کے چھ ہزار سے زائد دہشت گردوں کو اپنی پناہ گاہوں اور سیف ہائوسز میں رکھے ہوئے ہے‘ جہاں سے انہیں پاکستانی علا قوں میں بھیج کر دہشت گردی کے ٹاسک مکمل کروائے جا تے ہیں۔ کوئی دس برس پیشتر ان کو بلوچستان اور کے پی کے مختلف پروجیکٹس پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کو اغوا اور پھر انہیں قتل کے ٹاسک سونپے گئے تھے اور اب بھارت ان کے ذریعے سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔
پاکستان سمیت پوری دنیا کو اقوام متحدہ سے پوچھنا چاہئے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں کدھر گئیں؟ کیا ان کا بھارت پر اطلاق نہیں ہوتا؟ کیا ایف اے ٹی ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کے سامنے اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ رکھتے ہوئے اس سے مطالبہ نہیں کیا جانا چاہئے کہ ان حقائق کی روشنی میں بھارت کو دہشت گرد ریا ست ڈکلیئر کرتے ہوئے اسے ''بلیک لسٹ‘‘ میں ڈالا جائے؟ گوادر پورٹ اور سی پیک ا س وقت بھارت کے گلے میں کئی کونوں والی ہڈی کی صورت میں پھنس چکے ہیں‘ بھارت کے تمام بڑے اخبارات ‘جن میں ٹائمز آف انڈیا، اکنامک ٹائمز اور ٹربیون شامل ہیں‘ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ پر انتہائی مضحکہ خیز تبصرے کر رہے ہیں، ایک اخبار نے لکھا ''دیکھا! بھارت کی بات سچ نکلی کہ پاکستان کے دہشت گرد افغانستان میں موجود ہیں‘‘۔ اپنی آنکھوں پر تعصب کی پٹی باندھے عقل کے ان اندھوں سے کون پوچھے گا کہ ''پاکستان کے بار بار مطا لبہ کرنے کے با وجود افغان فوج انہیں اپنے پاس پناہ اور تربیت دینے کے بجائے پاکستانی حکومت کے حوالے کیوں نہیں کرتی؟ اشرف غنی کو پاکستان نے ان کی حوالگی کیلئے دس بیس نہیں بلکہ سینکڑوں مراسلے بھیج رکھے ہیں‘ ان پر عمل در آمد کیوں نہیں کیا جاتا؟ انٹرپول کے قوانین کو اگر سامنے رکھا جائے تو یہ دہشت گرد پاکستان میں سینکڑوں افراد کے قتل میں مطلوب ہیں‘ کیا افغانستان پر انٹر پول کا اطلاق نہیں ہو سکتا؟ اگر اقوام متحدہ کشمیر میں سرگرم حریت پسند جماعتوں کے سربراہوں کو گلوبل خطرہ ڈکلیئر کر سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ان چھ سو سے زائد دہشت گردوں کو گلوبل خطرہ ڈکلیئر نہیں کیا جاتا؟ کیا افغانستان اور بھارت کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ پاکستان کو مطلوب ان دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کر دیں؟
بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال گزشتہ روز ہی اپنے کئے گئے اعلان کا پاس رکھتے ہوئے اگر گوادر سمیت بلوچستان کے دس ساحلوں کو جدید اور بہترین سہولتیں مہیا کرتے ہوئے انہیں ایک دلکش سیرگاہوں کی شکل دے دیتے ہیں اور وفاقی حکومت بھی ان کی اس سلسلے بھی بھر پور فنی اور مالی مدد کرتی ہے تو سمجھ لیجئے کہ بلوچستان سمیت پاکستان کی قسمت کا ستارہ روشن ہو کر بلندی کی جانب جائے گا اور یہ سیرگاہیں سی پیک کے تسلسل کا ہی ایک حصہ ہیں جن سے لطف اندوز ہونے کے لئے دنیا بھر کے سیاح گوادر کا رخ کریں گے۔ میں نے گوادر اور اس کے بلوچستان کے دیگر ساحلوں کو دیکھ رکھا ہے‘ یہ ایسے نا یاب موتی ہیں جنہیں ہم گزشتہ سات دہائیوں سے ضائع کر رہے ہیں۔ مکران کوسٹ کے یہ علا قے زرمبادلہ کا وہ ذخیرہ ہیں جن کا دروازہ اگر ایک بار کھل گیا تو گوادر پورٹ اور سی پیک کے بعد یہ قدرت کے انمول اور بیش بہا خزانوں سے پاکستان کی جھولیوں کو بھر دیں گے۔