کراچی کیسے تباہ ہوا اور لیاری میں گینگ وارز کا سلسلہ کب شروع ہوا‘ اس حوالے سے جو معلومات میں نے اکٹھی کی ہیں‘ قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔
لیاری میں جنگ و جدل اور جرائم کی بارشوں کا آغاز کالا ناگ اور رحمان بابا المعروف رحمان ڈکیت کے باپ‘ داد محمد دادل اور چچا شیر محمد عرف شیرو نے منشیات فروشی اور جوئے کے اڈوں سے کیا۔ دادل اور شیرو سے پہلے کالا ناگ گینگ اکیلا ہی یہ دھندا کر تا تھا۔ اسے لیاری کے اقتدار کی جنگ کہہ لیں یا تباہی کا آغاز‘ یہ انہی دو گروپوں سے شروع ہوتا ہے جن میں دھندے کی وجہ سے مار کٹائی شروع ہو گئی جس نے آگے چل کر مافیا کے دو متحارب گروپوں کی شکل اختیار کر لی۔دادل اور شیرو نے منشیات کے ساتھ ساتھ اس وقت کراچی کے سینمائوں کے ٹکٹ فروخت کرنے کا مشہور اور ''رائج الوقت‘‘ منافع بخش دھندا بھی سنبھال لیا اس طرح دادل اور شیرو کے لیاری سے باہر‘ کراچی شہر کی پولیس سے بھی ''کاروباری تعلقات‘‘ استوار ہو گئے جسے دادل نے کالا ناگ گینگ کے خلاف استعمال میں لانا شروع کر دیا۔ اسی گروپ کی مخبری پر پولیس جب کالا ناگ کو گرفتار کرنے کیلئے ا س کے ٹھکانے پر پہنچی تووہ گھر سے چھلانگ لگا کر بھاگنے کی کوشش میں گر کر ہلاک ہو گیا جس کے بعد پولیس کی سر پرستی سے لیاری میں دادل اور شیرو کی بلا شرکت غیرے حکمرانی قائم ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی کا امن تباہ کرنے میں سیاسی جماعتوں نے کم اور کراچی پولیس نے زیادہ کردار ادا کیا ہے۔ 1960ء کی دہائی کے آغاز میں ہی کراچی صنعتی مرکز بننا شروع ہوا تو پاکستان بھر سے روزگار کی تلاش میں آنے والوں کا تانتا بندھ گیا‘ اسی دوران دادل اور شیرو کی پرچی سے لیاری میں سرکاری زمینوں پر قبضوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا جہاں جس کا جی چاہا ا س نے اپنی مرضی سے گھروں اور دُکانوں کی تعمیر شروع کر دی جس نے ہر طرف تنگ اور ٹیڑھی میڑھی سڑکوں اور گلیوں کے جال بکھیر دیے۔ یہی وجہ ہے کہ لیاری کو صاف ستھرا رکھنا بھی چاہیں تو ایک حد سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا ۔ کالا ناگ کی ہلاکت کے چند ماہ بعد اس کے بیٹے اﷲ بخش نے اپنے باپ کے منتشر گینگ کو اکٹھا کرنا شروع کیا اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ کالا ناگ 2 کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اس سے کوئی ایک برس پیشتر حاجی لال محمد عرف لالو اور اقبال با بو ڈکیت کا نام بھی لیاری کے کچھ حصوں سے ابھر کر سامنے آ چکا تھااوراﷲ بخش عرف کالاناگ2 نے اقبال با بو گینگ سے اتحاد کر لیا۔
جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہو نے کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو لیاری کے تمام گینگز نے بھی سیاسی جماعتوں کی چھتری تلاش کرنا شروع کر دی اور آہستہ آہستہ تمام گینگز مختلف سیا سی جماعتوں کی یا سرپرستی میں چلے گئے یا سیاسی رہنمائوں کا نام استعمال کرنے لگے۔کہا جاتا ہے کہ پی پی پی کے پانچ سالہ دور میں یہ گینگ لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو کر سیا ست کی ضرورت بن گئے جس نے انہیں پہلے سے بھی طاقتور بنانے کے علا وہ کراچی ا ور سندھ ہی نہیں بلکہ بلوچستان ، پنجاب اور سرحد (خیبر پختونخوا)میں بھی پاپولر بنا دیا۔ یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ بڑے بڑے کاروباری لوگ کراچی میں کسی بھی کاروبار یا بزنس کے لئے آنے سے پہلے ان سے رابطے استوار کرتے۔
جنرل ضیا کا دور شروع ہوتے ہی کچھ عرصے کے لئے یہ تمام گینگ زیر زمین چلے گئے لیکن پھر انہوں نے آہستہ آہستہ سر اٹھانا شروع کر دیا اور جب افغانستان پہ سوویت یونین حملہ آور ہوا اور افغان جنگ کا آغاز ہوا تو ان سب کی چاندی ہو گئی اور پاکستان سمیت کراچی میں اسلحہ ، منشیات اور سمگلنگ کو عروج حاصل ہونے لگا۔ جب جنرل ضیا ء کے خلاف ایم آر ڈی کے نام سے سندھ میں خوفناک تحریک شروع ہو ئی تو اس سے پیدا ہونے والی افرا تفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اغوا برائے تاوان کا ایسا منافع بخش دھندہ وجود میں آیا کہ پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کے بھی وارے نیارے ہو گئے۔ لیاری سے ابھرنے والے دادل شیرو گینگ اور لالو اور با بو گینگ زیا دہ سے زیا دہ علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کے لئے سندھ کی کچھ سیا سی شخصیات کے کہنے پر ان کے مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے لئے یا خاموش کرانے کے لیے ایک دوسرے کے مددگار بننا شروع ہو گئے۔ اسی دوران دادل کے بیٹے عبد الرحمن عرف رحمان ڈکیت نے بھی باپ کی سر پرستی میں جرائم کی دنیا میں قدم رکھا، جس نے آتے ہی بڑے بڑے قبضے کر کے اور اہم شخصیات کو نشانہ بناکر اپنے نام کی دھوم مچا دی۔ اس دوران کچھ لوگ ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کی چھتری تلے کراچی کی سیاست میں نمودار ہوئے اور وقت کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے دونوں جماعتوں نے الگ سے اپنے گینگ سامنے لانا شروع کر دیے۔ اس کے بعد پھر لسانی بنیادوں اور قومیت کی بنیاد پر وہ مار دھاڑ شروع ہوئی کہ لگتا تھا کہ کراچی نہیں بلکہ ہم بیروت میں بیٹھے ہیں جہاں ہر طرف جلی ہوئی دکانیں اور گھر ہیں۔ چاروں طرف گاڑیاں آگ کے شعلوں کی نذر ہونے لگیں، سڑکیں خون سے رنگین اور سرد خانے لاشو ں سے اَٹ گئے۔ چوری‘ ڈکیتی‘ راہزنی اور اغوا روز کا معمول بن گیا۔ ہر ہاتھ میں دنیا کا جدید ترین اسلحہ دکھائی دینے لگا۔ ایک طرف موت کا سایہ ہر طرف منڈلانے لگا تو زندہ بچ جانے والوں کے لیے بھی بھتے کی صورت میں اپنی بقیہ سانسوں کا تاوان ادا کرنا لازمی قرار پایا ۔
1996ء میں اقبال بابو ڈکیت فالج کا شکار ہو گیا اور اس کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے اسے گرفتار کر لیا تو بابو گینگ کے سرپرست سیاست دانوں اور چند میڈیا پرسنز نے آسمان سر پر اٹھا لیا جس پر پولیس کو دوسرے گروپ کے افراد یعنی رحمان ڈکیت اور حاجی لالو کے بیٹے یاسر عرفات کو بھی گرفتار کرنا پڑا۔ رحمان ڈکیت کے خلاف اس وقت کراچی پولیس میں کل 20 مقدمات درج تھے ان میں سے 19 مقدمات میں اس کی چٹکیاں بجاتے ہوئے ضمانتیں ہو گئیں اور آخری مقدمے میں ضمانت کے لئے پولیس اسے عدالت لے جا رہی تھی کہ وہ پولیس کی حراست سے ''فرار‘‘ ہو گیا۔ اور پھر سب کی آنکھوں کے سامنے اس نے کراچی کے صنعت کاروں، تاجروں، بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اعلیٰ عہدیداروں اور ان کے بچوں کو بھاری تاوان وصول کرنے کے لئے اغوا کرنا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی اس کے دل میں لیاری کا لیڈر بننے کا شوق چرایا‘ جس کی ابتدا کرتے ہوئے اس نے حاجی لالو گینگ کے ساتھ اتحاد کر لیا اور ساتھ ہی لیاری کے غریب لوگوں کی مالی مدد بھی شروع کر دی جس سے وہ لیاری میں ڈکیت کے بجائے ''رحمان بابا‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اب رحمان با با کے دل میں اپنی لیڈری کو چمکانے کیلئے اپنے چچا شیرو سے علیحدہ ہونے کی خواہش مچلنا شروع ہو چکی تھی اور اس کی یہ خواہش اس وقت پوری ہونے کو آئی جب اس نے کراچی کے ایک بڑے اور مشہور صنعت کار کو کھارادر سے تاوان کے لئے اغوا کیا۔ اس پر حاجی لالو نے رحمن سے کہا کہ وہ اس اغوا شدہ میمن سیٹھ کو چھوڑ دے کیونکہ اس کے ساتھ حاجی لالو کا ذاتی اور دیرینہ تعلق ہے‘ اس نے اس میمن سیٹھ کو چھوڑ دیا گیا لیکن کسی نے یہ مخبر ی کر دی کہ لالو نے میمن فیملی سے اس کے عوض کئی کروڑ روپے وصول کیے ہیں جس کا سے رحمن بابا کو بہت دکھ ہوا لیکن مصلحتاً وہ خاموش رہ کر وقت کا انتظار کرنے لگا کیونکہ اب لالو کا بیٹا ''ارشد پپو‘‘ لیاری میں کافی طاقت پکڑ چکا تھا؛ تاہم ان کی آپس میں خاموش رنجشیں بڑھتی رہیں۔ ایک دن لیاری کے مشہور ٹرانسپورٹر ماما فیضو سے ارشد پپو نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ماما فیضوا ور رحمان ڈکیت قریبی رشتہ دار ہیں‘ بھتے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے اغوا کر لیا اور دوسرے ہفتے ماما فیضو کی بری طرح مسخ شدہ خون آلود لاش لیاری نالے کے قریب برآمد ہو گئی اور یہی لاش بعد میں عزیر بلوچ کی شکل میں کراچی اور لیاری میں دہشت کا نشان بن گئی کیونکہ عزیر جان بلوچ اسی ماما فیضو کا بیٹا ہے۔ (جاری)