مہنگائی نے عوام کو دن میں تارے دکھا دیے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''مہنگائی نے عوام کو دن میں تارے دکھا دیے ہیں‘‘ چنانچہ عوام اب اپنے مسائل کو بھول کر سارا سارا دن تارے دیکھتے رہتے ہیں کیونکہ اس سے پہلے یہ نظارہ انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا حتیٰ کہ اختر شماری کرنے والوں کے لئے بھی سہولت پیدا ہو گئی ہے اور جو تارے رات کو گننے سے بچ رہتے ہیں وہ دن میں گن کر حساب پورا کر لیتے ہیں‘ اس طرح انہیں مہنگائی بھی یاد نہیں رہتی بلکہ وہ اس کے شکر گزار ہیں اور سارا دن تاروں کے ساتھ سیلفیاں بناتے رہتے ہیں جبکہ ان تاروں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان میں سے کوئی ٹوٹتا بھی نہیں ہے کہ ٹوٹنے والے ستارے رات ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مشکل وقت گزر چکا ہے‘ منفی سیاست کا
جواب عوامی خدمت سے دیں گے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''مشکل وقت گزر چکا ہے‘ منفی سیاست کا جواب عوامی خدمت سے دیں گے‘‘ جبکہ عوام کا مشکل وقت نہ بھی گزرا ہو تو ہمارا مشکل وقت ضرور گزر چکا ہے کیونکہ عوام کو تو مشکل وقت کی عادت پڑی ہوئی ہے بلکہ اچھا وقت آئے تو ان کا ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے اور ہمارا مشکل وقت یوں گزر گیا ہے کہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے عدم اعتماد کی قرارداد لانے کی کوششیں ٹھنڈی پڑ چکی ہیں اور ناراض دوستوں کو سر دست ہم نے راضی کر لیا ہے جب تک کہ وہ دوبارہ ناراض نہیں ہو جاتے کیونکہ جب بھی انہیں اپنا کوئی کام کرانا مطلوب ہو تو وہ ناراضی کا ایسا ڈھونگ رچاتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
چینی‘ آٹا مہنگا کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''چینی‘ آٹا مہنگا کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے‘‘ لیکن اس قسم کے حکومتی بیانات کے بعد وہ مطمئن ہو گئے ہیں کیونکہ اس سے وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت چینی‘ آٹا مہنگا کرنے والوں کو اپنے ساتھ رکھے گی اور بے یارو مددگار نہیں چھوڑے گی لیکن حکومت ایک عجیب مخمصے میں ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ انہیں چھوڑ دیں گے تو وہ مزید شیر ہو جائیں گے اورکسی کے خوف کے بغیر اپنا کام نہ صرف جاری رکھیں گے بلکہ اس میں مزید شد و مد پیدا کر دیں گے۔ اب ہم نے یہ سوچا ہے کہ ایسا بیان دیا جائے کہ ہم اُن کو پکڑ کر چھوڑ دیں گے تاکہ دونوں شرطیں پوری ہو جائیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں اعجاز شاہ کے بھائی کے انتقال پر تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی وزیروں‘ مشیروںکو جانا چاہئے:احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی کے وزیروں‘ مشیروں کو جانا چاہئے‘‘ اور اگر ان میں واقعی شرافت کی کوئی رمق موجود ہے تو انہیں میرے کہے پر عمل کرتے ہوئے بوریا بستر باندھ لینا چاہئے کیونکہ ان کی بہتری اسی میں ہے کہ چپ چاپ گھر چلے جائیں جبکہ کورونا کے خطرے کا تقاضا بھی یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ گھروں ہی میں قیام کیا جائے کہ گھر جیسا آرام ویسے بھی کہاں ملتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
بلاول آنکھیں کھولیں اور کرپشن کا جواب دیں: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ ''بلاول آنکھیں کھولیں اور کرپشن کا جواب دیں‘‘ کیونکہ بند آنکھوں سے دیا ہوا جواب ہماری سمجھ میں بھی نہیں آتا۔ اگرچہ جواب کا تعلق آنکھوں سے نہیں‘ زبان سے ہوتاہے اور آنکھیں بند کر کے جواب دینے سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا لیکن یہ عجیب ملک ہے کہ لوگ زبان کا کام بھی آنکھوں سے لینے لگے ہیں اور آنکھیں بند رکھتے ہیں۔ اسی لیے کسی کو کچھ نظر نہیں آتا اور کرپشن سمیت ہر کام ہی انھے وا ہی کیا جاتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عقلمند چوہا
کسی گائوں میں ایک گھر والے اس بات سے بہت پریشان تھے کہ چھ فٹ اونچے چھینکے میں کھانے کی جو بھی چیز رکھتے‘ صبح کو وہ غائب ہوتی۔ آخر ایک روز انہوں نے پہرہ دینے کی خاطر رات بھر جاگنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ آدھی رات کے قریب گھر کے ایک کونے سے بل میں سے ایک چوہا نکلتا ہے اور چھینکے کے نیچے آ کر چھلانگ لگا کر اس تک پہنچتا ہے اور اپنی مرضی کی کوئی چیز اٹھا کر بل میں جا گھستا ہے ۔ وہ چوہے کی اس غیر معمولی چھلانگ پر بہت حیران ہوئے۔ ایک بزرگ کے کہنے پر انہوں نے چوہے کا بل کھودا تو اس میں چاندی کے روپوں سے بھری ہوئی ایک وانسلی برآمد ہوئی۔ دوسری رات انہوں نے پھر پہرہ دیا کہ دیکھیں، اب کیا کیفیت ہے تو ا نہوں نے دیکھا کہ آدھی رات کے قریب چوہا بل سے نکلا، چھینکے کے نیچے آیا، چھلانگ لگائی لیکن دو چار انچ سے اوپر نہ جا سکا۔ اس نے بار بار کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ جس پر وہ بزرگ بولے: بس اب جانے دو، جس چیز پر تم اچھلتے تھے، وہ ہم نے نکال لی ہے!
اور اب آخر میں اقتدارجاوید کی یہ خوبصورت غزل:
ہے لفظوں کی اوٹ میں پوری بانی عشق کی
روپ بہانہ حسن کا‘ سخن نشانی عشق کی
نکلیں کبک خیال سے‘ لال لہو رومال سے
دانہ پانی فقر کا‘ چوک چرانی عشق کی
دونوں میں کچھ فرق ہو‘ شاعر کس میں غرق ہو
بوند قدیم شراب کی‘ جاگ پرانی عشق کی
گھونٹ بھرا اک چائے کا‘ حکم چلا نہیں رائے کا
دیکھی ایک جہان نے یہ من مانی عشق کی
آدھی شب رکعات میں‘ آدھی التحیات میں
یہ تسبیح امام کی‘ یہ آسانی عشق کی
کولہو اپنے بیل سے‘ ہم ہیں میل کچیل سے
میٹھی خوشبو تیل کی‘ گاڑھی گھانی عشق کی
ہاڑ اساڑھ کے بیچ میں‘ درد ہے داڑھ کے بیچ میں
میں نوکر شاہ بال کا‘ تو مہارانی عشق کی
باغ میں کاٹی گرمیاں‘ تازہ پھلوں کی نرمیاں
صبح صبیح شعار کی‘ رات کہانی عشق کی
عشق ہمارا نانکا‘ ٹکڑا میٹھے نان کا
عشق بچارہ رمزیہ‘ رمز نمانی عشق کی
نکلا آج عمیق سے‘ بوڑ سنہری ہو گیا
خالص نور سویر کا‘ دودھ مدھانی عشق کی
آج کا مطلع
شبہ سا رہتا ہے یہ زندگی ہے بھی کہ نہیں
کوئی تھا بھی کہ نہیں تھا‘ کوئی ہے بھی کہ نہیں