تحریر : محمد عبداللہ حمید گل تاریخ اشاعت     28-07-2020

نیو ورلڈ آرڈر: مسلم دنیا کہاں کھڑی ہے؟

بجھی عشق کی آگ‘ اندھیر ہے
مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
آج مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ ان پر عالمِ کفر خندہ زن ہے، انہیں مسلکی، گروہی، اختلاف و انتشار نے پراگندہ کر دیا ہے، مادیت کا غلبہ روز بروز مستحکم ہوتا جا رہا ہے اور روحانیت اپنی بساط لپیٹتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں حریت و بصیرت جیسی نعمتیں بھی مفقود ہو گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ''بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے‘‘۔ (سورۃ الرعد)
افسوس مسلمان غفلت کی نیند میں ہیں، انہیں استعماری قوتوں کے‘ مرکزِ اسلام کی جانب اٹھتے ناپاک قدموں کی چاپ بھی سنائی نہیں دے رہی۔ دنیا کی خلافت اور امامت سے مسلم دنیا محروم کیوں ہے؟ نہ صرف محروم بلکہ اب دنیا کی مظلوم قوم بن چکی ہے۔ باطل قوتیں مسلم قوم اور مسلمان ملکوں کو سرے سے مٹانے کے منصوبے بہت پہلے ہی بنا چکی ہیں‘ اب اعلانیہ ان منصوبوں کو رو بہ عمل لایا جا رہا ہے۔ دنیا میں ہمیشہ وہی ملک و اقوام ترقی کی منازل طے کرتے ہیں جنہوں نے تجارت کو فروغ دیا، جنہوں نے بین الاقوامی تجارت میں اپنا سکہ منوایا۔ مدینہ میں ہجرت کے بعد ہمارے پیارے نبیﷺ نے دین کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ لوگوں کو تاجر بنانے اور انہیں تجارت کی طرف مائل کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جس کی برکت سے محض چند سالوں میں صدیوں کے کامیاب یہودی تاجروں کا مدینہ سے قلع قمع ہوگیا اور نہ صرف مدینہ میں بلکہ پوری دنیا کے بڑے بڑے ممالک تک یعنی اس وقت کی بین الاقوامی منڈیوں تک صحابہ کرام ؓنے اپنی تجارت کا دائرہ وسیع کر دیا۔ جن عشرہ مبشرہ صحابہ کرامؓ کو حضور اکرمﷺ نے جنت کی بشارت دی‘ ان میں سے پانچ بڑے بڑے تاجر تھے جن کی تجارت اس وقت کی معلوم دنیا تک پھیلی ہوئی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنی ؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ‘ یہ سب بڑے تاجر تھے جو ریاست کو ہر طرح کی مالی معاونت فراہم کرتے تھے۔ دین اسلام کے استحکام میں ان تاجروں کا کردار بہت نمایاں ہے۔ اسی بدولت مسلمانوں نے فتوحات حاصل کیں اور مسلمان عرب و عجم کے مالک بن گئے۔
انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے تجارت کی اور اسی تجارتی کمپنی کی وجہ سے دنیا کے حکمران بنے اور مسلمانوں کو اپنا غلام بنایا۔ آج کی عالمی طاقت امریکہ بھی اسی تجارتی اور عسکری برتری کی مرہونِ منت ہے۔ آج پوری دنیا تجارت کی جنگ ہی لڑ رہی ہے۔ ایک طرف یہودی لابی ساری دنیا کو نیو ورلڈ آرڈر کے شکنجے میں جکڑ رہی ہے تو دوسری طرف بڑی قوتوں کے درمیان تجارتی رسہ کشی عروج پر ہے؛ تاہم پوری مسلم دنیا اپنے تمام وسائل غیروں کے ہاتھوں میں دے کر عالمی تجارت سے دستبردار ہوئے بیٹھی ہے۔
اسلام واحد مذہب ہے جس کی بنیادیں علم و حکمت پر ہیں۔ یہی اللہ کا پسندیدہ اور اللہ ہی کا بھیجا ہوا دینِ ہدایت ہے۔ اس دین کی اصل بنیاد اور اساس‘ انسانیت کی بلندی اور ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل ہے اور یہ معاشرے ہی ہماری تاریخ کے سنہری باب ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قرون وسطیٰ ہی وہ دور تھا جب اسلامی کردار، فن و ادب، رہن سہن، تہذیب و تمدن اور سائنس و ٹیکنالوجی نے ایک انقلاب برپا کیا۔ دین اسلام نے وہ اسلامی معاشرہ تشکیل دیا، ایسے حکمران پیدا کئے، ایسی شخصیات پیدا کیں کہ ایک معمولی عورت کی فریاد دیبل کے قید خانوں سے نکل کر حجاج بن یوسف تک جا پہنچتی ہے اور اس کو احساس دلاتی ہے کہ اس کے دورِ حکومت میں ایک مسلم عورت کیسے قید رہ سکتی ہے اور یہی احساس سندھ کی فتح کا سبب بنا۔ مگر اب حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کشمیر، فلسطین، چیچنیا، روہنگیا مسلمان، ماضی قریب میں سلواکیہ، ہرزیگوینا، اس کے بعد عراق، لیبیا، شام، افغانستان ساری مسلم دنیا اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔ ہمارا ماضی انتہائی شاندار رہا ہے، اوائل صدیوں میں عالم اسلام نے کسی بھی شعبے میں کوتاہی نہیں برتی، سائنسی، علمی، تہذیبی اور تمدنی غرض مسلم لشکروں نے صحرا اور سمندر دونوں کا احاطہ کرتے ہوئے دنیا کے بہت سارے حصے میں مسلم حکومتیں قائم کیں۔ اپنے اوصاف اور دین کی پیروی کرتے ہوئے محض شہروں کو نہیں بلکہ قلوب کو تسخیر کیا جس کی وجہ سے اسلام کا آفاقی پیغام چہار دانگ عالم پہنچا۔ یہی وہ دور تھا جب مسلم امہ میں عبقری شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے ساری دنیا کو علم و سائنس کی وہ روشنی دی، وہ نت نئی ایجادات اور سائنسی انکشافات کئے جس نے ساری دنیا کی امامت اور رہبری عالم اسلام کو دی اور تب ہماری درس گاہوں اور دانش گاہوں کی وہی قدر و منزلت تھی جو آج یورپی و امریکی جامعات کی ہے۔ لیکن اب حالات اس کے برعکس اور مایوس کن ہیں اور ہم تنزلی کا شکار ہو چکے ہیں۔ باطل طاقتیں صدیوں سے اسلام مخالف منصوبوں پر ہوم ورک کرتی رہیں اور پھر انہیں تسلی سے ترتیب دیا گیا، ان مذموم منصوبوں کو مسلم دنیا میں نام نہاد لیڈران کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچایا جا رہا ہے۔ 
مسلم تاریخ گواہ ہے کہ علم بھی ہمارا تھا، تہذیب بھی ہماری تھی، تمدن بھی، ادب و ثقافت بھی‘ غرض ہر شعبے پر اسلامی رنگ نمایاں تھا۔ اب ہماری حالت اس قدر ابتر کیوں ہے؟ آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ رکوانے اور ترکی کے مردِ حر طیب اردوان کو سبق سکھانے کے لئے مغرب بلیک میلنگ پر اُتر آیا ہے جبکہ یونان و سپین میں عثمانی دور کی مساجد پر قبضے کے معاملے میں مغرب اور اُس کے حواریوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ حتیٰ کہ درجنوں ایسی مسجدیں ہیں جن کا تشخص تبدیل کیا جا چکا ہے۔ اب یہ مساجد نمائش کے مرکز یا پھر سینما ہالوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ افسوس آیا صوفیہ پر واویلا مچانے والے مغرب پر سکوت طاری ہے جس سے اس کی بدترین منافقت ظاہر ہوتی ہے۔
مسلمان ریاستوں کی تعداد دنیا میں 57کے لگ بھگ ہے‘ تیل و دیگر قیمتی معدنی ذخائر کی دولت سے مالا مال‘ جن کو غیر مسلم بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ نہتے مسلمانوں پر بمباری کرنے والے جہازوں میں استعمال ہونے والا یندھن بھی مسلمانوں کے ملک سے ہی نکلتا ہے۔چند لاکھ افراد پر مشتمل غاصب‘ مسلم دشمن اسرائیل تمام مسلم امہ پر حاوی ہے۔ قبلہ اول پر وہ قابض ہے، دنیا بھر کے مسلمانوں کی چیخ و پکار، آہ و بکا بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔کیوں؟ اس کا سیدھا سادہ جواب یہی ہے کہ پچھلی صدیوں سے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہم ان اقوام سے بہت پیچھے رہ گئے۔ عراق، شام، لیبیا پہلے ہی بے دست و پا ہو چکے ہیں۔ لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ پاکستان اسلامی ایٹمی طاقت‘ اندرونی نااتفاقی اور کمزور معیشت کی بنا پر احترام اور اپنے مقام سے محروم ہے۔ دراصل جنگ عظیم کے بعد ورلڈ آرڈر یا دوسرے لفظوں میں مسلم دنیا کے ڈس آرڈر نے ہی اسرائیل کو جنم دیا۔ چنانچہ نیو ورلڈ آرڈر کی رو سے اسرائیل ہی حتمی سپرپاور ہوگا۔ اس نیو ورلڈ آرڈر کے خدوخال امریکیوں کی غیر مشروط اسرائیل کی حمایت میں دکھائی دیتے ہیں۔ نئے ورلڈ آرڈر کیلئے ''سٹیج‘‘ تیار کیا جا رہا ہے۔ اس نئے ورلڈ آرڈر کی ترتیب اور اس کے خدوخال مسلم دنیا کے لئے انتہائی بھیانک اور تباہ کن ہوں گے کیونکہ مسلم دنیا اُن ٹیکنالوجی ''وار فیئرز‘‘ سے قطعی ناآشنا ہے جو مستقبل قریب میں استعمال ہونے جا رہے ہیں۔ 
درحقیقت مسلم دنیا سائنس سے نکل گئی اور اسلام کی روح سے دور ہو کر فرقوں اور تفرقوں میں بٹ چکی ہے اور مسلمانوں کی غفلت، تن آسانیوں اور عیش کوشی نے انہیں یورپ اور امریکہ کا محتاج بنا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری جانب مسلم اُمہ نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کو فراموش کرکے سائنسی میدان کو غیر مسلم اقوام کے لئے کھلا چھوڑ دیا، یورپ و ا مریکہ کی طرح سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں جھنڈے نہیں گاڑے۔ جب ہم نے تفکر کا دامن چھوڑا تو ہم سے زمانے کی امامت بھی چھین لی گئی۔ بڑی طاقتیں نئے ورلڈ آرڈر میں اپنا کردار متعین کرنے کی کوشش میں ہیں اور عالم اسلام نئے ورلڈ آرڈر کے کھلاڑیوں کو صرف ہونقوں کی طرح دیکھنے پر ہی اکتفا کئے ہوئے ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved