تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     29-07-2020

کاک ٹیل

سندھ حکومت کام نہ کرتی تو پانی ہفتوں
سڑکوں پر کھڑا رہتا: شرجیل میمن
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن نے کہا ہے کہ ''سندھ حکومت کام نہ کرتی تو پانی ہفتوں سڑکوں پر کھڑا رہتا‘‘ جو اب سارے کا سارا گھروں میں داخل ہو گیا ہے اور سڑکیں خوب خشک ہو گئی ہیں اور لوگوں کی موجیں لگی ہوئی ہیں، وہ جب جی چاہتا ہے‘ اٹھتے ہی نہانے لگتے ہیں اور پانی کی قلت کی اگلی پچھلی ساری کسریں نکالنے لگتے ہیں بلکہ انہوں نے گھروں کے آگے بند باندھ دیے ہیں تا کہ پانی کہیں باہر نہ نکل جائے اور ایک بار پھر انہیں بوند بوند کو ترسنا نہ پڑ جائے جبکہ اگلی بارش تک یہ پانی ان کی جملہ ضروریات بہ آسانی پوری کرتا رہے گا جس سے ثابت ہوا کہ دولت کی طرح خدا جب دیتا ہے تو پانی بھی چھپر پھاڑ کر دیتا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت سے جان چھڑانے کا 
وقت آ گیا ہے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکومت سے جان چھڑانے کا وقت آ گیا ہے‘‘ اور پورے دو سال کے بعد آیا ہے جس کا ہم شدت سے انتظار کر رہے تھے کہ کب یہ وقت آئے اور کب اس سے پیچھا چھڑایا جائے، اور اگر یہ وقت پہلے آ جاتا تو ہم کب سے اس سے جان چھڑا چکے ہوتے۔ تاہم ہر کام اپنے وقت پر ہی اچھا لگتا ہے کیونکہ وقت کی نماز اور بے وقت کی ٹکریں ہی ہوتی ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کر رہے تھے۔
آٹا‘ چینی مہنگی کرنے والوں کے خلاف
کارروائی مزید تیز کی جائے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''آٹا‘ چینی مہنگی کرنے والوں کے خلاف کارروائی مزید تیز کی جائے‘‘ تاہم مزید تیز کرنے سے پہلے تیز کرنا ضروری ہوتا ہے جو زبانی کلامی تو شروع کی جا چکی ہے لیکن اس کا الٹا اثر ہوا ہے کہ چینی کی قیمت آئے روز دو چار روپے کلو مزید بڑھ جاتی ہے جس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے کیونکہ ہم تو اپنی طرف سے سارے کام سیدھے ہی کرتے ہیں جو الٹے ہو جاتے ہیں۔ تاہم اب ہم دوسرے طریقوں سے کام لینے کی کوشش کریں گے اور اگر ہو سکا تو اس کے لیے چلّہ کشی سے بھی کام لیں گے کیونکہ عوام کے آرام کی خاطر ہم ہر حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومتی اقدامات سے کارونا پھیلنے سے
روکنے کی کوششیں رنگ لا رہی ہیں: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''حکومتی اقدامات سے کارونا پھیلنے سے روکنے کی کوششیں رنگ لا رہی ہیں‘‘ لیکن ٹریفک کی بتیوں کی طرح کبھی یہ کام رک جاتا ہے تو کبھی پھر چلنے لگتا ہے، تاہم یہ گھڑی گھڑی بدلتے ہوئے رنگ آنکھوں کو بہت بھلے لگتے ہیں، بس ہماری کوشش یہ بھی ہے کہ کہیں ان رنگوں میں بھنگ نہ پڑ جائے جو کہ بازار میں بہ آسانی دستیاب ہے اور یہ اس کا غلط استعمال بھی ہوگا۔ آپ اگلے روز لاہور میں مختلف علاقوں کے بغیر پروٹوکول دوروں کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہم پاکستان کو ڈوبنے نہیں دیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ہم پاکستان کو ڈوبنے نہیں دیں گے‘‘ اور اسے ڈوبنے سے بچانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے ساتھ ہی بہت سے لوگوں کے خواب بھی ڈوب سکتے ہیں۔ حکومت کے خلاف مارچ اور دھرنے کر کر کے ویسے بھی بھرکس نکل گیا ہے اور اب جو اے پی سی کا ڈول ڈالا جا رہا ہے تو اس سے بھی خوف محسوس ہو رہا ہے کہ پتا نہیں اس اے پی سی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے‘ ویسے بھی اونٹ پر کس کی مرضی چلی ہے؟ آپ اگلے روز لاہور میں میاں شہباز شریف سے ملاقات کر رہے تھے۔
گنتی
ایک آدمی کہیں جا رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک شخص کنویں کی منڈیر کے قریب کھڑا ہے اور پچیس پچیس کی رٹ لگا رہا ہے۔ وہ اس کے قریب گیا اور پوچھا کہ بھلے آدمی، تم کیا گن رہے ہو؟جس پر اس شخص نے اسے پکڑ کر کنویں میں پھینکا اور کہنے لگا: چھبیس، چھبیس، چھبیس۔۔۔۔۔
سوہن سنگھ
سوہن سنگھ عمر قید کی سزا بھگت کر اپنے گائوں جا رہا تھا کہ گائوں کے قریب ہی اسے دو سکھ نوجوان نظر آئے۔ اس نے یہ سوچتے ہوئے کہ گائوں میں اُس کا کوئی رشتے دار تو باقی نہیں رہا، پتا نہیں لوگوں کو میرا نام بھی یاد ہے یا نہیں، اس نے ان نوجوانوں سے پوچھا کہ آیا اس گائوں میں سوہن سنگھ نام کا کوئی شخص کبھی رہا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کے خیال میں تو اس نام کا کوئی آدمی کبھی ان کے گائوں میں نہیں رہا۔ یہ سن کر اس نے سوچا کہ جس گائوں میں میرا نام جاننے والا ہی کوئی نہیں ہے تو اس گائوں میں جانے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ چنانچہ وہ مایوس ہو کر واپس روانہ ہوا۔ ابھی کوئی ایک دو فرلانگ ہی گیا ہوگا تو اس نے سنا کہ عقب میں آوازیں آ رہی تھیں ''سردار جی رُکو، سردار جی رُکو‘‘۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ نوجوان اس کی طرف بھاگے چلے آ رہے تھے۔ قریب آ کر وہ بولے: ہم نے گائوں جا کر پوری تصدیق کی ہے، واقعی اس نام کا کوئی شخص ہمارے گائوں میں کبھی نہیں رہا۔
اور، اب آخر میں اظہر عباس کی شاعری:
سُن اے دشتِ بلا کوئی تو ہو گا
یہاں میرے سوا کوئی تو ہو گا
اگر میں بھی نہیں ہوں جانِ جاناں
تمہارا مسئلہ کوئی تو ہو گا
تم اپنے آنسوئوں کے پیچھے دیکھو
ابھی تک قہقہہ کوئی تو ہو گا
اندھیرے میں چلائے تیر کتنے
نشانے پر لگا کوئی تو ہو گا
چلو وہ لا مکان ہے‘ مانتے ہیں
مگر اس کا پتا کوئی تو ہو گا
٭...٭...٭
ناز نخرے ذرا پسند نہیں
رُک کے چلتی ہوا پسند نہیں
کیوں مرے سامنے رکھا لا کر
جب مجھے آئینہ پسند نہیں
آپ کو وہ جگہ پسند نہ تھی
اور مجھے یہ جگہ پسند نہیں
آج کا مطلع
سدا بہار نہ تھے تیرے گل کدے لیکن
دلوں کے داغ دمکتے ہیں آج بھی تجھ بن

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved