تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     30-07-2020

عرفات میں وقوف

8 ذی الحجہ کو نمازِ ظہرکے وقت منیٰ میں داخل ہونے سے لے کر 9 ذی الحجہ کی صبح نمازِ فجر تک 5 نمازیں منیٰ میں ادا کرنا مسنون ہے۔ جب 9 ذی الحجہ کو سورج طلوع ہو جائے، تو اس کے بعد تمام حاجیوں کو میدانِ عرفات کا قصد کرنا چاہیے۔ میدانِ عرفات کی طرف جاتے ہوئے بلند آواز سے تلبیہ یا تکبیرات کا ورد کرنا چاہے۔ مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ منیٰ سے عرفات کے لیے نکلے، ہم میں سے کوئی تلبیہ کہہ رہا تھا اور کوئی تکبیر۔
منیٰ سے میدانِ عرفات کا قصد کرتے ہوئے اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ نبی کریمﷺ زوال آفتاب تک وادیٔ نمرہ میں رُکے تھے اور خطبہ دینے کے بعد آپﷺ ظہر اور عصرکی نماز ادا کر کے میدانِ عرفات میں داخل ہوئے تھے۔
صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ حجۃ الوداع والی حدیث میں فرماتے ہیں: ''پھر رسول اللہﷺ (منیٰ سے عرفات کی سمت چلے تو قریش کاگمان تھاکہ نبی کریمﷺ مزدلفہ ہی قیام فرمائیں گے جیسا کہ قریش زمانۂ جاہلیت میں کیا کرتے تھے) لیکن آپﷺ آگے تشریف لے گئے یہاں تک کہ عرفات میں پہنچ گئے جہاں وادیٔ نمرہ میں آپ کے لیے خیمہ لگایا گیا تھا۔ آپﷺ نے وہاں قیام فرمایا۔ جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے اپنی اونٹنی قصویٰ کو تیارکرنے کا حکم دیا۔ آپﷺ اس پر سوار ہوکروادیٔ نمرہ کے بیچ میں تشریف لائے۔ وہاں آپﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا‘‘۔
نبی کریمﷺ کا یہ خطبہ‘ خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے معروف ہے۔ اس خطبہ میں آپ نے دینی اور دنیاوی اعتبار سے اپنی امت کی رہنمائی کے لیے بہت سے اہم ارشادات فرمائے۔ آپ نے اپنی امت کو یہ پیغام دیا کہ میں تم میں دوچیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں‘ تم جب تک ان کو تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہو سکتے؛ ایک اللہ کی کتاب، دوسری میری سنت ہے۔ آپﷺ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت نہیں مگر تقویٰ کے ساتھ۔ آپﷺ نے جائز اور معروف کاموں میں حکمرانوں کی تابعداری کا حکم دیا‘ چاہے حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ آپﷺ نے اس موقع پر عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی بھی تلقین فرمائی، آپﷺ نے اس موقع پر سودی نظام کے کلی خاتمے کا اعلان کیا اور جاہلیت کی قتل و غارت گری کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپﷺ نے مسلمان کے خون کو انتہائی مقدس قرار دیا اور کسی بھی طور اس کی حرمت کی پامالی کی اجازت نہ دی۔
پھر اذان اور اقامت ہوئی، آپﷺ نے ظہرکی نماز پڑھائی، دوبارہ اقامت ہوئی۔ آپﷺ نے عصرکی نماز پڑھائی۔ ان دونوں نمازوں کے درمیان آپﷺ نے کوئی نماز ادا نہیں کی، پھر آپﷺ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور عرفات میں کھڑے ہونے کی جگہ تشریف لائے۔ حج کے خطبہ کو نہایت توجہ کے ساتھ سننا چاہیے لیکن اگر ہجوم کی وجہ سے خطبہ حج نہ سنا جا سکے تو خاموشی کے ساتھ خطبہ کی طرف متوجہ رہنا بھی کفایت کرے گا۔ اگرچہ میدانِ عرفات میں ظہر اور عصرکی نمازکی ادائیگی کے بعد داخل ہونا مسنون اور افضل عمل ہے لیکن اگر رش اور مجبوری کے سبب کوئی شخص تاخیر سے میدانِ عرفات میں داخل ہو تو اس کاحج ادا ہو جائے گا۔
سنن نسائی میں حضرت عبدالرحمن بن یعمرؓ سے روایت نقل کی گئی ہے، آپؓ کہتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺ کے پاس تھا کہ کچھ لوگ آئے اور حج کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: حج عرفات میں ٹھہرنے کا نام ہے جو شخص مزدلفہ کی رات یعنی 9اور 10ذی الحج کی درمیانی رات طلوع فجر سے پہلے عرفات میں پہنچ جائے اس کاحج ادا ہو جائے گا۔
نمازِ ظہر اور عصرکی ادائیگی کے بعد جبل رحمت کے قریب آنا چاہیے‘ اگر جگہ نہ ملے تو میدانِ عرفات میں کسی بھی جگہ وقوف (رُکنا‘ قیام کرنا) کرنا درست اور جائز ہے۔
صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں نے یہاں قربانی کی ہے اور منیٰ کا میدان سارے کا سارا قربانی کی جگہ ہے لہٰذا تم لوگ اپنی قیام گاہوں پر قربانی کر لو اور میں نے یہاں پر وقف کیا اور میدانِ عرفات سارے کا سارا وقوف کی جگہ ہے۔ میدان عرفات میں قبلہ رُو ہو کر کھڑے ہونا سنت ہے۔ 
مسلم شریف میں حضرت جابر بن عبداللہؓ حجۃ الوداع والی حدیث میں روایت فرماتے ہیں: نبی کریمﷺ قبلہ رو ہوئے اور آپﷺ نے غروبِ آفتاب تک وقوف فرمایا۔ میدانِ عرفات میں حاجی کو کثرت سے دعا مانگنی چاہیے۔ دعا کے لیے ہاتھوں کو اٹھانا بھی سنت ہے۔ 
سنن نسائی میں حدیث ہے: حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ میں عرفات میں نبی کریمﷺ کے پیچھے تھا۔ آپﷺ نے دعا مانگنے کے لیے دونوں ہاتھ اٹھا رکھے تھے۔ اسی دوران آپ کی اونٹنی کی نکیل آپﷺ کے دست مبارک سے چھوٹ گئی تو آپﷺ نے ایک ہاتھ سے اس کی نکیل تھام رکھی تھی اور دوسرا ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے رکھا۔ وقوفِ عرفات کے دوران حاجیوں کو اس بات کی تحقیق بھی کر لینی چاہے کہ وہ میدانِ عرفات میں قیام پذیر ہوں۔ اگر وہ عرفات کے میدان کے بجائے وادیٔ نمرہ میں ہی ٹکے رہتے ہیں تو اس سے وقوفِ عرفات کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔
امام طحاویؒ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: میدانِ عرفات سارے کا سارا موقف ہے لیکن وادی عرنہ یعنی نمرہ سے بچو اور مزدلفہ سارے کا سارا موقف ہے لیکن وادیٔ محسر سے بچو اور منیٰ سارے کا سارا قربان گاہ ہے۔ 
میدانِ عرفات میں اگرچہ بہت سی دعائیں کی جاتی ہیں لیکن میدانِ عرفات کی بہترین دعا یہ ہے ''لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیئٍ قدیر‘‘
رسول اللہﷺ نے اس دعا کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ دعا یوم عرفہ کی بہترین دعا ہے اور یہ وہ بہترین کلمات ہیں جو نبی کریمﷺ اور آپﷺ سے پہلے آنے والے انبیاء کرام نے کہے تھے۔ دعا کا ترجمہ کچھ یوں ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ وہ اکیلا ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں‘ بادشاہت اور تعریف اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
یوم عرفہ آگ سے برأت کا دن ہے اور اللہ تعالیٰ اس دن کثیر تعداد میں اپنے بندوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتے ہیں۔ مسلم شریف میں روایت ہے‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ عرفہ کے علاوہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کثرت سے بندوں کو آگ سے آزاد کرے۔ اس روز اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے بہت قریب ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے ان کی وجہ سے فخر کرتا ہے اور فرشتوں سے پوچھتا ہے ''(ذرا بتائو تو) یہ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘
وقوفِ عرفات کا دن حاجیوں کے لیے تو روزے کا دن نہیں ہوتا؛ تاہم عام مسلمانوں کواس دن روزہ رکھنے کا بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ گزشتہ ایک برس اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔
عرفات میں وقوف کے دوران جب سورج ڈوب جاتا ہے تو مغرب کی نماز کی ادائیگی کے بجائے عرفات سے کوچ کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حج کا ایک بڑا درس اتباع رسول اللہﷺ ہے۔ رسول اللہﷺ عام ایام میں سورج ڈوبنے پر نمازِ مغرب ادا کرتے تھے‘ اس لیے مسلمان بھی سورج ڈوبنے پر مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں لیکن میدانِ عرفا ت میں آپﷺ نے سورج ڈوبنے پر مغرب کی نماز ادا نہ کی‘ اس لیے مسلمان بھی آپﷺ کی سنت کی اتباع کرتے ہوئے سورج ڈوبنے پر مغرب کی نماز ادا کرنے کے بجائے مزدلفہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔
مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نماز یں ادا کرنا چاہئیں۔ نبی کریمﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز ادا فرمائی اور طلوعِ فجر تک آرام فرمایا۔ جب صبح نمودار ہوئی تو آپﷺ نے اذان اور اقامت کے بعد فجرکی نماز ادا فرمائی‘ پھر اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہوکر مشعر الحرام تک تشریف لائے اور قبلہ رخ ہوکر دعائیں مانگیں‘ تکبیر وتہلیل کی اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت بیان فرمائی حتیٰ کہ صبح روشن ہوگئی۔ پھر آپﷺ سورج طلوع ہونے سے پہلے منیٰ کی طرف روانہ ہوگئے۔
خواتین، بچوں اور بوڑھے افراد کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ وقت سے پہلے بھی مزدلفہ سے کوچ کر سکتے ہیں۔ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بھاری بھرکم خاتون تھیں۔ انہوں نے رسول اللہﷺ سے رات کے وقت مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہونے کی اجازت چاہی تو نبی کریمﷺ نے ان کو اجازت دے دی۔ رسول اللہﷺ مزدلفہ سے منیٰ کی طرف آ تے ہوئے بڑے سکون اور وقار سے چلے اور لوگوں کو بھی سکون سے چلنے کا حکم دیا، تاہم آپﷺ وادیٔ محسر سے تیزی کے ساتھ گزرے، وادی محسر مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان میں وہ وادی ہے جہاں اصحابِ فیل پر عذاب نازل ہوا تھا۔ اس لیے آپﷺ نے وہاں سے لوگوں کو جلد گزرنے کا حکم دیا۔ مزدلفہ سے منیٰ کی طرف آتے ہوئے تلبیہ کو جاری رکھنا چاہیے اس لیے کہ نبی کریمﷺ رمی کرنے تک بلند آواز سے تلبیہ پڑھتے رہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved