تحریر : اسد طاہر جپہ تاریخ اشاعت     31-07-2020

میں ناہیں، سب توں

'' مَیں‘‘ کا آغاز اُسی دن ہو گیا تھا جس دن ابلیس نے کہا تھا: ''مَیں آدم سے بہتر ہوں‘‘۔ آج بھی ابلیس اور اُس کے پیروکار 'مَیں‘ کے خوفناک حصار میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں اور اپنی ناک سے آگے کچھ بھی دیکھنے کو تیار نہیں جبکہ اللہ والے ' مَیں‘ کو مار کر 'توں توں‘ کے پرچار میں مصروفِ عمل نظر آتے ہیں۔ ربِ دو جہاں نے اپنی ربوبیت کے سب سے خوبصورت مظہر کے طور پر تخلیقِ انسان کا فیصلہ کیا، مٹی کا ایک ڈھیلا لیا اور اس میں روح پھونک کر ہمارے جدِّ امجد حضرت آدمؑ کو بنایا اور اپنا نائب مقرر کیا۔ پھر تمام ملائکہ کو حکم دیا کہ وہ آدمؑ کو سجدہ کریں۔ سب نے حکم الٰہی کے آگے سرِ تسلیم خم کیا اور اپنی جبین نیاز آدمؑ کے سامنے سجدہ ریز کر دی۔ مگر صرف اِبلیس نے اپنی جھوٹی انا کو فوقیت دی‘ تکبر کیا اور ہمیشہ کے لیے ظالموں میں سے ہو گیا۔
انسان کی تخلیق کا سب سے بڑ امقصد خالقِ کائنات کی حمد و تقدیس بیان کرنا اور احکاماتِ خداوندی کی ترویج و اشاعت ٹھہرا۔ اسی عظیم مقصد کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے ربِ کریم نے متعدد انبیاء کرام مبعوث فرمائے اور انہیں انسان کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنایا۔ خود انسان کا اپنا کچھ نہیں‘ سب اُس وَحدہٗ لاشریک کی رضا اور عطا کا کمال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دینِ حق میں جملہ عبادات کا مرکزی خیال توحید ِالٰہی کا بول بالا کرنا ہے اور ہر عبادت کا واحد مقصد خوشنودیِٔ ربِ دو جہاں کا حصول بتایا گیا ہے۔ پانچوں ارکانِ اسلام (کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج) دراصل اللہ تعالیٰ کی بلاشرکت غیرے خدائی کے اقرار کو ایک مسلمہ حقیقت ثابت کرنے پر مرکوز ہیں۔
کلمہ طیبہ میں اللہ کے سوا کسی کو بھی عبادت کے لائق نہ سمجھنا اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ خاتم النبیین کو اللہ کا رسول ماننے کا واضح پیغام موجود ہے۔ نماز کے لیے تکبیر پڑھتے ہی اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان ہوتا ہے اور ہم دنیا کی ساری مصروفیات سے ہاتھ اُٹھا کر اپنے کانوں کو لگاتے ہیں اور یوں بارگاہِ الٰہی میں اپنی حاضری عمل میں لاتے ہیں۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ میں ہم ذاتِ باری تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں اور اُسی سے مدد مانگ کر صراطِ مستقیم پر چلنے کی آرزو کرتے ہیں، وہ راستہ جس پر اللہ نے اپنے پیاروں کو چلایا نہ کہ ان کو جن پر عذابِ الٰہی نازل ہوا۔ بے شک سورہ الاخلاص خالصتاً توحیدِ الٰہی کا حق ادا کرتی ہے۔ رکوع اور سجود اُسی ذات ِاقدس کی بڑائی اور شان و شوکت تسلیم کرنے پر مہر ثبت کرتے ہیں۔ اسی طرح روزہ بھی ہمیں اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اپنی مرغوب خوراک کو ترک کرنے اور بھوک اور پیاس میں صبر و رضا کا درس دیتا ہے۔ زکوٰۃ اپنے مال کی قربانی دے کر اللہ کی مخلوق پر خرچ کرنے اور بے کس اور بے نوا لوگوں کی معاشی آسودگی اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صاحبِ نصاب کو اپنی املاک کے مطابق ادا کرنا ہوتی ہے۔ ارکانِ اسلام میں سے پانچواں اور آخری رکن بیت اللہ کی حاضری ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے مالی آسودگی اور استطاعت دے رکھی ہو‘ اس پر زندگی میں حج کی ادائیگی فرض ہے۔ احرام سے لے کر قربانی تک جملہ مناسکِ حج اصل میں بارگاہِ الٰہی میں حاضر انسان کی عجز و انکساری کی عملی دلیل بن جاتے ہیں۔ یوں جملہ ارکانِ اسلام اور عبادات کا پورا نصاب اللہ تعالیٰ کی توحید اور کبریائی کے اقرار، اظہار اور پرچار پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب انبیاء، اولیاء، فقہا، صوفیاء اور مجتہدین کی تعلیمات اور کردار میں اپنی اَنا (مَیں) کے بے لگام گھوڑے کو مسلسل عبادت اور بے پناہ ریاضت کے چابک مار کر قابو میں رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ مگر صد افسوس کہ انسان دنیاداری میں بُری طرح الجھ گیا اور احکاماتِ الٰہی سے روگردانی کر کے آخرت بھول بیٹھا۔
انیسویں صدی کے آخر میں صنعتی انقلاب شروع ہوا اور بیسویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے بے پناہ ترقی کی۔ انسان مادہ پرستی اور خودغرضی کی دلدل میں پھنستا چلا گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے مغربی دنیا میں اپنا سکہ جمایا اور پھر پوری عالمی معیشت کو اپنے استحصال کا نشانہ بنایا۔ عالمی مالیاتی اداروں نے ترقی پذیر ملکوں کو قرضوں کی آڑ میں خوب نچوڑا اور یوں دولت محض چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ گئی۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں سوویت یونین اور اُس کے معاشی نظریے کا شیرازہ بکھر گیا تو صرف امریکہ ہی دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ صنعتی ترقی اور مادہ پرستی کی چکا چوند روشنیاں چین، امریکہ، کینیڈا، یورپ، برطانیہ اور آسٹریلیا میں نمایاں طور پر دیکھی جانے لگیں۔ شنگھائی، لندن، پیرس، ٹوکیو اور نیویارک انسانی ترقی کے استعارے ٹھہرے۔ آسمان کو چھو لینے والی عمارات سرمایہ دارانہ نظام کی کامیابی کی دلیل بن گئیں۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ہوائی جہاز، بحری جہاز، موبائل فونز اور سوشل میڈیا نے چند دہائیوں میں ہی پوری دنیا کو ایک گلوبل ویلیج بنا کر رکھ دیا۔ سیر و سیاحت، تعلیم و تربیت اور صنعت و تجارت کے لیے سفر انسان کا معمول بن گیا۔ ہوائی اڈے، ریلوے سٹیشن، بندرگاہیں اور نقل و حمل کے دیگر ذرائع لاکھوں انسانوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر یا دنیا کے ایک سے دوسرے ملک منتقل کرتے نظر آئے۔مال و زر کے اندھا دُھند حصول میں جدید دور کے انسان نے بہت تیزی دکھائی۔ طاقت کا واحد معیار مادی ترقی اور دولت کا ارتکاز ٹھہرا۔ اخلاقیات اور انسانی کردار پسِ پشت ڈال کر انسان محض حرص و ہوس کا شکار نظر آیا۔ انسانی رشتے ناتے اور اخلاقی قدریں ناپید ہونے لگیں۔ صنعتی اور سائنسی ترقی کی دوڑ میں انسانیت خود اپنا وجود کھو بیٹھی۔ ماحولیاتی آلودگی نے فطرت کے حسن کو پامال کیا تو مال و دولت کے ارتکاز نے خوشحالی کے جزیرے بنائے مگر غربت و افلاس کے سمندر نے کروڑوں بے بس و بے کس انسانوں کو نگل لیا۔ انسان اپنی ذہانت، فہم و فراست اور ترقی پر ناز اور مذہب سے دور ہو کر اپنے خالق کے احکامات سے رو گردانی کرنے لگا۔ میں‘ میں کے شور میں توں‘ توں کا ورد کہیں کہیں ہی سنائی دیتا ہے۔
صنعتی ترقی، مادہ پرستی، بے حسی، بے حیائی اور خودغرضی کے اس بے ہنگم انسانی معاشرے کی برق رفتاری نے اکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیاں بھی نگل لیں۔ پھر خالقِ دو جہاں کی ربوبیت جو ش میں آئی اور عالم ِغیب سے ایک غیر مرئی جرثومہ ظہور پذیر ہوا جو سب سے پہلے چین کے علاقے ووہان میں خون کی ہولی کھیلنے لگا تو مادی ترقی میں نِت نئی منازل طے کرتا ہوا چین پریشان نظر آیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ جرثومہ کورونا کے نام سے پوری دنیا کے لیے خوف اور موت کی علامت بن گیا۔ اس خوفناک وبانے محض چند ہفتوں میں دنیا بھر کو اپنے خونی پنجوں میں جکڑ لیا۔ گویا زندگی چلتے چلتے رک گئی۔ ترقی کا پہیہ جمود کا شکار ہوا۔ انسان‘ انسان سے خوف کھانے لگا۔ کاروانِ حیات یکسر رک گیا اور پوری دنیا لاک ڈاؤن کا شکار ہو گئی۔ عالمی معیشت مکمل طور پر مفلوج ہو گئی اور دنیا بھر میں غربت اور بے روزگاری تیزی سے بڑھنے لگی۔گزشتہ سات ماہ میں اس خونی وبا نے ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ انسانوں کو اپنا شکار بنایا اور کم و بیش ساڑھے چھ لاکھ افراد لقمہ اجل بنے۔ موت، خوف، پریشانی اور ہیجان کی اس کیفیت سے انسان لاچار اور مکمل بے بس نظر آیا تو پھر اُسے اپنے خالق و مالک کی یاد آئی۔ اٹلی میں کورونا کے باعث ہلاکتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا تو اٹلی کا وزیراعظم اپنی نمناک آنکھوں کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ لندن، پیرس، نیویارک میں لاشوں کے ڈھیر لگے تو وہاں اذان کی آواز بلند ہوئی۔ انسان کو اپنی خودغرضی اور اَنا پرستی پر شرمندگی ہوئی تو اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور وحدانیت ایک مرتبہ پھر اُجاگر ہوئی۔ اب میں‘ میں کا شور تھم چکا ہے اور توں‘ توں کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ بے شک دو جہانوں کا مالک وہی بزرگ و برتر ہے جس نے یہ کائناتِ لالہ و گُل بنائی۔ انسان کی اپنی حیثیت غلیظ پانی سے زیادہ کچھ نہیں۔ آئیے! کل عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے جانوروں کے ساتھ ساتھ اپنی جھوٹی اَنا کا دُنبہ اور حرص و ہوس کا بکرا بھی ذبح کر ڈالیں، عجز و انکساری کا پیکر بن کر ہم اپنے خالقِ کائنات سے کورونا کی وبا کے خاتمے کی دعا کریں کیونکہ کُن سے فیکون ہونے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ ہم سب کی عافیت کا راز شاہ حسینؒ کے اس شعر میں پِنہاں ہے:
کہے حسین فقیر نمانا ... میں ناہیں‘ سب توں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved