تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     28-07-2020

اب دنیا کو تبدیل ہونا پڑے گا

کورونا کی وبا رفتہ رفتہ دم توڑ رہی ہے یا یہ سمجھ لیا جائے کہ پہلا مرحلہ رخصت ہو رہا ہے۔ اس وبا کا دم توڑنا کچھ زیادہ خوش آئند نہیں کیونکہ اِس کے نتیجے میں بہت کچھ ہے جو پہلے ہی دم توڑ چکا ہے۔ کورونا کی وبا کیا عام ہوئی، دنیا بھر میں کروڑوں، بلکہ اربوں افراد کے لیے ڈھنگ سے جینا حرام ہوگیا۔ کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے کے نام پر جو کچھ بھی کیا گیا وہ اس امر کا غمّاز ہے کہ معاملات صرف وہ نہیں جو دکھائی دے رہے ہیں۔ کورونا وائرس کے حوالے سے جس قدر شور مچایا گیا اور جس انداز سے معاملات کو الٹا، پلٹا گیا اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صورتِ حال خاصی گمبھیر ہے۔ 
کورونا کی وبا نے دنیا کو بدل ڈالا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ اس وبا کو بہانہ بناکر دنیا کو بدلنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے جو اچھی خاصی حد تک کامیاب رہی ہے۔ یہ کوشش ہے دنیا کو ایک نئے سانچے کی ڈھالنے کی۔ عالمی امور پر متصرف قوتوں نے طے کیا ہے کہ دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق یوں تبدیل کیا جائے گا کہ پہلا سا بہت کچھ نہیں رہے گا اور جو نیا متعارف کرایا جائے گا اس کا بیشتر حصہ پچھلی باتوں سے مختلف ہوگا۔ عالمی سطح پر سیاہ و سفید کے مالک سمجھے جانے والوں نے طے کیا ہے کہ اپنے مفادات کو غیر معمولی حد تک تحفظ فراہم کرنے کے لیے دنیا کو ایک ایسے سانچے میں ڈھالا جائے گا جس میں اب تک محروم رہنے والے طبقات کے لیے کچھ نہیں ہوگا یعنی اُن کے لیے دنیا وہی کی وہی رہے گی۔ جن کے نصیب میں اب تک پریشانیاں لکھی رہی ہیں انہیں مزید نامعلوم میعاد تک پریشان ہی رکھنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ 
سو سوا سو سال قبل جب مغرب میں ایجادات و اختراعات کا بازار گرم ہوا تھا تب یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ اب پوری دنیا میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوں گی اور اربوں افراد کا مقدر بدلے گا۔ جن خطوں نے کبھی بھرپور ترقی کا منہ نہ دیکھا تھا اُن کے بارے میں سوچا جانے لگا کہ اب وہ بھی ڈھنگ سے جینے کے قابل ہوجائیں گے۔ اہلِ مغرب نے جس تیزی سے فطری علوم و فنون کو تحقیق و ترقی اور پیش رفت سے ہم کنار کیا اُسے دیکھتے ہوئے یہ امید کی جانے لگی تھی کہ اب پوری دنیا کو معیاری انداز سے جینے کا موقع ملے گا۔ کسی حد تک یہ ہوا بھی مگر مغرب کے پالیسی میکرز نے اپنی بے مثال ترقی کی چکی میں دنیا بھر کے غریبوں کو پیس ڈالا۔ ایک صدی کے دوران یہ کھیل اس حد تک کھیلا جاچکا ہے کہ اب دنیا بھر کے پسماندہ معاشرے مایوس ہوچکے ہیں۔ افریقا، مشرقِ وسطیٰ، جنوب مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا اور جنوبی امریکا کے پسماندہ معاشرے حالات کی سختیاں جھیلتے جھیلتے امید ہار بیٹھے ہیں۔ 
اکیسویں صدی اپنے ساتھ صرف غیر معمولی پیش رفت اور ترقی ہی نہیں لائی بلکہ بہت سے خبائث بھی لے کر وارد ہوئی ہے۔ انسان نے بہت کچھ پایا ہے مگر بہت کچھ کھو بھی تو چکا ہے۔ مذہب تمام خبائث کے آگے بند باندھ دیا کرتا تھا۔ دہریت اور الحاد نے یہ بند توڑ دیے ہیں۔ خاصی ہوشیاری سے مذہب کو عام آدمی کی زندگی سے نکال دیا گیا ہے۔ مذہب کے نام پر چند رسوم ادا کرنے کو کافی سمجھ لیا گیا ہے۔ آج کا انسان مذہب کو پوری زندگی کا معاملہ نہیں سمجھتا بلکہ اِسے خالص نجی یا انفرادی نوعیت کا معاملہ سمجھ کر ایک طرف ہٹادیا گیا ہے۔ آج کی دنیا میں مذہب بیزاری عام ہے۔ مغرب نے اپنی شاندار مادّی ترقی کی بدولت پوری دنیا کو خطرناک حد تک متاثر کیا ہے۔ خطرناک حد تک اس لیے کہ مغرب نے دہریت اور الحاد کو اپنایا ہے اور اُس کی دیکھا دیکھی آج پوری دنیا میں الحاد کا غلغلہ ہے۔ پسماندہ خطوں کی نئی نسل مغرب سے مرعوب ہوکر اُس کی تقلید میں ہر اُس باطل نظریے کو بخوشی اپنا رہی ہے جو مغرب نے دیا ہے۔ کئی خطوں کی اپنی تہذیبی اقدار ہیں، شاندار ثقافتی روایات ہیں اور وہ دوسرے خطوں سے غیر معمولی اشتراکِ عمل کے بغیر بھی ڈھنگ سے زندہ رہے ہیں۔ صدیوں کے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو ترک کرکے یہ خطے ایک ایسی طرزِ حیات کو اپنانے میں مست ہیں جس کی کوئی اصل نہیں اور جس نے دنیا کو محض خرابی سے دوچار کیا ہے۔ 
کورونا کی وبا کی روک تھام کے نام پر بڑی طاقتوں نے جو کھیل 6 ماہ کے دوران کھیلا ہے اُس نے کئی خطوں کو (مزید) شدید پسماندگی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ متعدد معیشتوں کی شرحِ نمو خطرناک حد تک کم ہوگئی ہے۔ بے روزگاری کا گراف بلند ہوا ہے۔ مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ عام آدمی کے لیے جینا دشوار تھا، اب دشوار تر ہوگیا ہے۔ چند بڑی طاقتوں کے درمیان کشمکش بھی چل رہی ہے۔ مجموعی طور پر معاملہ یہ ہے کہ کسی بھی پسماندہ خطے کو ابھرنے نہ دیا جائے۔ محسوس ہوتا ہے کہ بڑی طاقتوں کے درمیان ایک نکتے پر ضرور اتفاق پایا جاتا ہے کہ تمام پسماندہ خطوں اور ممالک کو پوری طرح دبوچ کر رکھا جائے تاکہ وہ سر اٹھانے اور خطرہ بننے کے قابل نہ ہوسکیں۔ 
دنیا کو ایک نئے سانچے میں ڈھالنے کے نام پر کمزور خطوں اور پچھڑے ہوئے معاشروں کو مزید دبوچنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ بڑی طاقتوں نے تہیہ کرلیا ہے کہ جن کے نصیب میں سکون کے سانس نہیں تھے اُن کا مقدر تبدیل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اربوں افراد کے لیے معاملات جوں کے توں رکھنے، بلکہ مزید بگاڑنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ ایسے میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا مناسب نہیں۔ کمزور خطوں کے پاس ایک ہی آپشن رہ گیا ہے ... یہ کہ ایک پلیٹ فارم پر آئیں اور اپنے لیے ایسا راستہ منتخب کریں جس پر گامزن رہنے کی صورت میں اُن کے مسائل حل ہوں، اُن کی تعداد گھٹے۔ مگر خیر، یہ ایسا آسان کام نہیں کہ کہہ دیا جائے اور ہو جائے۔ جنہوں نے دنیا کو اپنے شکنجے میں کَسا ہوا ہے وہ آسانی سے اپنے ارادوں کو بدلنے والے نہیں۔ حد یہ ہے کہ اپنے لیے مشکلات میں اضافے کے باوجود کوئی بھی قوت راستہ بدلنے کو تیار نہیں۔ 
یہ وقت واقعی بدلنے، بلکہ بدل جانے کا ہے۔ وقت کا ناگزیر تقاضا ہے کہ ہر انسان اور ہر معاشرہ اپنی اصلاح پر مائل ہو۔ ایسا کیے بغیر بہتر زندگی کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے تو خیر یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ ہر دور میں ڈھنگ سے وہی جی پائے ہیں جنہوں نے بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو بدلنے پر توجہ دی ہے، کوشش کی ہے۔ آج یہ تقاضا ایسا ہے کہ کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جس نے معاملات کو بے دلی یا لاپروائی سے لیا وہ برباد ہوا۔ ماضی میں بہت سے معاشرے محض اس لیے برباد ہوئے کہ اُنہوں نے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور منصوبہ سازی کے ساتھ محنت پر متوجہ نہیں ہوئے۔ 
تھوڑی سی توجہ دی جائے تو سمجھا جاسکتا ہے کہ دنیا کو تبدیل کیا جارہا ہے یعنی معاملہ یہ ہے کہ جو معاشرے اپنی اصلاح پر مائل نہیں ہو رہے اُنہیں طاقتور معاشرے اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے پر کمربستہ ہیں۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ مزاحمت کا سوچا جائے، اپنی تہذیبی اور ثقافتی اقدار کی بقا کے لیے کمر کَس لی جائے۔ 
کورونا کی وبا کے نام پر بڑی طاقتوں نے جو کھیل شروع کیا ہے وہ زور پکڑتا جائے گا۔ کمزور اقوام کو زیادہ سے زیادہ پسماندگی سے دوچار رکھنے پر غیر معمولی توجہ دی جارہی ہے۔ اُن کے لیے ڈھنگ سے جینا مشکل سے مشکل تر بنایا جارہا ہے۔ ایسے میں اُن کے پاس یہی ایک آپشن رہ گیا ہے کہ مل کر اپنی بقا کے لیے کچھ کریں۔ جدید ترین علوم و فنون میں پیش رفت کے ذریعے معاملات کو بہت حد تک درست کیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے تہذیبی ورثے کو بچانے پر بھی انہیں بھرپور توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ دنیا کو بدلا جارہا ہے۔ ایسے میں مشکلات سے دوچار اقوام کو بروقت بیدار ہوکر اپنے مستقبل کے حوالے سے سوچنا ہی پڑے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved