تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     30-07-2020

نالائق اپوزیشن!!

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف سے آل پارٹیز کانفرنس اور اپوزیشن کے آئندہ کے لئے مشترکہ لائحہ عمل کے سلسلے میں ملاقات کی۔ اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری اور میاں شہباز شریف کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا: کورونا کی وجہ سے شہباز شریف سے براہ راست ملاقات نہیں ہو سکی تھی؛ تاہم فون پر ہم مسلسل رابطے میں تھے‘ اب شہباز شریف تندرست ہیں اور حکومت مخالف تحریک کی انقلابی قیادت کے لئے تیار ہیں۔ اس کے جواب میں شہباز شریف نے مسکراتے ہوئے بلاول کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا: یہ جو جواں کاندھے ہیں میں یہ ذمہ داری ان کو دوں گا۔ 
2018 کے انتخابات کو دو سال بیت چکے اور وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کی حکومت کے دو سال مکمل ہونے کو ہیں۔ میں ان دو سالوں میں حکومت اور اپوزیشن کی کارکردگی سے متعلق سوچنے بیٹھاکہ پاکستانی عوام نے ان دو سالوں میں ''کیا کھویا کیا پایا؟‘‘ ملکی معیشت کی زبوں حالی، ترقی کا گرتا گراف، اب تک کا ناکام اور غیر شفاف احتساب، اداروں کی گرتی کارکردگی جیسے کئی موضوعات ذہن میں کلبلا رہے۔ پھر کئی بار مسند اقتدار کے مزے لوٹنے والی اپوزیشن کا خیال ذہن میں بجلی کی طرح کوندا کہ اس نے ان دو برسوں میں کیا کارکردگی دکھائی۔ کچھ دکھائی دیا اور نہ ہی سنائی دیا ماسوائے نشستند‘ گفتند، برخاستند کے۔ جمہوری طرز حکومت میں اپوزیشن کا بنیادی مقصد عوامی مفادات کا آئینی تحفظ یقینی بنانے کیلئے حکومتی کارکردگی پر گہری نظر کے ساتھ ساتھ اس کے غیرقانونی، غیرضروری اور غیر مناسب کاموں پر کڑی تنقید کرنا ہوتا ہے۔ اگر حکومت عوامی مفادات سے متعلق قانون سازی میں کوتاہی برتے تو اس طرف توجہ دلانا بھی اپوزیشن کاکام ہے۔ آج کے دورِ جدید اور میڈیا پلیٹ فارمز کی موجودگی میں اپوزیشن کیلئے یہ سب کام بہت آسان ہو گیا ہے‘ لیکن موجودہ اپوزیشن جو کہ بزعم خود نہایت ''تجربہ کار اور باصلاحیت ترین‘‘ افراد پر مشتمل ہے‘ خاموش نظر آتی ہے اور خود انہی کے بقول ان کے ادوار میں جو دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں وہ اب بند ہو گئی ہیں۔ 
بطور سیاسیات کے ایک طالب علم مجھے لگتا ہے جیسے موجودہ اپوزیشن حکومت کے خلاف نہیں بلکہ خود اپنی ہی صفوں میں موجود دیگر پارٹیوں کے خلاف صف آرا ہے۔ یوں اگر یہ کہا جائے کہ اپوزیشن، حکومت سے زیادہ اپوزیشن کے ہی خلاف ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اگر ہم اپوزیشن کی دوبڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے حالیہ لائحہ عمل کا جائزہ لیں تو مسلم لیگ ن کے صدرکی بظاہر خاموشی کے تناظر میں پیپلزپارٹی کے حلقے یہ تاثر دینے کی بھرپورکوشش کررہے ہیں کہ اس وقت اصل اپوزیشن لیڈر بلاول بھٹو ہیں، جبکہ مسلم لیگ ن اس وقت بغیر لیڈرز کی جماعت ہے اور اپوزیشن کرنے کے قابل نہیں رہی۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا یہ خیال ہے کہ شہباز شریف اس بار علاج کیلئے برطانیہ جائیں تو بلاول بھٹو زرداری پوری طرح سے اپوزیشن لیڈر کا رول سنبھال لیں۔ 
دوسری طرف اگر ہم مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا جائزہ لیں تو میاں شہباز شریف کی حکمت عملی یہ ہے کہ بظاہر خاموش بیٹھے ہوئے وہ اپنی تمام ترتوجہ طاقتور حلقوں کے ساتھ اپنے معاملات بہتر بنانے پر مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ وہ حکمرانوں کو ایسی بند گلی میں دھکیلنا چاہتے ہیں جہاں ان کے سوا کوئی دوسرا آپشن باقی نہ رہے۔ میاں شہباز شریف اسی لئے مزاحمتی سیاست سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ ویسے بھی مسلم لیگ ن کے ووٹر اور سپورٹر کبھی بھی سڑکوں پر آ کر سیاست کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نون لیگ مزاحمتی سیاست کرنے والی جماعت ہی نہیں ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بظاہر تو ایک پیج پر ہونے کا تاثر دے رہی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگانے سے بھی گریزاں ہیں، حکومت پر تنقید اور آئندہ لائحہ عمل کے حوالے سے مشترکہ پریس کانفرنسیں بھی کی جارہی ہیں لیکن اندر کھاتے کہیں اپوزیشن لیڈر کی سیٹ کے اوپر قبضے کی جنگ بھی جاری ہے۔ بنیادی طور پر دونوں ایک دوسرے کی مخالف جماعتیں ہیں۔ 2008ء سے 2013ء تک جو رویہ نون لیگ نے پیپلز پارٹی سے متعلق روا رکھا اور میاں شہباز شریف جو بیانات دیا کرتے تھے اور جس طرح یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا گیا‘ یہ سارے کریڈٹ مسلم لیگ ن لیتی رہی ہے۔ اسی طرح سے بلاول بھٹو زرداری اپنی تقریروں میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف پر جو تیر برساتے رہے‘ وہ بھی سب کو یاد ہیں۔
دوسری طرف حکومت بھی اپوزیشن کو مزید دباؤ میں لانے کیلئے منی لانڈرنگ اور دیگر معاملات پر قانون سازی کرنے جارہی ہے۔ نیب کو مضبوط اور طاقتور بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور عدالت اس سارے عمل کی نگرانی کرے گی۔ گمان ہے کہ آنے والے دنوں میں ایف آئی اے کو بھی مزید اختیارات دیئے جائیں گے۔ ایسی صورت میں بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر اپنے اور اپنے خاندان کے لیے مزید مشکلات سے بچنا چاہتے ہیں اور ان کی خاموشی کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ نواز شریف ملک سے باہر جا چکے ہیں۔ وہ علاج کے لیے گئے تھے لیکن وہ علاج تاحال شروع نہیں ہو سکا۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز بھی ضمانت پر ہیں اور اس وقت جاتی امرا میں ایک خاموش زندگی گزار رہی ہیں۔ 
مسلم لیگ نون آج بھی پنجاب کی سب سے بڑی جماعت ہے اور اگر الیکشن کروائیں تو وہ پورے پنجاب سے سویپ کر جائے گی۔ اس کی بڑی وجہ خود تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے جو وعدے کیے تھے جو دعوے کیے تھے وہ ان کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور دو برسوں میں وہ کوئی ایسی حکمت عملی عوام کے سامنے نہیں لا سکے جس کو سنگ میل قرار دے سکیں۔ عمران خان ابھی تک عوام کو کوئی ریلیف بھی نہیں دے سکے، دو سال پہلے عوام نواز شریف سے جتنا ناراض تھے اس سے کہیں زیادہ اب وہ عمران خان صاحب سے ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پڑھے لکھے نوجوان ہیں‘ وہ شاید کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں لیکن ان کے اوپر ایک بڑا بوجھ ان کے والد آصف علی زرداری اور ان کی پھوپھو کا ہے۔ خود کو ان دونوں کی چھاپ سے الگ کرنے تک بلاول بھٹو کے لیے سیاسی اڑان بھرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ 12 سال سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتے ہوئے کراچی کے جو حالات ہو چکے ہیں، اندرون سندھ گورننس کے جو مناظر ہیں اس پر عدالت نے کیا کیا ریمارکس نہیں دیئے۔ پیپلز پارٹی کو ان تمام معاملات کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے یہ سب بھی اب ریکارڈ کا حصہ ہے۔ کراچی کا مینڈیٹ تقسیم ہو چکا۔ اس وقت تحریک انصاف، ایم کیو ایم، پاک سرزمین پارٹی اور دیگر اتحاد سندھ میں پیپلزپارٹی کا مینڈیٹ تقسیم کرتے نظر آرہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لئے اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کو پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں راستہ نہیں مل رہا۔ یہ صورت حال غماز ہے کہ پیپلز پارٹی اس وقت سکڑ رہی ہے۔ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ یہ سیاسی پارٹی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ بلاول بھٹو کو 4 مرتبہ لانچ کیا گیا‘ لیکن پھر بھی وہ پنجاب میں اپنے قدم جمانا تو دور کی بات ہے پوری طرح سے زمین پر پیر بھی نہیں لگا سکے۔ ایسے میں اس صورتحال کا فائدہ صرف اور صرف تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان کو پہنچ رہا ہے۔ حقیقی اپوزیشن موجود ہی نہیں ہے۔ اپوزیشن کی اس سے زیادہ نالائقی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ موجود تو ہو لیکن اس کا وجود ہی نہ ہو!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved