تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     04-08-2020

آٹھ ملین قیدی

وبائی مرض کورونا( کووڈ19) گزشتہ سال کے آخر میں چین میں نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس مرض نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عالمی ادارہ صحت حرکت میں آیا اور اس مرض سے بچنے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈے گئے۔ مرض چونکہ لاعلاج قرار دے دیاگیا تھا اس لیے صرف اور صرف احتیاط ہی کو اس جان لیوا مرض سے بچنے کا حل قرار دیا گیا ۔نئی نئی اصطلاحیں سننے کو ملیں‘ سماجی فاصلوں کو لازمی قرار دیاگیا‘ معانقوں اور مصافحوں کا کلچر ختم ہوگیا۔ پہلے سے مردم بیزار اور بھی دور ہوگئے ‘عبادت گاہوں کو بھی تالے لگانے پڑگئے ۔نمازِ جمعہ کے اجتماعات پر پابندیاں عائد کی گئیں اور نمازوں کے لیے کم سے کم تعداد مقرر کردی گئی۔ حرمین شریفیں‘ مسجد نبویﷺ اور بیت اللہ شریف کو بھی عام و خاص شہریوں کے لیے بند کیا گیا۔ رمضان المبارک کے دوران نمازِ تراویح اور اعتکاف ایسی عبادتوں سے بھی مسلمان محروم رہے اور اس سال فریضۂ حج سے بھی امت مسلمہ بالعموم محروم رہی‘ صرف گنتی کے ایک ہزار خوش نصیبوں نے فریضۂ حج ادا کیا اور پوری امت کی نمائندگی کی۔ الیکٹرانک‘ پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے آگہی مہم اس انداز سے چلائی گئی کہ والدین نے بچوں کو اور بچوں نے والدین کو چھونے سے اجتناب برتنا شروع کردیا، تعلیم یافتہ لوگ اس قدر خوف میں مبتلا ہوگئے کہ اکثر سماجی فاصلوں پر عمل پیرا ہوگئے‘ لیکن کورونا پازیٹو آنے پر کچھ راز بھی فاش ہوئے‘ جن کی کوئی توجیح بیان سے قاصر رہی ۔پھر ایک اور اصطلاح سننے میں آئی‘ وہ تھی لاک ڈاؤن یعنی کاروبار زندگی معطل اور لوگوں کو گھروں میں محبوس کردیا گیا‘ کرفیو اور نیم کرفیو جیسی صورتحال پیدا ہو گئی۔ تعلیمی ادارے ‘کاروباری مراکز آمدورفت کے تمام ذرائع ‘ ائیرپورٹس‘ ہوٹل ریستوران گویا سب کچھ بند کردیا گیا اور اس غیرمعمولی صورتحال میں غریب اور کم آمدنی والا طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ امیر ‘اشرافیہ اور زعما کا گھر چلتا رہا کیونکہ ان کے پاس جمع پونجی ہی اتنی ہے کہ انہیں خود پتا نہیں۔ البتہ ان دنوں دیسی جڑی بوٹیوں سے علاج کے سینکڑوں طریقے سوشل میڈیا پر دستیاب رہے اور فصلی قصاب کی طرح فصلی حکیموں نے بھی عوام کو خوب بیوقوف بنایا اور لوگ کورونا سے بچتے بچتے دیگر امراض کا شکار ہوگئے۔
ترقی یافتہ‘ جدید اور طاقتور ریاستیں سب سے زیادہ اس کا شکار ہوئیں اور اب تک کورونا کی ہولناکیاں ان ممالک میں جاری ہیں ۔ہمسایہ ممالک میں انڈیا اور ایران بُری طرح متاثر ہوئے جبکہ پاکستان الحمدللّٰہ اس وبا کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہا اگرچہ پانچ ماہ میں چھ ہزار افراد اللہ کو پیارے ہوئے ‘ تاہم صحت یاب ہونے والے مریضوں کا تناسب حوصلہ افزا ہے‘ یعنی اس وقت صرف پچیس ہزار افراد زیر علاج ہیں اور عالمی ذرائع ابلاغ پاکستان کی تعریف کررہے ہیں کہ ہم نے کورونا پر اسی فیصد تک قابو پالیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے سب سے بڑے مخالف وزیراعظم عمران خان رہے ‘انہوں نے پہلے دن سے ہی اپنی رائے کا کھل کر اظہار کیا‘ جس پر انہیں میڈیا اور اپوزیشن کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا‘ تاہم اب وزیر اعظم عمران خان کی رائے کو درست مانا جا رہا ہے۔ اس دوران غریبوں میں بارہ سو ارب روپیہ بھی تقسیم کیا گیا‘ لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتے ہوئے وزیرعظم عمران خان کا ایک ہی مؤقف تھا کہ پاکستانی قوم میں بیماری سے لڑنے کے لیے قوت ِمدافعت توہے‘ لیکن غریب عوام میں بھوک‘ غربت اور افلاس سے لڑنے کی مزید سکت نہیں ہے اور اگر عالمی ادارہ صحت کی ہدایات پر مکمل لاک ڈاؤن کیا گیا تو پھر کئی انسانی المیے جنم لے سکتے ہیں۔ یہ بات بہرحال اپنی جگہ پر درست ثابت ہورہی ہے اور بھارت اس وقت سخت مشکلات کا شکار ہے ‘بھارت میں ابتدائی دنوں میں ہی لاک ڈاؤن کے بعد بیسیوں لوگ اپنے گھروں کو پیدل جاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے تھے۔
اس چند ہفتوں اور چند ماہ کے لاک ڈاؤن نے دنیا کی چیخیں نکال دیں اور عوام کو سہولت بہم پہنچانے کے لیے لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے نت نئے طریقے اختیار کیے گئے اور اس کے لیے بھر پور ریاستی وسائل استعمال کیے گئے‘ لیکن دنیا میں ایک کثیر آبادی‘ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ 80 لاکھ نفوس پر مشتمل مقبوضہ وادیٔ کشمیر کی صورت میں زمین کا ایسا ٹکڑا بھی ہے جو کورونا کے آنے سے چھ ماہ پہلے سے لاک ڈاؤن کا شکار ہے اور آج تک ہے۔ آج چار اگست ہے‘ ٹھیک ایک سال پہلے پانچ اگست کو انتہا پسند بھارت نے طاقت کے بل بوتے پر اقوامِ متحدہ کی قرار داروں اور اقوامِ ِعالم کی دی گئی ضمانتوں کو بلڈوز کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کردی اور درندہ صفت ایک ملین بھارتی فوج نے مقبوضہ وادی کے مکینوں کو گھروں میں قید کردیا‘ گھر گھر تلاشی شروع کردی گئی‘اُس وقت سے مقبوضہ وادی میں کوئی دن ایسانہیں گزرتا کہ جب کوئی لاش نہ گرائی جاتی ہو ۔ مقبوضہ کشمیر میں یہ ظلم وستم‘ بربریت اور ریاستی دہشت گردی ستر برس سے جاری ہے‘ لیکن ایک سال سے 80 لاکھ آبادی کی یہ وادی ایک جیل بنیادی گئی ہے۔ خواتین‘ بچے‘ بوڑھے‘ نوجوان سب کے سب گھروں میں قید ہیں‘ نہ تعلیم ‘نہ صحت کی سہولتیں‘ مذہبی آزادیاں بھی سو فیصد ختم۔بھارتی فوج کی طرف سے گھروں کوجلایا جارہا ہے‘ روزانہ کی بنیاد پر معصوم انسانوں کاخون بہایا جارہا ہے ‘لیکن عالمی ضمیر سو رہاہے‘ مسلم اْمّہ کے حکمران بھی بے حس و حرکت پڑے ہیں‘ او آئی سی کا ایک اجلاس بھی نہیں ہوسکا ۔پانچ اگست کے اقدام کے وقت احمقوں کااندازہ یہ تھا کہ کچھ نہیں ہوگا‘ سب کو طاقت سے خاموش کردیا جائے گا‘ مگرپینٹاگون کے بند کمروں میں لگائے گئے تمام اندازوں کے برعکس حریت پسند کشمیریوں نے اپنا خون‘ جان‘ مال اورآبرو لٹاکر ثابت کردیا کہ وہ اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوں گے اور زمینی و قانونی پابندیاں‘ بربریت‘ ظلم وستم اورریاستی دہشتگردی انہیں ذہنی و قلبی غلام نہیں بناسکتی۔ کشمیریوں نے آزادی کا دِیاتیل سے نہیں بلکہ اپنے لہو سے جلا رکھا ہے۔ مقبوضہ وادی کے ہر گھر سے ''پاکستان زندہ باد‘ کشمیر بنے گا پاکستان ‘ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ اللہ ‘ ہم کیا چاہتے آزادی‘‘ کے نعرے بلند ہورہے ہیں۔
اس صورتحال میں تمام کشمیریوں کی نظریں پاکستان پر ہیں اور پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کے دل کشمیر کے لیے تڑپتے ہیں۔ پانچ اگست کے بعدابتدا میں وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں بھرپور طریقے سے کشمیر پر آواز بلند کی اوردشمن بھارت کو للکارا۔ ہمارے اقتدار کے ایوانوں میں بھی کافی تحرک دیکھا گیا‘ لیکن پھر ایسا محسوس ہوا کہ پانچ اگست کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ان دیکھی مصلحتیں ہیں‘ دفتر خارجہ خاموش ہے اورعملی طور پر کوئی قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔وزیر اعظم عمران خان کبھی کبھار سوشل میڈیا پر آواز بلند کرتے ہیں‘مگر دفترِ خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگز میں کشمیر ترجیحی موضوع نظر نہیں آتا۔ ایک سال بعد بھی احتجاج کے لیے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ محض نمائشی ہیں اس طرح کے اقدامات سے دشمن کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ صرف یہی کچھ نہیں بلکہ مزید بہت کچھ کیا جائے‘ نہتے کشمیری بچے‘ خواتین ‘نوجوان اور بوڑھے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے لڑنے مرنے کے لیے تیار ہیں تو پھر ہم کیوں نہیں۔چین نے بھارتی اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کو تبدیل کرنے کا عمل شروع کردیا ہے‘ ہمیں بھی کچھ ایسا کرنا ہوگا۔ اعلانات اور نمائشی اقدامات کی بجائے عملی اقدامات اور بھرپور سیاسی و سفارتی اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ شہیدوں کا خون کبھی کسی کو معاف نہیں کرتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved