ناقص پالیسیوں نے ملک کو بحران میں دھکیل دیا: شہباز
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ناقص پالیسیوں نے ملک کو بحران میں دھکیل دیا‘‘ جس کی سب سے روشن مثال ہم ہیں جنہیں طرح طرح کے بحران میں دھکیل دیا گیا ہے اور حکومت محض روپے پیسوں کے لالچ میں ہم پر عرصۂ حیات تنگ کیے ہوئے ہے حالانکہ ہم نے اپنے ادوار میں اس چیز کا کبھی دردِ سر نہیں اٹھایا، حتیٰ کہ کبھی حساب لگانے کی بھی کوشش نہیں کی کہ یہ انبار کس حد تک لگ چکا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر دولت کا ہمیں صحیح اندازہ اور علم ہی نہیں ہوتا تھا کہ کہاں سے اور کس کے ذریعے آ رہی ہے حتیٰ کہ ہماری درویشی کی وجہ سے ڈرائیور اور گھریلو ملازم حضرات بھی کروڑوں کے مالک بن بیٹھے تھے، تاہم نمک حلال ہونے کی وجہ سے وہ روپے ہمارے اکائونٹس میں جمع کروا دیئے جاتے تھے کیونکہ وہ حکومت کی طرح لالچی نہیں تھے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نیب اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''نیب اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘ کیونکہ حکومت جن مقاصد کے تحت حاصل کی جاتی ہے احتسابی ادارہ انہی سے الرجک واقع ہوا ہے، اب آپ خود ہی بتائیے کہ ایک شریف آدمی کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلی میں پہنچتا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ کسی سماج سدھار تنظیم کا رکن ہے اور کروڑوں خرچ کر کے بھی آرام سے گھر بیٹھ رہے جبکہ جمہوریت اور سیاست کو ایک وسیع کاروبار کا درجہ حاصل ہے اور کاروبار میں کروڑوں کی سرمایہ کاری منافع کے لیے کی جاتی ہے، نقصان او رگھاٹے کے لیے نہیں جبکہ ملک عزیز میں آئینی لحاظ سے بھی کاروبار پر کوئی قدغن نہیں ہے بلکہ اس کی مکمل آزادی ہے ورنہ یہ سٹاک ایکسچینج وغیرہ کب کے بند کیے جا چکے ہوتے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کررہے تھے۔
بلاول کے پاس کرپشن پر بولنے کا کوئی جواز نہیں ہے: شبلی فراز
وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''بلاول کے پاس کرپشن پر بولنے کا کوئی جواز نہیں ہے‘‘ اگرچہ جو کچھ ہم اور ہمارے بعض معزز ساتھی کر رہے ہیں اس کا بھی کوئی جواز نہیں ہے لیکن حکومت میں آنے کے بعد تمام امتیازات ختم ہو جاتے ہیں اور جب کوئی کرپشن پر بولتا ہے تو اسے دوسروں کی کرپشن پر بولنے سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ دوسروں کے کام میں سراسر مداخلت کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ کرپشن پر خواہ مخواہ بولتے چلے جانا ویسے بھی اچھا نہیں لگتا۔ جبکہ ہمیں بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اپوزیشن بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے‘‘ اور اگر حکومت خود بوکھلاہٹ کا شکار ہے تو اپوزیشن کو اس کی کیا ضرورت ہے کیونکہ اس نے تو کرنا کرانا ہی کچھ نہیں ہوتا۔ اصل مصیبت تو وہ ہے جو حکومت کے گلے میں پڑی ہوئی ہے جو مسائل کے حل کی بجائے صرف بوکھلاہٹ پیدا کرتی ہے تاہم، ہم مطمئن ہیں کہ چلو، کچھ نہ کچھ پیدا تو کر رہے ہیں، اور نہیں تو بوکھلاہٹ ہی سہی اور اپوزیشن کو اسی سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اور خود حکومت میں آنے کی فضول کوششوں سے گریز کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
دوبارہ
ایک صاحب ایک ریستوران میں داخل ہوئے اور پُرتکلف کھانوں کا آرڈر دیا جب دوسیر ہو کر کھا چکے تو بیرا بل لے کر آ گیا جس پر وہ بولے: تمہیں تو شاید یاد نہ ہوگا کہ میں پچھلے سال بھی آیا تھا اور ڈٹ کر کھانا کھایا تھا لیکن میرے پاس پیسے نہیں تھے‘ اس لیے منیجر نے آپ لوگوں سے نہ صرف میری اچھی طرح دھلائی کرائی تھی بلکہ اٹھا کر ریستوران سے باہر پھینک دیا تھا۔ جس پر بیرا بولا: کیا کریں جی، ہم تو نوکر لوگ ہیں، مالک کا حکم ماننا ہی پڑتا ہے، بہر حال ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ ''معذرت کی ضرورت نہیں ہے، تم لوگ تیار ہو جائو، میرے پاس پیسے آج بھی نہیں ہیں‘‘۔ وہ صاحب بولے۔
خدمت
ایک صاحب ایک ریستوران میں داخل ہوئے۔ کرسی پر بیٹھے ہی تھے کہ بیرا آ پہنچا اور بولا: صاحب، کھانا کھائیں گے؟ ''نہیں‘‘، انہوں نے جواب دیا۔ چائے یا کافی؟ بیرا نے پوچھا۔'' یا کوئی کولڈ ڈرنگ؟‘‘وہ صاحب پھر بولے کہ نہیں۔ ''باہر سے پان یا سگریٹ لا دوں؟‘‘ بیرے نے پھر پوچھا۔ جس پر وہ صاحب بولے: نہیں، میں سگریٹ پیتا ہوں نہ پان کھاتا ہوں۔ اس پر بیرا بولا: کپڑے ہی اتار دیں، دھو کر لا دیتا ہوں!
اور، اب آخر میں اس ہفتے کی یہ تازہ غزل:
پوچھنا پڑتا نہیں ہے اب کہاں دروازہ ہے
جس جگہ دیوار تھی پہلے‘ وہاں دروازہ ہے
ایک آنے کے لیے ہے، ایک جانے کے لیے
آپ کے گھر کے سوا ایسا کہاں دروازہ ہے
ایک اِس دیوار سے باہر بھی ہے دیوار‘ اور
ایک اِس دیوار کے بھی درمیاں دروازہ ہے
سر کو ٹکراتے رہے اور بعد میں ہم پر کھلا
ہم جسے دیوار سمجھے تھے وہاں دروازہ ہے
ہم جو اُس دہلیز سے آگے نہیں نکلے کبھی
پھر بھی، دیکھو تو ہمارا رازداں دروازہ ہے
نامرادی ہی رہے گی جس طرف سے آئو جائو
پیر صاحب کا یہ سارا آستاں دروازہ ہے
شہر میں رکھا ہوا ہے ہم نے اتنا تو حساب
پہلے تو اس کی گلی ہے بعد ازاں دروازہ ہے
اس قدر خوش فہم ہیں ہم‘ جس جگہ ہوتا نہیں
یہ سمجھ لیتے ہیں کوئی تو یہاں دروازہ ہے
دُور سے دیکھو تو دروازہ ہی لگتا ہے‘ ظفرؔ
پاس آئو تو فقط خالی نشاں دروازہ ہے
آج کا مقطع
کیا بات ہے‘ کرتے ہو کنارے پہ ظفرؔ کیا
ہیں لوگ تو کب سے سبھی اس پار تمہارے