جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 1960ء کی دہائی کے اواخر اور 1970ء کی دہائی کے اوائل میں رابطہ عوام کی زبردست مہم چلائی اور غریب کلاس کو اپنی طرف مائل کیا۔ بھٹو صاحب نے روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا مگر وہ اس وعدے کو پورا نہ کر سکے۔ بھٹو صاحب علم ِسیاسیات سے گہری شناسائی رکھتے تھے اور ایوب خان حکومت میں بطور وزیر خارجہ خدمات انجام دے کر عملی سیاست کے دائو پیچ اور نشیب و فراز سے براہِ راست آگہی حاصل کر چکے تھے۔ تاہم بھٹو صاحب علم ِمعاشیات اور اس کے عملی تقاضوں کے بارے میں کوئی گہری واقفیت نہ رکھتے تھے۔ بلاشبہ اُن کے ساتھیوں میں جے اے رحیم‘ ڈاکٹر مبشر حسن‘ خورشید حسن میر‘ معراج خالد اور حنیف رامے جیسی شخصیات اقتصادی امور کا کچھ نہ کچھ ادراک رکھتی تھیں۔ ان سب کا میلان سوشلسٹ معیشت کی طرف تھا۔ بھٹو صاحب نے بعض اچھے کام بھی کیے مگر انہوں نے صنعتوں‘ بینکوں‘ کالجوں‘ سکولوں اور دیگر کئی اداروں کو پرائیویٹ ملکیت سے نکال کر قومی تحویل میں لے لیا جو معاشی طور پر ایک غلط اقدام تھا۔ بعدازاں ماہرین اقتصادیات کے خدشے کے عین مطابق یہ فیصلہ قومی معیشت کیلئے تباہ کن ثابت ہوا۔ بالآخر قوم کے حصے میں روٹی آئی نہ کپڑا اور نہ مکان۔ اگر کچھ ہاتھ آیا تو وہ گہری مایوسی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اکیسویں صدی میں جناب عمران خان نے بھی کم و بیش بھٹو صاحب کے سٹائل میں زبردست رابطہ عوام مہم چلائی مگر انہیں مسندِ اقتدار تک پہنچنے میں دو دہائیاں لگ گئیں۔ جناب عمران کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے سوسائٹی کی غریب کلاس کو کم اور ایلیٹ کلاس کو اپنی طرف زیادہ راغب کیا۔ بالخصوص تعلیم یافتہ نوجوان جوق در جوق اُن کے جلسوں میں شرکت کرنے لگے۔ اُن مڈل کلاس خاندانوں نے بھی سیاست میں بہت کشش محسوس کرنا شروع کر دی جو سیاست کو اپنے لیے شجرِ ممنوعہ سمجھتے تھے۔ تعلیم یافتہ کلاس کا خیال تھا کہ قوم کو عمران خان کی صورت میں ایک نجات دہندہ مل رہا ہے اس لیے اس کی مدد کرنی چاہئے تاکہ عوام کو کرپٹ سیاست دانوں سے رہائی ملے اور اُن کا مستقبل تابناک ہو جائے۔
خان صاحب نے ان دو دہائیوں میں عوام کو بڑے خوش رنگ خواب دکھائے۔ بھٹو صاحب نے تو قوم کے ساتھ عمومی نوعیت کے وعدے کیے تھے مگر خان صاحب نے اعدادو شمار کے ساتھ بڑے دوٹوک عہدو پیمان باندھے۔ بجلی‘ پٹرول اور گیس کی قیمتیں کم کرنے کی خوش خبری دی۔ خان صاحب نے ایک کروڑ ملازمتیں دینے اور پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ خان صاحب کی رابطہ عوام مہم کا سب سے اہم نعرہ کرپشن کا خاتمہ تھا۔ کشمیر کی آزادی بھی خان صاحب کے انتخابی ایجنڈے کا اہم نکتہ تھا۔
25 جولائی کو تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کو دو سال گزر چکے ہیں۔ عوام دو برس میں ہی مایوسی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں کیونکہ خان صاحب کے وعدوں میں سے کوئی ایک بھی پورا نہیں ہوا اور سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے۔جناب عمران خان نے ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا اعلان کیا تھا مگر وہ حسب وعدہ ملازمتیں دے نہیں سکے اور اُن کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں تقریباً ایک کروڑ باروزگار لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ خان صاحب نے 50 لاکھ گھر تعمیر کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا مگر ابھی تک ایک گھر بھی کسی غریب کو چھت فراہم نہیں کر سکا۔ خان صاحب نے آئی ایم ایف کو ٹھکرانے کا دعویٰ کیا تھا مگر وہ اقتدار میں آکے سر کے بل چل کر آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر گئے۔ خان صاحب مسلسل پٹرول کی قیمتیں بڑھاتے گئے مگر جب عالمی منڈی میں پٹرول تقریباً مفت ملنے لگا تو خان صاحب نے بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کر دیں ‘مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طاقتور پٹرول مافیا نے پٹرول پمپوں سے پٹرول و ڈیزل غائب کر دیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر خان صاحب کی حکومت نے یک دم 25 روپے فی لیٹر کا ہوش رُبا اضافہ کر دیا۔ اس پر عوام بلبلا اُٹھے۔ آٹا اور چینی پاکستانی معاشرے کی دو بنیادی ضروریات ہیں۔ دونوں اشیا کی قیمتیں ناقابلِ یقین حد تک بڑھ چکی ہیں۔ جب دو برس قبل تحریک انصاف برسراقتدار آئی تو اس وقت آٹا 35 روپے فی کلو اور آج 70 روپے فی کلو ہوچکا ہے۔ اس وقت چینی 52 روپے فی کلو تھی جو آج تقریباً 90 روپے فی کلو ہو چکی ہے۔ انتقام‘ اَنا پرستی اور متلون مزاجی‘ یہ وہ تین ''اوصاف‘‘ ہیں جو تحریک انصاف کے دوسالہ اقتدار میں نہایت نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں۔ جس طرح سے آئے روز افسران کے تبادلے ہوتے ہیں اس سے اُن کی کارکردگی بری طرح سے متاثر ہوتی ہے اور اُنہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اُن پر عدم اعتماد کیا جا رہا ہے۔
بظاہر خان صاحب ہر ہفتے کابینہ کا اجلاس بلاتے ہیں مگر وہ اپنے مزاج اور رائے کے خلاف کوئی تجویز ماننے پر کم ہی آمادہ ہوتے ہیں۔ اوّل تو خان صاحب سنتے نہیں‘ سن لیں تو سمجھتے نہیں‘ اور اگر خوش قسمتی سے سمجھ لیں تو شاذو نادر ہی وہ اپنے طے شدہ مؤقف پر نظرثانی کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ کرپشن کے خاتمے کے اتنے بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے کہ وہ پی ٹی آئی کا منشور بن گئے۔ مگر اس میدان میں حکومت کو کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی اور اپوزیشن نے احتساب کے مقدمات کو انتقامی کارروائی قرار دیا۔ حکومتی مشیروں اور وزیروں نے آگے بڑھ کر نیب کی ترجمانی کا فریضہ اپنے ذمے لے لیا۔ وہ نیب کی کارروائی سے پہلے ہی اعلان کر دیتے تھے کہ اب احتسابی ادارہ کس اپوزیشن لیڈر کے گلے میں پھندا ڈالنے والا ہے۔ ابھی حال میں خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کے خلاف نیب کے بنائے ہوئے ریفرنس کو سپریم کورٹ کے فاضل ججز نے انتہائی کمزور اور اسے انتقامی کارروائی قرار دیا۔ خواجہ برادران تقریباً سولہ ماہ جیل میں پڑے رہے۔ فاضل عدالت نے خواجہ برادران کی ضمانت کے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ نیب ایک طرف تو اپوزیشن کے قائدین پر مقدمے قائم کرتا ہے اور بغیر کسی جواز اور ثبوت کے انہیں جیلوں میں سڑنے کے لیے ڈال دیتا ہے اور دوسری طرف کسی بھی حکومتی شخصیت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ عدالت نے بڑے واضح انداز میں انتباہ کیا ہے کہ جرم کے ثبوت سے پہلے کسی شخص کی گرفتاری اس کی بہت بڑی تذلیل ہے۔ اس تذلیل سے سارا خاندان بری طرح متاثر ہوتا ہے۔گزشتہ دونوں حکومتوں نے ایک دوسرے کی تذلیل کے لیے جنرل پرویز مشرف کے جاری کردہ نیب آرڈی ننس پر نظرثانی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی‘ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ سارے سیاست دان ایک ایک کر کے مکافاتِ عمل کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
آج بروز پیر جب ہم یہ سطور قلم بند کر رہے ہیں اس وقت قومی اسمبلی نیب قوانین پر نظرثانی کرنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات متوقع ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں وگرنہ مکافاتِ عمل کا کوڑا یونہی سیاسی مخالفین پر برستا رہے گا۔
اب قرائن یہی بتا رہے ہیں کہ اگر نیب کے غیرجمہوری ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی تو مستقبل قریب میں مقدمات بھگتنے کی باری پی ٹی آئی کی ہے۔ غیرمتوقع طور پر گزشتہ چند روز سے باخبر حلقوں میں یہ اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ عمران خان سمیت دو اہم شخصیات ملک کو درپیش سیاسی و معاشی بحران سے نمٹنے پر غور کر رہی ہیں۔ آج کے اخبارات میں یہ خبریں منظرعام پر بھی آ گئی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان بہت بڑے اقدام کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ اُن کی خواہش ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کے باہمی مشورے سے سیاسی و معاشی استحکام حاصل کیا جائے۔ بعد از خرابیِ بسیار ہی سہی‘ مگر خان صاحب کی خواہش تو نیک ہے اور ہم خان صاحب کی اس کاوش کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں۔ رہی خان صاحب کی تاخیر تو اسے نظرانداز کرتے ہوئے ہم یہی کہیں گے کہ دیر آید درست آید۔