سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ خواتین منفی مہم کا سامنا کرتی ہیں‘ ان کی کردار کشی ہوتی ہے‘ ان کی تصاویر کا غلط استعمال کیا جاتا ہے‘ ان کو قتل تک کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ان کے نام پر فیک اکائونٹس بنائے جاتے ہیں۔ اس کردار کشی سے تنگ آ کر بہت سی خواتین سوشل میڈیا کو خیرباد کہہ جاتی ہیں؛ تاہم جو کام کی وجہ سے اس کا استعمال کر رہی ہیں‘ ان کو یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے۔ منفی مہمات کو ختم کرنے کا بہترین حل ہے کہ فیک پوسٹس؍ ٹویٹس اور ان کو ری ٹویٹ اور شیئرکرنے والوں کو بلاک کیا جائے۔ اگر قتل کی دھمکیاں ملیں تو ان کو ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ سائبرکرائم اور ایف آئی اے میں رپورٹ کرنا چاہیے۔ ایف آئی اے کے لئے یہ پتا لگانا مشکل نہیں کہ ان مہمات کے پیچھے کون ہے۔ اس لئے ان کو گرفتار کرنا چاہیے‘ ان کے فونز اور لیپ ٹاپ وغیرہ کا فرانزنک ہونا چاہیے۔ ان کو کہاں کہاں سے رقوم منتقل ہوئیں‘ ذریعہ کیا تھا‘ کس نے ان سے یہ ٹرینڈ کروائے‘ یہ سب سامنے آنا چاہیے۔ اگر ایک ٹرول گینگ بے نقاب ہوا اور ایک ٹیم کو بھی سزا مل گئی تو باقی سب خود ہی سنبھل جائیں گے اور سوشل میڈیا پر بہت حد تک گندگی کا صفایا ہو جائے گا۔ سوشل میڈیا کمپنیوں سے مذاکرات کیے جائیں اور بچوں کی غیر اخلاقی وڈیوز، خواتین کی وڈیوز‘ جن سے ان کو بلیک میل کیا جا رہا ہو، سائبر بولنگ، دہشت گردی، ذاتی ڈیٹا کی چوری، نفرت آمیز پروپیگنڈا کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ بہت سے خودساختہ دانشور باہر کے ممالک سے دن رات پاکستان کے خلاف خاص طور پر اردو میں ٹویٹس کرتے ہیں‘ ان کے ٹویٹس کو انگریزی میں ترجمہ کرکے سوشل میڈیا کے دفاتر اور متعلقہ سفارت خانوں میں بھیجا جائے کہ گالم گلوچ اور بہتان تراشی آزادیٔ رائے کے زمرے میں نہیں آتے۔ اردو زبان میں یہ گالیاں دینے والے ٹرولز ہیں اور انگریزی زبان میں جھوٹے سماجی کارکن۔
چین نے اپنے ملک میں ٹویٹر‘ گوگل اور وٹس ایپ بین کر رکھے ہیں اس کی جگہ وہ وی چیٹ، بائیدو اور وی بو استعمال کر رہے ہیں۔ چین کے پاس بہت بڑی تعداد میں سائبر پولیس ہے اور وہ ہر وقت سوشل میڈیا پر ٹرینڈز‘مباحثوں اور کانٹینٹ کو فالو کرتی ہے۔ اسی طرح آسٹریلیا میں یہ قانون ہے کہ غیر اخلاقی مواد پر 5لاکھ 25ہزار آسٹریلوی ڈالر جرمانہ اس سوشل میڈیا فورم کو ہوگا جس پر یہ مواد شیئر کیا جائے گا۔ یہ قانون اس وقت پاس ہوا تھا جب 2014ء میں ایک ماڈل نے ٹویٹر پر مذاق اڑائے جانے کے بعد خودکشی کرلی تھی۔ جس وقت نیوزی لینڈ میں ایک دہشت گرد نے مساجد پر حملہ کیا تھا تو اس نے وڈیو فیس بک پر لائیو سٹریم کی تھی‘ یہ سترہ منٹ کی وڈیو چار ہزار لوگوں نے دیکھی تھی‘ جب فیس بک نے اس کو ہٹایا تو اس کی 12لاکھ کاپیوں کو بھی فیس بک سے ہٹایا گیا علاوہ ازیں ایسی ہی مزید تین لاکھ وڈیوز بھی ڈیلیٹ کی گئیں۔ دہشت گردی، نفرت آمیز اور اخلاق باختہ مواد، فیک اکائونٹس، منشیات اور جسم فروشی کی سوشل میڈیا پر کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان بھی کوشش کرے‘ متبادل ایپس بنائے۔ میں سوشل میڈیا کے مکمل بین کے حق میں نہیں لیکن اگر اسی طرح ملک اور اہم قومی شخصیات کے خلاف گمراہ کن مہمات چلتی رہیں تو اس کے نتائج ہمارے معاشرے میں انتہاپسندی کے بڑھاوے کی صورت میں برآمد ہوں گے۔
سیاسی جماعتوں اور اداروں سے ان کی سوشل میڈیا ٹیموں کی تفصیلات مانگی جائیں کہ انہوں نے اس مد میں کتنا پیسہ خرچ کیا‘ کتنے افراد ان کے لیے کام کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام سوشل میڈیا ٹیموں کو بھی ضابطہ اخلاق کا پابند کیا جائے۔ ویسے آفیشل ٹیمیں یہ کام کرتی بھی نہیں‘ یہ کام وہ کرتے ہیں جو خود کو کارکن اور رضاکار کہتے ہیں۔ ان کی وجہ سے سوشل میڈیا پر ماحول خراب ہو رہا ہے‘ وہ جس کو دل کرتا ہے گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح کے جعل ساز گینگ یوٹیوب پر بھی کام کر رہے ہیں جو لوگوں کی کردار کشی کر رہے ہیں‘ ان تمام لوگوں کو قانون کے دائرے میں لانے کی ضرورت ہے۔
جہاں ایک طرف سوشل میڈیا نے سیاست‘ صحافت اور ایکٹیوازم کی ہیئت بدل کر رکھ دی ہے‘ دنیا بھر میں صارفین اس پر آن لائن اشیا خرید رہے ہیں‘ انسٹاگرام پر نوجوان ڈیزائنرز کپڑے بنا رہی ہیں‘ گاڑیوں کی خرید و فروخت‘ مکانوں کے سودے کے لئے فیس بک پیج بنے ہوئے ہیں اور لوگوں نے اپنے علاقوں کے بھی گروپ بنارکھے ہیں‘ جہاں سب ایک دوسرے کے قریب آگئے اور ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں‘ وہاں پر دوسری طرف چند بعض شر پسند عناصر فیس‘ بک ٹویٹر اور یوٹیوب کو بلیک میلنگ کے لئے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ یہ لوگوں کو ہراساں کرتے ہیں‘ ان سے پیسے لیتے ہیں اور ان کی نجی تصاویر پبلک کر دیتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی بہت سی اداکارائوں‘ اینکرز اور نیوز کاسٹرز کے فیک اکائونٹس بنے ہوئے ہیں جو ان کے لئے پریشانی کا باعث ہیں۔ حال ہی میں ایک اینکر کے نام پر بنے فیک اکائونٹ کے بارے علم ہوا کہ وہ لوگوں سے پیسے بٹور رہا تھا‘ جب اس کے خلاف کارروائی ہوئی تو اکائونٹ چلانے والا ایک کم عمر بچہ نکلا، یہ بہت افسوسناک امر ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹس‘ فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب کو بین تو نہیں کرنا چاہیے لیکن ان کو ریگیولیٹ ضرور کرنا چاہیے۔ ایسا تمام مواد جو نفرت‘ فحاشی اور انتہا پسندی کے زمرے میں آتا ہے‘ اس کو ڈیلیٹ کروایا جائے‘ حکومت ان ویب سائٹس کی انتظامیہ سے مذاکرات کرے‘ یوٹیوب کے وہ اکائونٹس جن کے سبسکرائبر 50ہزار سے زیادہ ہیں‘ وہ خود کو پی ٹی اے اور ایف بی آر کے ساتھ رجسٹر کریں اور اپنی آمدنی پر ٹیکس دیں۔ کسی گمنام یا فیک یوزر کو یوٹیوب اکائونٹ چلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ اگر فیس بک اور ٹویٹر پر فون نمبر اور شناختی کارڈ کی شرط لازم کر دی جائے تو بہت حد تک جعلی اکائونٹس کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئیں۔ ان اداروں کو اردو مترجم ہائر کرنے چاہئیں تاکہ جو لوگ پاکستانی سوشل میڈیا ٹائم لائنز کو منظم طریقے سے خراب کر رہے ہیں‘ ان کو رپورٹ کیا جا سکے۔ میری حکومت سے یہ گزارش ہے پب جی اور ٹک ٹاک کو مکمل بین کرے کہ اس نے نئی نسل کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔سوشل میڈیا جہاں انصاف کے حصول کے لیے آواز بلند کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے‘ وہیں یہ جھوٹی مہمات کا مرکز بھی بن رہا ہے‘ اس لئے اس کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر مکالمہ کریں لیکن گالم گلوچ‘ لعن طعن سے پرہیز کریں‘ ایک دن ہم سب نے اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے‘ یاد رکھیں کہ تب ہمیں واپس آکر فیک اکائونٹس کے ذریعے دی گئی گالیاں اور بہتان تراشی مٹانے کا موقع نہیں دیا جائے گا، اس لئے کوشش کریں کہ قیامت کے روز جو نامہ اعمال لے کر آپ رب کے حضور پیش ہوں‘ اس میں فیک اکائونٹس کے انبار کا بوجھ نہ ہو۔ سوشل میڈیا کو ریاست کا 5واں ستون کہا جا سکتا ہے‘ اس لئے اس پر قواعد و ضوابط کا ہونا بہت ضروری ہے۔لیکن ان قوانین کی آڑ میں سماجی کارکنوں اور صحافیوں کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہئے۔ ہاں! اگر وہ قانون شکنی کریں تو ان کو ضرور قانون کے دائرے میں لائیں۔اس وقت فیک اکائونٹس مافیا اور جعل ساز سوشل میڈیا صارفین پر کریک ڈائون کی ضرورت ہے۔
پاکستانی حکام سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ مذاکرات میں یہ مطالبہ کریں کہ یہ ملک میں اپنے ذیلی دفاتر قائم کریں‘ اپنے ترجمان مقرر کریں‘ اہم شخصیات کے اکائونٹس کی ویری فیکیشن شروع کریں۔ پاکستان کے خلاف مواد اور توہین مذہب کی روک تھام کے لیے میکنزم بنائیں۔ جعلی خبروں، آن لائن ہراسانی، پُرتشدد اور غیر اخلاقی مواد کو بلاک کریں‘ پاکستان میں اپنے ڈیٹا سرور بیس قائم کریں وگرنہ ہم چینی اور دوسری ایپس استعمال کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور ان کی سائٹس اور ایپس کو بین کر دیا جائے گا، اصل نقصان ان کا اپنا ہی ہوگا۔ اس ضمن میں ڈیجیٹل پاکستان پروگرام اپنا کردار ادا کرے۔