کچھ لوگوں سے ایسا تعلق بن جاتا ہے کہ آپ کو خطرات مول لے کر بھی ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونا پڑتا ہے۔ ہم دیہاتی سمجھتے ہیں آپ بے شک کسی کے سکھ میں شریک نہ ہوں مگر دکھ کی گھڑی میں جا کر دکھ بانٹنا چاہیے۔ کالم نگار دوست ارشاد بھٹی اکثر میرا مذاق اڑاتا ہے کہ تم ایسے ہو کہ کوئی بھی راستے میں مل جائے اور مروتاً کہہ دے کہ آپ نے میرے بیٹے یا بیٹی کی شادی میں ضرور آنا ہے تو تم سینکڑوں میل سفر کر کے تکلیف بھگت کر وہاں پہنچ جاتے ہو۔ اس بندے تک کو بھول چکا ہوتا ہے کہ اس نے تمہیں بلایا تھا لیکن تم یاد رکھتے ہو۔
ارشاد بھٹی پوچھنے لگا: تمہیں اس سے کیا ملتا ہے؟
میں نے کہا:جو بندہ اتنی محبت سے دعوت دے کر بھول چکا ہوتا ہے وہ اپنے بچے یا بچی کی شادی پر جب اچانک مجھے دیکھتا ہے تو اسی کی حیرانی اور خوشی دیکھ کر میرے پیسے پورے ہو جاتے ہیں ۔ یہی کچھ شکیل عادل زادہ صاحب کی صاحبزادی کی شادی پر ہوا جب وہ مجھے کارڈ واٹس ایپ کر کے خوش بیٹھے تھے کہ چلیں فرض پورا ہوا‘ اب کون بھلا اسلام آباد سے کراچی آئے گا۔ جب میں اپنے مہربان اقبال دیوان صاحب کے ساتھ شادی ہال میں داخل ہوا تو شکیل عادل زادہ کو مجھے دیکھ کر ایک جھٹکا لگا تھا۔ بولے: ارے آپ کہاں۔ حیرانی سے کچھ سنبھلے تو بولے: آئیے آئیے ان سے ملیں یہ ہیں ہماری ہونہار لکھاری نورالہدیٰ شاہ۔ میں نے کہا: جی ان کا شہرہ آفاق پی ٹی وی ڈرامہ ''جنگل‘‘ دیکھنے کے چکر میں اماں سے کُٹ کھائی ہوئی ہے۔
ابھی اپنے دوست اور گُرو رانا اعجاز محمود کا غم تازہ ہے۔ ایسا غم جو شاید کبھی ساتھ نہ چھوڑے۔ کئی دن سے ڈپریشن ہے حالانکہ انہیں لیہ چوک اعظم کے قبرستان میں خود دفن کرکے آیا ہوں لیکن یقین کریں یقین نہیں آرہا۔ ان حالات میں 13 جولائی کو ارشد شریف کا میسج تھا کہ ہمارے دوست اسامہ شمس کے والد جو لاہور کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں کورونا کے علاج کے لئے داخل تھے‘ فوت ہوگئے ہیں۔ اسامہ والد کے بہت قریب تھا۔ میں نے والد کی موت پر اُس کی فیس بک پر لکھی تحریر پڑھی تو آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ ایک بیٹے نے لہو میں ڈبو کر وہ لفظ لکھے تھے۔ میں وہ تحریر پڑھ کر بڑا متاثر ہوا اور مجھے ایک دفعہ پھر اندازہ ہوا کہ باپ بیٹے کے لئے کتنی اہمیت رکھتا ہے۔
ارشد شریف‘ ضمیر حیدر‘ خاور گھمن‘ عدیل راجہ‘ علی عثمان‘ شاہد بھائی اور میرے درمیان طے پایا کہ کل صبح آٹھ بجے اسامہ شمس کے نوشہرہ سے کچھ دور گائوں زیارت کاکا حبیب کیلئے نکلیں گے اور شام تک لوٹ آئیں گے۔ صبح ہوئی تو صرف ارشد شریف‘ علی عثمان‘ عدیل راجہ اور میں ہی روانہ ہوئے۔ نوشہرہ سے دور اسامہ کا گائوں تھا‘ پہاڑوں میں گھری ہوئی خوبصورت بستی۔ اسامہ کے گھر کے قریب ہی واقع حجرے میں بیٹھے‘ تعزیت کے لئے ہاتھ اٹھائے تو پھر اندازہ ہوا کہ ایک جوان بیٹے کیلئے ایک باپ کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ آپ خود بچوں کے باپ بن جائیں‘ آپ جوان ہو جائیں لیکن پھر بھی باپ کی ضرورت آپ کو زندگی کے ہر لمحے رہتی ہے۔ کوئی تو ہو جس کو آپ بتا سکیں۔ آپ نے زندگی میں کتنا بڑا بلنڈر مارا ہو لیکن باپ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہے گا: کوئی بات نہیں میں سنبھال لوں گا‘ تم فکر نہ کرو۔ایسے موقعوں پر مجھے بابا بڑی شدت سے یاد آتے ہیں۔ بڑے بھائی سلیم بینک میں نوکری کرتے تھے۔ غلطی سے وہ کسی بندے کو دس ہزار روپے کے چیک پر بیس ہزار روپے دے بیٹھے۔ شام کو پتہ چلا کہ کیش کم ہے۔ انہیں کہا گیا کہ دو تین دن کے اندر دس ہزار روپے جمع کرائیں ورنہ نوکری سے فارغ۔ اب کہاں سے دس ہزار روپے آتے۔ گھر میں ماتم کی کیفیت تھی۔ اماں کا رو رو کر برا حال ہو گیا تھا۔ اس روز گھر میں کھانا تک نہ پکا تھا۔ شام کو بابا گھر آئے‘ وجہ پوچھی تو اماں رونے لگ گئیں۔ بھائی نے سارا واقعہ بتایا۔ بابا نے سکون سے اماں کو کہا: تم کھانا بنائو میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔ رات کو واپس لوٹے تو اس وقت تک کسی نے کھانا نہیں کھایا تھا۔ انہوں نے دس ہزار روپے نکالے‘ سلیم بھائی کو دیے اور اماں کو کہا: اب سب کو کھانا دو۔ اماں نے پوچھا: کہاں سے لائے؟ بولے: ساری بکریاں اور جانور بیچ آیا ہوں‘ صرف دودھ کے لئے ایک بھینس بچی ہے۔ درختوں کا سودا بھی کر آیا ہوں۔ اماں نے کہا: یہ کیا کیا؟ بولے: بیٹے سے زیادہ کیا پیارا ہو سکتا ہے؟ مجھے کھانا دو‘ بہت بھوک لگی ہے۔ اور پھر بڑے اطمینان سے کھانا کھانے لگے جیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو۔ آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے ایک کسان کے لئے دس ہزار روپے کتنی بڑی رقم ہو سکتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس رات مجھے اندازہ ہوا کہ باپ کس چیز کا نام ہے۔
اسامہ کی باتیں سنتے ہوئے مجھے بابا یاد آئے۔ وہ بھی اسی طرح ہسپتال گئے تھے اور پھر زندہ نہ لوٹے۔ اسامہ کے والد کو کورونا تھا اور ان کے علاج پر کئی لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔ مجھے یاد آیا‘ جب میری بیوی کا امریکہ میں انکالوجسٹ ڈاکٹرنے آپریشن کرانے کا فیصلہ کیا تو ڈاکٹر کلین نے آپریشن سے پہلے مجھے دس منٹ تک پورا پراسیس سمجھایا اور تسلی دی۔ آپریشن کے بعد وہ سیدھا میرے پاس آیا اور دس منٹ تک پھر سمجھایا کہ اس کی جان بچ گئی ہے۔ اس کے بعد جس طرح نرسوں نے خیال رکھا وہ اپنی جگہ خوبصورت تجربہ تھا۔
اسامہ بتا رہا تھا: جب ڈاکٹر نے آئی سی یو سے باہر نکل کر کہا: He is no more‘ تو مجھے لگا میرا دل دھڑکنا بھول گیا تھا‘ مجھے لگا‘ پوری دنیا اچانک رک گئی ہے‘ زندگی میں خود کو ایسا بے بس کبھی محسوس نہیں کیا تھا‘ میرا باپ، میرا دوست، میرا گرو اور میرا زندگی میں رول ماڈل ہمیشہ کے لیے مجھ سے بچھڑ گیا تھا اور میں اسے نہیں بچا پایا تھا۔ اسامہ کو محسوس ہوا کہ وہ اندر تک ٹوٹ گیا ہے‘ بکھر گیا ہے۔ کوئی چیز اس کے اندر چٹخ گئی تھی۔ وہ ایک سمجھدار آواز جس نے ساری عمر اس کی رہنمائی کی تھی‘ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی تھی۔ وہ باپ جو مشکل ترین حالات میں بھی ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لے کر صورت حال سنبھال لیتا تھا‘ نہیں رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اسامہ کو محسوس ہوا کہ اس کے اندر کوئی انرجی نہیں رہی اور وہ ایک خالی جسم کے ساتھ کھڑا ہے۔ اسامہ کو یاد آیا کہ اس کا باپ ہمیشہ اسے کبھی کبھار باتوں میں کہہ دیتا: بیٹا اگر مجھے کچھ ہو جائے تو تم مضبوط رہنا۔ اسامہ نے کہا: میرا باپ ایک سیلف میڈ انسان تھا۔ اس نے خود کو تعمیر کیا اور اپنے بچوں کو بھی زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے۔ اس نے زندگی میں جو خواب دیکھے وہ سب پورے کیے۔ کوئی ایسا خواب نہیں رہ گیا تھا جو پورا نہ ہوا ہو۔ اس لمحے اسامہ شمس کو اپنے باپ پر فخر محسوس ہوا۔ اسے اپنے باپ کی زندگی پر رشک ہے۔
اسامہ نے اسی لمحے کھڑے کھڑے اپنے آپ سے چند وعدے کیے کہ پاپا میں زندگی کے اونچ نیچ راستوں پر آپ کے پڑھائے ہوئے سبق‘ جس میں محنت ‘ایمانداری اور مسلسل کوشش شامل تھی‘ پر عمل پیرا رہوں گا تاکہ آپ کی روح ہم سب بہن بھائیوں سے خوش اور مطمئن رہے کہ آپ کے جانے کے بعد ہم نے آپ کے سکھائے ہوئے بنیادی اصولوں سے انحراف نہیں کیا۔ اسامہ شمس اپنے پاپا سے جڑی اپنی یادیں، بے پناہ محبت اور پیار کی باتیں سناتا رہا۔ مجھے اسامہ کے پاپا پر رشک بھی آیا کہ کوئی بیٹا اپنے باپ سے اتنا اُنس بھی رکھ سکتا ہے کہ خود عملی زندگی میں ہو، بچوں کا باپ ہو کر اپنے باپ کی محبت میں سرشار تھا۔
میں ‘ ارشد شریف اور عدیل راجہ خاموشی سے ایک بیٹے کی باپ سے محبت کو محسوس کرتے رہے ‘ایک ایسا بیٹا جو تمام تر کوشش کے باوجود اپنے باپ کو نہ بچا سکا تھا۔