تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     30-07-2020

سرخیاں، متن، ’’سب رنگ کہانیاں‘‘ فکاہات اور صابر رضوی

عمران نیازی اور پاکستان اکٹھے نہیں چل سکتے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عمران نیازی اور پاکستان اکٹھے نہیں چل سکتے‘‘ اور یہ بات ہم پچھلے ڈیڑھ سال سے کہہ رہے ہیں لیکن پھر بھی دونوں ایک دوسرے کی بغل میں ہاتھ ڈالے اکٹھے چل رہے ہیں جبکہ اب تو کورونا کا تقاضا بھی یہ ہے کہ دونوں آپس میں کم از کم چھ فٹ کا فاصلہ ضرور رکھیں ۔ ادھر ہمارا تو سارا وقت مقدمے بھگتنے ہی میں لگ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم اے پی سی میں مشغول ہو گئے ہیں اور بڑی مشکل سے بلاول کو بھی تیار کیا ہے بشرطیکہ وہ پھر نہ مُکر جائیں کیونکہ ہر بار انہیں کوئی نہ کوئی ضروری کام یاد آ جاتا ہے، ماسوائے مولانا کے جنہیں لگتا ہے کہ اور کوئی کام ہی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اے پی سی کیلئے مشاورت کے بعد میڈیا سے ملاقات کر رہے تھے۔
اپوزیشن کی بلیک میلنگ میں آنے سے انکار کر دیا: شہزاد اکبر
وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کی بلیک میلنگ میں آنے سے انکار کر دیاہے‘‘ کیونکہ ہمارے بعض ساتھی جو ہمیں بلیک میل کر رہے ہیں، ہم انہیں بھگتانے میں مصروف ہیں جن میں ہمارے اتحادی بھی شامل ہیں چنانچہ ان سے فارغ ہوئے تو اپوزیشن کی بلیک میلنگ کے بارے کوئی حتمی فیصلہ کریں گے اور یہ قدرتی بات بھی ہے کہ بلیک میل حکومت ہی کو کیا جا سکتا ہے، اپوزیشن کے تو پلّے ہی کچھ نہیں ہے البتہ انہیں بلیک لسٹ ضرور کیا جا سکتا ہے۔ سو اس کام میں ہم لگے ہوئے بھی ہیں اور یہ لسٹیں متعلقہ ادارے کو فراہم کرتے رہتے ہیں تا کہ فراموش شدہ فائلیں بھی نکالی جائیں تا کہ انصاف کا بول بالا اور دشمن کا منہ کالا ہو سکے، وغیرہ وغیرہ۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
ڈیڈ لاک ختم کرنے کی چابی اپوزیشن کے پاس ہے: علی محمد خان
وزیر برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ ''ڈیڈ لاک ختم کرنے کی چابی اپوزیشن کے پاس ہے‘‘ جو غالباً اس نے کسی کنویں میں پھینک دی ہے اس لیے ہم ماسٹر کی بنوانے کی کوشش کر رہے ہیں اگرچہ یہ ڈیڈ لاک ہمیں تو سوٹ کرتا ہے کہ اگر یہ مستقل طور پر قائم رہا تو اسی دوران ہم اپنی مدت پوری کر لیں گے ورنہ اور تو کوئی صورت نظر نہیں آتی البتہ اگر اپوزیشن اے پی سی کے چکروں میں پڑ جاتی ہے تو اس میں بھی ہمارا ہی فائدہ ہے کیونکہ اول تو اس کا کوئی نتیجہ ہی نہیں نکلتا اور اگر نکلا بھی تو دو چار جلوس نکال کر یہ لوگ حسبِ معمول جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے اسی لیے راوی ہمارے لیے چین ہی چین لکھتا ہے اور راوی سے بھی ہماری درخواست ہے کہ اسی کارِ خیر میں لگا رہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
وزیراعظم عمران خان پاکستان کو بدل رہے ہیں: شہباز گل
وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم عمران خان پاکستان کو بدل رہے ہیں‘‘ کیونکہ ہر روز ایک بدلا ہوا پاکستان نظر آتا ہے مثلاً کورونا کی وجہ سے اموات ہر روزکم ہوتی جا رہی ہیں نیز صحت یاب ہونے والوں میں بھی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اور اسی طرح نئے مریضوں کی تعداد میں بھی ہر روز فرق ہوتا ہے، اس کے علاوہ آٹے اور چینی کی قیمتیں بھی ہر روز تبدیل ہوتی رہتی ہیں بلکہ بعض اوقات تو یہ دونوں چیزیں ایک آدھ دن کے لیے مارکیٹ سے غائب بھی رہتی ہیں، علاوہ ازیں افسروں کی تبدیلی بھی ہر روز کا معاملہ ہے جبکہ اس کے علاوہ بھی کئی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں جن کا بیان ضروری نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
سب رنگ کہانیاں
یہ سمندر پار سے شاہکار افسانوں کے متراجم ہیں جو مشہورِ زمانہ یادگار رسالے ''سب رنگ‘‘ میں شائع ہوتے رہے ہیں اور جسے اس کے ایڈیٹر شکیل عادل زادہ کا نگار خانہ قرار دیا گیا۔ اسے بک کارنر جہلم نے شائع کیا ہے اور جس کے مرتب حسن رضا گوندل ہیں۔ انتساب آشفتگانِ سب رنگ کے نام ہے۔ پسِ سرورق اور اندرون سرورق رائے دینے والوں میں امجد اسلام امجد، اشرف شاد، جاوید چودھری، رئوف کلاسرا، زاہدہ حنا، محمد الیاس، عرفان جاوید، انور خواجہ اور محمد حمید شاہد شامل ہیں۔ اشرف شاد کے مطابق سب رنگ ہمارے افسانوی ادب کی تاریخ میں ایک عہد کا نام ہے۔تخلیقی فکشن ہو، عالمی ادب سے مستعار لیے گئے افسانے یا قسط وار کہانیاں‘ سب رنگ کا انتخاب حرفِ آخر تھا جس نے افسانوی ادب پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد کے ذوق کی تربیت کی۔ سب رنگ کی کہانیوں کی کلیات ایک اہم ادبی ورثے کو محفوظ کرنے کی قابلِ قدر کوشش ہے۔
معروف بھارتی شاعر گلزار کا ابتدا میں ہدیۂ تبریک اس طرح سے ہے کہ ''شکیل عادل زادہ ہمارے ملّاح ہیں، ہمارے ناخدا ہیں۔ ہمارا سفینۂ ادب ان کے حوالے۔ یہ ادب سمندر ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘‘، نہایت عمدہ گیٹ اَپ میں چھپی یہ کتاب فکشن کے قارئین کے لیے ایک انمول تحفے سے کم نہیں ہے۔
ملکیت
ایک صاحب ٹرین پر سوار کہیں جا رہے تھے‘ سامنے والی نشست پر ایک انگریز بیٹھا اخبار پڑھنے میں مصروف تھا‘ اچانک ان صاحب کی نظر پڑی تو ایک سانپ ان کے ایک طرف بیٹھا تھا۔ انہوں نے پریشان ہو کر سانپ، سانپ کا شور مچایا تو انگریز نے اخبار عینک سے ذرا نیچے سرکایا اور بولا: یہ میرا نہیں ہے!‘‘ اور دوبارہ اخبار پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔
اطمینان
ٹرین میں اس قدر رش تھا کہ ایک مسافر فرش پر ہی لیٹا ہوا تھا کہ ایک دوسرے مسافر نے ایک بڑا سا بکس اس کے اوپر برتھ پر لا رکھا۔ فرش پر لیٹے شخص نے پریشان ہو کر کہا: بھائی صاحب، ٹرین کے چلنے اور رکنے میں دھچکے لگنے سے یہ گر سکتا ہے! اطمینان رکھیں، اس میں ٹوٹنے والی کوئی چیز نہیں ہے! اس نے جواب دیا
اور‘ اب اوکاڑہ سے صابر رضوی کی یہ نظم:
اے خدا اس گھڑی کون سمجھے
کہ برگد کے بوڑھے درختوں کی لاچاریاں
جب پہنچتی ہیں پنگھٹ پہ پچھلے پہر
پانی بھرنے کو گائوں کی پنہاریاں
یہ جو پگڈنڈیاں ہیں بدل جائیں گی
دیکھتے دیکھتے سرمئی روڈ میں۔۔۔۔
میرے گائوں کے بچوں کے سپنوں کو
لے کر چلیں گی یہاں اجنبی لاریاں
سانس روکے ہوئے آئنے کی طرح
روبرو دیکھنا باعثِ رشک ہے ‘ ہاں
مگر وصل کے کیف و کم کو سمجھنے
میں پھر بھی رہیں لاکھ دشواریاں
میری بستی کے باہر لگی چھتریوں پر
بدیشی کبوتر اترنے لگے۔۔۔۔ چاندنی
آنگنوں میں سیہ ہو گئی اور
بدلنے لگیں سوگ کی باریاں
شام کے جنگوں میں دیا کیا جلا
کچکچانے لگے دانت
چمگادڑیں۔۔۔۔جن درختوں نے دی
روشنی کو پنہ‘ اُن پہ اک ایک
کر کے چلیں آریاں
آج کا مقطع
پکڑ رکھے ہیں جو اس نے ہمارے پائوں ظفرؔ
کسے خبر ہے کہ یہ رہگزار ہے ‘ کیا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved