تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     29-07-2020

گونگے معاشرے کی تشکیل

تعلیم کسی بھی معاشرے میں تخلیق، جدت، رواداری اور برداشت کی اقدار کی نشوونما کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم کے اہم اجزا میں نصاب، درسی کتب، طریقۂ تدریس اور نظامِ امتحان کا گہرا دخل ہوتا ہے۔ تعلیم کا بنیادی مقصد طلباء میں تخلیقی اور تنقیدی سوچ بیدار کرنا اور ان کے کردار میں ان صفات کو پروان چڑھانا ہوتا ہے جن کی بدولت وہ معاشرے میں ایک ذمہ دار فرد کے طور پر زندگی گزار سکیں‘ معاشرے کے دوسرے افراد کے ساتھ مِل جُل کر رہ سکیں اور فطرت کے ساتھ ایک دوستانہ تعلق برقرار رکھ سکیں۔ اب ہم اکیسویں صدی میں ہیں جس میں ہمارے طالبِ علموں کو آگے بڑھنے کے لیے سخت محنت کرنا ہو گی اور ان مہارتوں سے آشنا ہونا ہو گا جو اکیسویں صدی میں زندہ رہنے (Survival) کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ ان مہارتوں کا ذکر حراری (Harari) نے اپنی کتاب 21 Lessons for the 21st Century میںکیا ہے۔ ان مہارتوں میں سرفہرست تنقیدی فکر (Critical Thinking) ہے۔ اس کے علاوہ Communication, Creativity اور Collaboration وہ مہارتیں ہیں‘ جو دورِ جدید میں ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے بچوں کو ایسا ماحول فراہم کر رہے ہیںکہ وہ آزادانہ سوچ اپنا سکیں؟ اپنی رائے کا اظہار کر سکیں اور کسی بھی معا ملے پر سوال اُٹھا سکیں؟ بدقسمتی سے ان سب سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ اس کا ثبوت وہ تین واقعات ہیں جو پچھلے ہفتے پیش آئے اور جو بظاہر الگ الگ ہیں لیکن تینوں ایک ہی صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ایک ایسی صورتحال جس میں معاشرے میں انفرادی آزادی اور تخلیقی اور تنقیدی سوچ کے دن گنے جا چکے محسوس ہوتے ہیں اور ہم بڑی تیزی سے ایک ایسے معاشرے میں بدل رہے ہیں‘ جہاں ہماری انفرادی سوچ کی جگہ ایک خاص سوچ کو مسلط کیا جا رہا ہے اور یہ خاص سوچ بھی چند لوگوں کی ذاتی خواہشوں پر مبنی ہے۔ سب سے پہلا واقعہ 23 جولائی کو پیش آیا جب پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ (PCTB) کی طرف سے ایک سو کتابوں پر پابندی لگا دی گئی جو مختلف پرائیویٹ سکولوں میں پڑھائی جا رہی تھیں۔ بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر نے اپنی پریس کانفرنس میں ان کتابوں پر پابندی کی وجوہ بتاتے ہوئے اعلان کیا کہ ان میں گستاخانہ‘ غیر اخلاقی (Immoral) اور پاکستان مخالف (Anti Pakistan) مواد تھا۔ یہ انتہائی سنجیدہ الزامات ہیں۔ خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں مذہب کے حوالے سے لوگ حساس ہیں اور Blasphemy جیسے الزام پر کشت و خون تک نوبت آ جاتی ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ سو کتابوں کی فہرست میں جو اعتراضات اُٹھائے گئے ان کی نو عیت کیا ہے ؟ اور کیا وہ واقعی Blasphemy کے زمرے میں آتے ہیں۔ چند مثالیں حاضرِ خدمت ہیں۔ بیشتر کتابوں پر اعتراض ہے کہ ان میں دیے گئے نقشے میں کشمیر کو پاکستان کا حصہ نہیں دکھایا گیا۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے اپنے ادارے سروے آف پاکستان کی ویب سائٹ پر دیے ہوئے سرکاری نقشے میں جموں اور کشمیر کو متنازعہ (Disputed) علاقہ دکھایا گیا ہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ سروے آف پاکستان پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کی نظروں سے بچ گیا ورنہ اس پر بھی پابندی عائد ہو سکتی تھی۔ ایک اور اعتراض ملاخطہ فرمائیں۔ ایک کتاب میں ''ہماری اردو‘‘ سبق میں کلکتے اور اس کے حوالے سے گاندھی کا ذکر آیا ہے۔ شاید اعتراض کرنے والے کو معلوم نہیں کہ آزادی کی جدوجہد میں گاندھی نے مسلمان رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام میں جن لوگوں نے چندے کی صورت میں مالی امداد کی ان میں گاندھی کا نام بھی تھا۔ اسی طرح تحریکِ خلافت میں گاندھی نے مسلمانوں کا ساتھ دیا اور پھر پاکستان کو اس کا جائز حصہ نہ دینے پر احتجاج بھی کیا تھا۔ گاندھی کے انتقال پر ''روزنامہ انقلاب‘‘ میں غلام رسول مہر نے اپنے اداریے ''مہاتما گاندھی: دورِ حاضر کی یگانہ شخصیت‘‘ کے عنوان کے تحت ایک بھرپور توصیفی اداریہ لکھا تھا۔ یہ ہیں وہ چند اعتراضات جنہیں دیکھ کر آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان میں کون سی چیز پاکستان مخالف‘ غیر اخلاقی اور توہین آمیز ہے اور اگر ایسا نہیں تو سوال یہ ہے کہ اس قدر سخت الزامات سے اشاعتی کام کرنے والوں کی زندگیوں کو کیوں خطرے میں ڈال دیا گیا ہے؟
اسی کے ساتھ جڑا ہوا دوسرا واقعہ پنجاب اسمبلی میں ''تحفظ بنیاد اسلام‘‘ بل کا منظور کیا جانا ہے۔ اس بل کے تحت ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز (DGPR)کو یہ اختیارات مِل جائیں گے وہ کہ کسی بھی پرنٹنگ پریس، پبلیکیشن ہاؤس یا بُک سٹور پر کسی بھی کتاب کو پرنٹ ہونے سے پہلے یا بعد میں ضبط کر سکیں گے۔ بِل کے مطابق اشاعتی ادارے اس بات کے پابند ہوں گے کہ کتاب کی اشاعت والے دن ہی ہر کتاب کی چار کاپیاں ڈی جی پی آر کو بھیجیں گے۔ اس قانون پر عمل نہ کرنے کی سزا 5 سال قید اور 5 لاکھ روپے جُرمانہ ہے۔ ان دو واقعات کے ساتھ جُڑا ہوا تیسرا واقعہ فیڈرل بورڈ کے میٹرک کا حیران کُن نتیجہ ہے جسے 21ویں صدی کے معجزوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ کل نمبر 1100 تھے جس میں پہلی پوزیشن پر 1097 اور دوسری پوزیشن پر 1096 اور تیسری پوزیشن پر 1095 نمبر حاصل کیے گئے۔ تعلیم سے ایک تعلقِ خاص کی بدولت یہ خبر میرے لیے تشویشناک تھی کہ ہمارا نظامِ تعلیم کِن پستیوں میں گھِر چکا ہے۔ اگر1100 میں سے 1097 نمبر لیے جا سکتے ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نظامِ تعلیم کو سرتاپا بدلنا ہوگا۔ اگر میٹرک کے امتحان کے امتحانی پرچوں پر نگاہ دوڑائیں تو ان کے تین سیکشنز ہیں۔ ایک ملٹیپل چوائس دوسرا مختصر سوالات اور تیسرا Descriptive سوالات کا سیکشن۔ پہلے سیکشن میں سو فیصد نمبر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ دوسرے سیکشن میں مختصر سوالات کے درمیان چوائس بھی موجود ہے۔ تیسرے سیکشن میں ہر سوال کو مزید تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ یوں عملاً امتحانی پیپر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گیا ہے‘ جس میں نمبروں کا حصول نسبتاً آسان ہے لیکن اس سارے عمل میں طلباء کو علم کے اطلاق کے حوالے سے کوئی کام نہیں کرنا پڑتا۔ دوسرے لفظوں میں ہمارا امتحانی نظام محض یادداشت کا امتحان ہے‘ جو طلباء کو بہ آسانی یہ سہولت فراہم کرتا ہے کہ رٹا لگا کر بغیر سمجھے امتحان میں لکھ کر وہ بہت اچھے نمبر حاصل کر سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے امتحانی نظام میں علم کے اطلاق یا تخلیقی سوچ کو نہ تو جانچا جاتا ہے نہ ہی ان کی ہمارے نظامِ تعلیم میں کوئی اہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلباء‘ جو اچھے نمبروں کے ساتھ پاس ہوتے ہیں‘ عملی زندگی میں ان کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہوتی۔ کسی بھی نظامِ تعلیم پر وہاں کا امتحانی نظام اور طریقِ تدریس‘ دونوں براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسے Washback Effect کہتے ہیں۔ مثلاً پاکستان کا امتحانی نظام اگر صرف یادداشت کا امتحان ہے اور تخلیقی سوچ کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تو اس کا براہِ راست اثر طریقہ تدریس پر پڑتا ہے‘ کیونکہ ہمارا امتحانی نظام رٹے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے لہٰذا اساتذہ کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ تدریس کا محورومرکز اچھے نمبروں کا حصول ہو۔ 
ان تینوں واقعات کو ملا کر دیکھیں تو ایک واضح تصویر نظر آتی ہے۔ ایک ایسے معاشرے کی تصویر جہاں صرف بے زبان تقلید (Conformity) ہی کامیابی کا زینہ ہے۔ جہاں جدتِ فکر، تخلیقی اور تنقیدی سوچ پر پابندیاں ہیں۔ جہاں وہی بات حرفِ آخر ہے جس پر سرکاری مہر لگی ہو۔ جہاں تعلیم، کتاب اور عقیدے کی وہی تشریح درست ہے جو ہمیں بتائی جا رہی ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved