وبا نے اکثر لوگوں کو گھروں میں محبوس کر رکھا ہے۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں‘ جو اپنی اور دوسروں کی زندگی کو قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں‘ احتیاط برتنے کا سلیقہ رکھتے ہیں اور غیر ضروری خطرہ مول لینے کے حق میں نہیں ہیں۔ وبا ہو یا کوئی اور خطرہ لاپروائی برتنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ سب انسان کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟ گزشتہ پانچ ماہ کا ہمارا اور ساری دنیا کا تجربہ یہ ہے کہ جس نے بھی اپنے آپ کو اپنے گھر کے حصار میں محفوظ کرلیا‘ وہ بچا اور وہ جنہوں نے معمولاتِ زندگی میں کوئی تبدیلی نہ کی‘ وہ زیادہ تر وبا کا شکار ہوئے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس جہانِ فانی سے‘ کچھ بہت ہی اذیت ناک مرحلوں سے گزر کر رخصت ہوئے۔ شروع ہی سے طب کے میدان میں اہلِ علم اور ماہرین اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ بچوں‘ بوڑھوں اور وہ جو کسی بیماری کا شکار ہیں‘ ان کو بلا ضرورت باہر نہیں نکلنا چاہئے۔ کچھ نے سنا اور اپنے حق میں اس کی تائید کی‘ اکثر نے ان سنی کر دی۔ ذاتی طور پر انسان جو بھی فیصلہ کرے‘ یہ اس کی صوابدید پر ہے‘ مگر اجتماعی فیصلوں کی ذمہ داری اداروں اور ریاست پر ہوتی ہے۔ لوگوں کو محفوظ رکھنے کی نہ صرف ترغیب و تعلیم دینا ضروری ہے بلکہ وبا ایسے ماحول میں پابندیاں بھی نافذ کرنا ضروری ہوتی ہیں۔ ہم نے کوئی منفرد کام نہیں کیا‘ ساری دنیا نے پابندیاں لگائیں‘ تالا بندی کی‘ سب کچھ بند کر دیا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو محفوظ رکھا جائے اور وبا کو پھیلنے نہ دیا جائے۔ جن ریاستوں کے پاس استعداد تھی‘ چین اس کی واضح مثال ہے‘ انہوں نے وبا پر قابو پا لیا اور جن ممالک کے پاس صلاحیت تو تھی‘ مگر سیاسی ارادہ کمزور تھا‘ وہاں ابھی تک وبا بے قابو نظر آتی ہے۔ موجودہ حالات کسی کیلئے بھی خوش کُن نہیں۔ کسی بھی ملک میں کوئی شہری اپنی فطری آزادیوں پر پابندی گوارا نہیں کرتا۔ باہر نکلنا‘ چلنا پھرنا‘ کام پر‘ دفتر جانا‘ سکول اور جامعات میں تعلیم اور خرید و فروخت کے مراکز میں لوگوں کی آمد و رفت‘ کارخانوں میں پیداوار سب کچھ بند ہے‘ کہیں زیادہ‘ کہیں کم۔ حکومتیں اور عوام‘ دونوں اپنی جگہ بے تاب نظر آتے ہیں کہ تعلیمی ادارے کھلیں۔ بچے گھروں میں رہ کر تنگ آ چکے ہیں۔ ان کی تعلیم کا حرج ہو رہا ہے‘ اور آن لائن تعلیم کے ذرائع ہنگامی حالات میں کام آئے ہیں‘ مگر یہ بالمشافہ تعلیمی نظام کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ چونکہ یہ ناچیز ایک جامعہ میں استاد ہے ‘ تو کچھ مشاہدہ بھی اس بیان میں شامل ہے۔ تعلیمی سال کے دوسرے حصے کے درمیان میں تھے کہ وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میرے نزدیک تعلیمی اداروں کو بند کرنا درست فیصلہ تھا۔ سب نے کہا کہ جامعات‘ کالجوں اور سکولوں میں ہزاروں کی تعداد میں بچے ہیں۔ ہزاروں ہوسٹلوں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ ایک جگہ پڑھنا‘ ایک جگہ کھانا اور محدود جگہ میں اتنے لوگوں کا ملنا جلنا اس نوعیت کی وبا کے پیشِ نظر خطرے سے خالی نہ تھا۔ یہ نہایت ہی خوش آئند بات ہے کہ ساری دنیا نے بڑی سرعت کے ساتھ اور مستعدی سے‘ صرف چند ہفتوں کے اندر تعلیمی سلسلہ بحال کر دیا۔ آن لائن ٹیکنالوجی جو ہم سیمینارز اور فاصلاتی لیکچرز اور میٹنگز کیلئے استعمال کرتے تھے‘ اب نصابوں کا باقی حصہ مکمل کرنے کے لئے استعمال کی ہے۔ واضح رہے کہ نہ اساتذہ اور نہ ہی طلبہ اس نوعیت کی تعلیم کے لئے تیار تھے۔ ان چند ہفتوں میں آن لائن پڑھانے کی کچھ تربیت ہوئی اور دور دراز میں رہنے والے طلبہ کے لئے انٹرنیٹ استعمال کرنے کی سہولتیں بھی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سارا کام آسان نہ تھا‘ ہم سب ذہنی دبائو‘ تھکن اور فکر مندی کا شکار رہے۔ یہ صرف ہمارا مشاہدہ اور تجربہ نہیں‘ بلکہ ساری دنیا میں طلبا اور اساتذہ نے محسوس کیا کہ دن کا زیادہ حصہ آن لائن گزارنا اعصاب شکن ہے۔ کوئی اور چارہ نہ تھا‘ اور کچھ عرصے کے لئے ابھی یہی سلسلہ چلانا پڑے گا۔
معلوم نہیں ہماری حکومتیں کیا فیصلہ کرتی ہیں‘ مگر ابھی تک میری جامعہ نے ستمبر کے پہلے ہفتے سے تعلیمی سال آن لائن شروع کرنے کی تیاری مکمل کرنی ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ ملک میں نجی شعبے میں سکول بھی آن لائن تعلیمی ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔ ایک گھر میں اگر ایک سے زیادہ بچے ہیں تو سب کے لئے علیحدہ علیحدہ کمپیوٹر لازمی ہے۔ ایسے گھرانوں کے لئے فیسوں کے ساتھ ساتھ یہ مالی بوجھ بھی بڑھ گیا ہے۔ یہ استعداد تو صرف ایک اقلیت رکھتی ہے‘ ورنہ پاکستان ہو یا کوئی اور ملک ‘ زیادہ تر کا تعلیمی انحصار سرکاری سکولوں اور جامعات پر ہے۔ کچھ سرکاری جامعات نے بھی اس حوالے سے کچھ تیاری کر رکھی ہے اور ایچ ای سی نے جو وسائل فراہم کر رکھے ہیں ان سے استفادہ کیا ہے اور کر رہی ہیں۔
اس ضمن میں دو مسائل کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ اگر آن لائن رہنا ناگزیر ہے تو اس کے لئے کئی قسم کے وسائل کی ضرورت ہے ۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس سلسلے میں ہمیں کون سی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ لوگوں کا گھروں میں بند رہنا اور لاکھوں طلبہ کی خواہش کہ ان کی تعلیمی سرگرمیاں جاری رہیں‘ یہ دونوں عوامل انٹر نیٹ کی موجود ہ سہولتوں پر دبائو بڑھانے کا باعث بنے ہیں۔ آپ نے بھی محسوس کیا ہو گا کہ استعمال میں بے پناہ اضافے کی نسبت سے کمپنیوں نے اپنی صلاحیت میں خاطرخواہ اضافہ نہیں کیا۔ آئندہ چند ماہ میں جب مزید تعلیمی ادارے آن لائن پڑھائیں گے تو اس حوالے سے دبائو مزید بڑھے گا۔ انٹر نیٹ کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنیوں کے لئے لازمی قرار دیا جائے کہ وہ اپنی صلاحیت اور استعداد میں اضافہ کریں۔ دوسرا مسئلہ دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے طلبہ کا ہے۔ طلبہ کی ایک خاصی بڑی تعداد کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔ ایسے علاقوں میںرہنے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ انہیں انٹر نیٹ تک رسائی اور رفتار کا مسئلہ درپیش ہے۔ مجھے نہیں معلوم حکومت نے اس سلسلے میں کیا تیاری کی ہے۔ انٹرنیٹ کا پھیلائو تو بہت ہے‘ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس سہولت کا معیار ویسا نہیںرہا‘ جیسا پہلے تھا۔ معیار بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ تیسرا مسئلہ اساتذہ کے حوالے سے ہے۔ کسی کو معلوم ہی نہیں ہے کہ آن لائن پڑھانے کے ممکنہ طریقے کیا ہیں۔ اس معاملے میں تربیت کا اہتمام بھی نہیں کیا گیا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ سب جامعات کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ آن لائن ٹیچنگ کیلئے جدید سہولتوں کا اہتمام کر سکیں۔ ایچ ای سی کو اس معاملے پر توجہ دینی چاہئے تاکہ سب کو اس حوالے سے یکساں سہولتیں مل سکیں۔
اساتذہ ہوں یا طلبہ ‘ سب کی ایک ہی خواہش ہے کہ پرندوں کی طرح پر پھڑپھڑائیں اور اپنی اپنی درس گاہوں میں پہنچ جائیں۔ لیکن یہ خواہش کچھ عرصہ ابھی خواہش ہی رہے گی۔ سکولوں اور جامعات کو کھولنے کے لئے پوری دنیا میں غور و فکر بھی ہو رہا ہے اور اس سلسلے میں تدابیر بھی سوچی جا رہی ہیں۔ ہمارے ہاں طبی اور انتظامی ماہرین کی کمی نہیں ہے‘ وہ کوئی نہ کوئی حل اس مسئلے کا نکال ہی لیں گے‘ کہ دنیا سے مختلف کوئی چیز ہم نہیں کر سکتے۔ سب سے پہلے تعلیمی اداروں کے ماحول کو پھر سے ترتیب دینا ہو گا‘ انہیں بہتر بنانا ہو گا۔ صحت اور صفائی کے اصولوں پر عمل درآمد یقینی بنانا ہو گا‘ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی تدابیر کرنا ہوں گی۔ ہوا دار کلاس رومز کا اہتمام کرنا ہو گا اور یہ کاوش کرنا ہو گی کہ کلاسوں کے لئے چھت کے ساتھ یا بغیر چھت کے کھلی جگہوں کا انتخاب کیا جائے۔ سب کو واپس لانا ممکن نہ ہو گا۔ ترجیح دور دراز کے دیہات کے طلبہ کو دینا ہو گی۔ شہروں میں رہنے والے گھروں میں آن لائن کلاسیں لیں گے۔ یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ سکولوں اور جامعات کے طلبہ کو حصوں میں تقسیم کر کے باری باری کلاسوں میں تعلیم دی جائے۔
زندگی‘ سلامتی اور حفاظت سب سے پہلے۔ سیانے ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ زندگی ہے تو سب کچھ ہے۔ سب بہاریں ‘ سب رنگ اور تعلیم یقینا ضروری معاملات ہیں‘ لیکن بچوں کی حفاظت تو اولین فرائض میں سے ہے۔