تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-07-2020

گزر چکی ہے یہ فصلِ بہار ہم پر بھی

طاقت کا حامل ہونا بھی کیا ہی انوکھی بات ہے اور کیسا عجیب امتحان ہے۔ کوئی بھی فرد جب طاقت پاتا ہے تو بالعموم اُسے ہضم نہیں کر پاتا۔ طاقت کا ہضم کرنا بھی غیر معمولی تربیت اور مشق کا طالب ہے۔ یہی معاملہ معاشروں کا بھی ہے۔ جب کوئی معاشرہ اپنی محنت یا حالات کی مہربانی سے غیر معمولی طاقت پاتا ہے تب اُس کی حقیقی آزمائش شروع ہوتی ہے۔ یہ آزمائش ہے‘ زمینی حقائق ذہن نشین رکھتے ہوئے معقول طرزِ فکر و عمل اختیار کرنا۔ جو معاشرے ایسا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں اُن کی بقا کو لاحق خطرات کم ہو جاتے ہیں۔ زمینی حقائق کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق جینے کی روش فرد اور معاشرہ دونوں کو شدید الجھن سے دوچار کرتی ہے۔ 
آج امریکا اور یورپ طاقت کے نصف النہار تک پہنچنے کے بعد کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اُن کی طاقت میں اضافے کی رفتار غیر معمولی تھی۔ طاقت میں غیر معمولی اضافے نے دونوں خطوں کو عجیب و غریب کیفیت سے دوچار کیا۔ ہر دور میں دوسروں سے کہیں زیادہ طاقت کے حصول میں کامیاب ہونے والے معاشرے بالعموم غیر متوازن طرزِ فکر و عمل اختیار کرتے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چُور ہوکر وہ کچھ بھی کر گزرتے ہیں اور پھر اُس کا خمیازہ بھی بھگتتے ہیں۔ 
ہر دور اپنے ساتھ بہت سے چیلنج لاتا ہے۔ وقت کے چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب ہونے والوں کو تقدیر دوسروں پر برتری دیتی ہے۔ سیاست، معیشت اور معاشرت کے میدانوں میں عطا کی جانے والی برتری در حقیقت انعام سے بڑھ کر امتحان ہوتی ہے۔ قدرت کا یہ امتحان طے کرتا ہے کہ کس کی برتری برقرار رہے گی اور کس کی خاک میں مل جائے گی۔ ہر دور نے طاقتوں کو ابھرتے اور ڈوبتے دیکھا ہے۔ مغرب نے بھی عروج و زوال کے کئی مراحل سے گزر کر موجودہ ہیئت اور کیفیت پائی ہے۔ امریکا اور یورپ نے چار تا پانچ صدیوں کے دوران دنیا پر راج کیا ہے اور یہ راج بھی ویسا ہی رہا ہے جیسا اِس سے قبل ہوا کرتا تھا۔ ہر بڑی طاقت کمزور ریاستوں اور خطوں کو دبوچ کر اپنا اُلّو سیدھا کرتی رہتی ہے۔ امریکا اور یورپ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ ان دونوں خطوں نے مل کر کئی کمزور اور پسماندہ خطوں کو صدیوں تک غلامی اور پسماندگی کے شکنجے میں جکڑے رکھا ہے۔ افریقا اس کی واضح ترین مثال ہے۔ ایشیا کے کئی حصوں میں امریکا اور یورپ کی پیدا کردہ شورشوں نے معاملات کو تباہ کن حد تک بگاڑا ہے۔ 
اکیسویں صدی اپنے ساتھ بہت سی تبدیلیاں اور تبدیلیوں کے امکانات لائی ہے۔ بہت کچھ بدلتا جارہا ہے۔ یہ عمل اتنا تیز ہے کہ کبھی کبھی تو سب کچھ آنکھوں کے سامنے بدل رہا ہوتا ہے مگر یقین نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کی بے لگام سلطانی کا زمانہ اب دھیرے دھیرے اختتام کی منزل تک پہنچ رہا ہے۔ دونوں نے کمال ہوشیاری سے عالمی سیاست، سفارت اور معیشت و مالیات میں یوں پنجے گاڑ رکھے ہیں کہ فی الحال انہیں یکسر الگ کرنا کسی بھی خطے کے لیے ممکن نہیں۔ باقی دنیا مل کر بھی ایسا کرنا چاہے تو یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ عالمی اداروں کو امریکا اور یورپ نے اپنے حق میں کر رکھا ہے۔ آج بینکاری، جہاز رانی، سیاحت، تفریح، سفری سہولت اور دوسرے بہت سے کاروباری معاملات پر امریکا اور یورپ کی اجارہ داری ہے۔ کچھ مدت پہلے تک ایسا لگتا تھا کہ اب شاید صدیوں تک مغربی دنیا کا سحر ٹوٹ نہیں سکے گا اور کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ فرانسس فوکویاما نے اِسی تصور کے تحت ''دی اینڈ آف ہسٹری اینڈ دی لاسٹ مین‘‘ لکھی تھی۔ اس کتاب کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ سیاست، معیشت اور تہذیب کے حوالے سے جس قدر بھی ترقی ہونا تھی‘ وہ ہوچکی۔ اور یہ کہ جو کچھ بھی مغرب نے دیا ہے وہ انسان کے لیے حتمی اور ابدی طور پر موزوں ترین ہے۔ فوکویاما کا استدلال تھا کہ مغرب کی دی ہوئی لبرل ڈیموکریسی ہی دنیا کے لیے سیاست و سفارت کا بہترین نمونہ اور طریقہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اُن کا یہ بھی موقف تھا کہ فکری اعتبار سے اب دنیا میں کچھ نیا کرنے کی گنجائش نہیں کیونکہ مغرب سب کچھ دے چکا ہے! 
ایک دور تھا کہ مسلمان بھی عالمی طاقت کا درجہ رکھتے تھے۔ مغرب ہی کی طرح انہوں نے کئی خطوں تک رسائی پائی اور اپنی بات منوائی۔ مسلمانوں نے بھی بہت سے علاقوں کو فتح کیا، زیر نگیں کیا، باجگزار بنایا اور پھر ان خطوں کے وسائل کی مدد سے اپنی حکمرانی کو مضبوط کیا۔ اسلامی دنیا اور مغرب میں ایک فرق البتہ بہت نمایاں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چند ایک مسلم حکمرانوں نے فتح پانے کے بعد مفتوحہ علاقوں کے لوگوں پر مظالم بھی ڈھائے مگر ابتدائی دور کے مسلم فاتحین نے رواداری اور انسان دوستی کی مثالیں بھی قائم کیں۔ فتوحات کے حوالے سے مسلمانوں کا معاملہ تھوڑا سا مختلف یوں ہے کہ انہوں نے جس خطے کا بھی رخ کیا وہاں سکونت اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ مسلمان علاقوں کو محض فتح نہیں کرتے تھے بلکہ وہاں آباد ہوکر مقامی آبادیوں کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش بھی کرتے تھے، انہیں دائرۂ اسلام میں لانے کے لیے بھی کوشاں رہتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ آج مسلمان دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مغربی طاقتوں نے افریقا اور ایشیا کے بہت سے حصوں کو فتح کرنے کے بعد محض لُوٹا اور تاراج کیا۔ مغربی اقوام کسی اور خطے میں سکونت اختیار کرنے کو ترجیح نہیں دیتی تھیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ وہ خود کو باقی دنیا سے برتر اور بہتر سمجھتی تھیں۔ تفاخر صرف رنگت کا نہیں، نسل کا بھی تھا۔ اور پھر رہی سہی کسر ذہانت کے ساتھ ساتھ فطری علوم و فنون میں غیر معمولی پیشرفت نے پوری کردی۔ مغربی اقوام نے چند صدیوں کے دوران متعدد خطوں پر حکومت کی ہے۔ ان کے وسائل کو لوٹ کر اپنی ترقی کی راہ ہموار کی ہے۔ اور یوں آج تک دنیا پر مغرب کا راج مستحکم ہے۔ طاقت میں تواتر کے ساتھ رونما ہونے والے اضافے نے مغربی ذہن میں یہ خنّاس پیدا کردیا کہ اب وہ کبھی زوال سے دوچار نہ ہوگا۔ 
جب مسلمان عالمی طاقت کا درجہ رکھتے تھے تب بھی اُن میں نسلی یا تہذیبی تفاخر نہ تھا۔ وہ دوسری نسلوں کو اپنے سے کمتر نہیں سمجھتے تھے۔ دین کی تبلیغ کے ذریعے وہ محکوموں کو بھی اپنے ساتھ کھڑا ہونے کا حوصلہ بخشتے تھے۔ بہت سے غلام خاندانوں نے بھی مسلم دنیا میں بڑے منصب پائے اور حکمرانی کی۔ مسلمان اس امر کے لیے کوشاں رہتے تھے کہ جہاں بھی جائیں وہاں اپنے دین، تہذیب اور ثقافت کا اثر چھوڑیں۔ بہت سے محکوم علاقوں کا معاملہ یہ تھا کہ جب مسلم حکمران وہاں سے رخصت ہوتے تھے تو مقامی آبادی کا اصرار ہوتا تھا کہ وہ ایسا نہ کریں۔ ایسا اس لیے ہوتا تھا کہ مسلم حکمرانوں نے فتح پانے کے بعد طاقت کی بدمستی میں بے لگام ہوکر مظالم نہیں ڈھائے ہوتے تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ کسی علاقے کو مسلمانوں کی آمد پر مظالم ڈھانے والوں سے نجات ملی۔ یوں دین کی تبلیغ بھی آسان ہوئی۔ 
مسلمانوں نے جب دین کے غلبے کا جذبہ ترک کیا اور فتوحات کا مقصد محض طاقت میں اضافہ قرار پایا تب زوال سے روشناس ہوئے۔ دنیا کو بدلنے والی قوت کے درجے سے گر کر وہ محکوموںکی صف میں آگئے۔ آج مغرب کے سامنے بھی یہی چیلنج ہے۔ وہ باقی دنیا کو غلام بنانے کی سوچ ترک کرنے کی منزل سے بہت دور ہے۔ جو کبھی مسلمانوں کی فصلِ بہار تھی آج اُس کی رنگینی سے مغرب فیضیاب ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ عدل یقینی بنانے تک ہے۔ قدرت کے اصول کسی کے لیے تبدیل نہیں ہوتے۔ مسلمانوں نے بھرپور ترقی اور طاقت کے ساتھ کم و بیش ایک ہزار تک سال تک بہت اچھا وقت گزارا۔ اور پھر جب انہوں نے اللہ کی طے کردہ حدود سے تجاوز کیا تو ناکامی نے انہیں یوں گھیرا کہ پستیوں میں دھنستے چلے گئے۔ وقت آگیا ہے کہ مسلمان عظمت رفتہ کو دہرانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔ پہلا مرحلہ اپنی اصلاح کا ہے۔ اس کے بعد ہی بامعنی و بامقصد طریقے سے کچھ کیا جاسکتا ہے۔ مغرب نے تو شاید قسم کھا رکھی ہے کہ چاہے کچھ ہو جائے، ظلم و زیادتی کی روش ترک نہیں کرنی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved