تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     09-06-2013

بڑی آزمائشیں‘ بڑے انعامات

تیرہ برس سے کچھ زیادہ ہی گزر چکے ہیں،لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ کل کی بات ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ یہ چند لمحوں پہلے کا واقعہ معلوم ہوتا ہے تو بھی کچھ غلط نہ ہوگا۔بعض مناظر ایسے ہوتے ہیں جو آنکھوں میں جم سے جاتے ہیں‘ ان پر وقت گرد ڈال سکتا ہے نہ حافظہ بھلا سکتا ہے۔تاریخ نے ایسے بہت سے مناظر محفوظ کررکھے ہیں جب صبر، جبر پر غالب آیا یا کوئی بھی ہتھکنڈہ صبر اور شکر کے پیمانے کو توڑ نہ سکا۔جب بظاہر بے بس نظر آنے والوں نے بڑے بڑے قہاروں کو پرکاہ جتنی وقعت دینے سے بھی انکار کردیا۔مطلق العنان بادشاہوں کے سامنے ڈٹ گئے، ان کی ایک بھی ماننے تو کیا سننے سے انکار کردیا۔ وقت کے تیور دیکھ کر شب و روز کو ترتیب دینے والے اسے گھاٹے کا سودا قرار دیتے رہے، لیکن جب حالات نے کروٹ بدلی تو معلوم ہوا کہ خسارہ تو ان کا مقدر بن چکا ہے جو طاقت کے نشے میں بدمست ہوگئے تھے۔ اپنی ملازمت کو بچانے کے لئے دستور اور قانون کی دھجیاں بکھیرنے والا اپنے ہی گھر میں محصور ہو چکا ہے۔جو اس کے ایک اشارے پر قربان ہو جانے کا تاثر دیتے تھے، آج اس کا نام سن کر تیوری چڑھا لیتے ہیں، اس سے اختلافات کی کہانیاں بیان کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ پاکستانی فوج کی کمان اس کے ہاتھ میں تھی، افسر اور جوان اس کے اشارئہ ابروپر جان قربان کر دینے کو ایمان کا حصہ سمجھتے تھے۔ ڈسپلن کے نام پر اپنے ہر حکم کی بجا آوری کو وہ اپنے ماتحتوں کا فرض منصبی جانتا تھا۔ سالارِ اعلیٰ کا منصب اس کے پاس ایک امانت تھا۔ اس نے حلف اٹھا رکھا تھا کہ وہ منفعت، لالچ، ترغیب یا تحریص سے بالاتر ہوکر اپنے فرائض ادا کرے گا،لیکن اس نے اس امانت میں خیانت کا گھنائونا ارتکاب کیا۔اپنی ملازمت کو بچانے کے لئے فوجی دستوں کو ان کی اپنی حکومت کے خلاف صف آراء کردیا۔نظم و ضبط کی پٹی بہادر فوجیوںکی آنکھوں پر باندھ کر انہیں وزیراعظم ہائوس کو فتح کرنے پر لگا دیا‘ پاکستان ٹیلی ویژن کی دیواریں پھاندنے پر مامور کردیا۔کیمرے کی آنکھ نے یہ مناظر دنیا بھر میں دکھائے تو پاکستانی قوم کا سرنیچا ہوگیا۔اس کی امیدوں اور ارمانوں کے مرکزباوردی نوجوان اسی کی امنگوں کو پامال کررہے تھے۔ اسی کا مستقبل کھوٹا کرنے پر لگا دیے گئے تھے۔ہمارے وہ مقدس ادارے جنہیں غیر بھی پامال کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، اپنوں کے پائوں تلے روندے جارہے تھے۔منتخب وزیراعظم کودھکے دے کر اس کی سرکاری رہائش گاہ سے نکال دیا گیاتھا،کال کوٹھڑی اس کا ٹھکانہ بنا ڈالی گئی تھی اور ہتھکڑیوں نے اس کے ہاتھوں کو باندھ لیاتھا۔اپنی وردی اور اپنے عہدکے ساتھ خیانت کے مرتکب سے جب پوچھا گیا کہ اس نے یہ حرکت کیوں کی تو اس نے سینہ تان کر کہا جو مجھے دھکّا دے گا، مَیں اس کو دھکّا دوں گا۔یعنی وزیراعظم مجھے نوکری سے نکالنا چاہتا تھا،میں نے اسے ایوان اقتدار سے نکال باہر کیا۔اپنی ہی فوج کے ڈسپلن کو اپنے ذاتی مفاد کی راہ میں قربان کردیا۔نوکری کے تحفظ کے لئے لگایا جانے والا یہ دنیا کا پہلا مارشل لاء تھا۔ وہ شخص آج بے یارومددگار ہے‘ اس کے ہم پیالہ سٹی گم کر بیٹھے ہیں۔ اس کے پَروُردگان کو اپنی پڑی ہے اور اس کے جتھے کے ارکان منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ وہ وزیراعظم جسے اس نے اقتدار تو کیا ملک سے نکال باہر کیا تھا، وہ ووٹ کی طاقت سے اپنا منصب پھر حاصل کرچکا ہے۔ اس نے پرانے سفر کا نیا آغاز کردیا ہے۔ تیرہ سال کی رائیگانی کا حساب کس سے لیا جائے؟ اس کا جواب دینے والے گونگے کا گڑکھا کربیٹھے ہیں۔ قومی اسمبلی کی کارروائی تاخیر سے شروع ہونے پر ضائع شدہ وقت کا حساب لگانے والے دانشور تو موجود ہیں، ایک گھنٹے کو اٹھارہ کروڑ عوام سے ضرب دے کر سرپیٹتے نظر آ رہے ہیں، لیکن اٹھارہ کروڑ عوام کے تیرہ سال کا حساب کیسے اور کس کس سے لیا جا ئے گا،یہ واضح نہیں ہو پارہا۔ جنرل پرویز مشرف کے کارندوں نے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے رفقاء کو پابند سلاسل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے والد گرامی اور اہل خانہ کو بھی نظر بند کردیا تھا۔ان سے ملاقات پر پابندی لگا دی تھی۔ جب پائوں جمانے کے بعد اسے ختم کیا گیا اور یہ خبر عام ہوگئی تو میاں محمد شریف سے ملاقات کے لئے دل کی بے تابی بڑھ گئی۔ان کے ساتھ تعلق کا تقاضا تھا کہ فوراً رابطہ ہو اور ان کی خیریت دریافت کی جائے۔ ان کے خصوصی معتمد مختار صاحب سے بات کی تو انہوں نے چند ہی لمحوں بعد اطلاع دی کہ کل صبح ناشتہ میاں صاحب کے ساتھ کریں۔مرحوم تبادلۂ خیال کے لئے اکثر ناشتے پر یاد کیا کرتے تھے‘ مہمان کمرے میں داخل ہوتے تو میز پر ناشتہ سجا ہوتا تھا۔ عزیزم عمر شامی کے ہمراہ وقت مقررہ پر جاتی عمرہ پہنچے تو میاں صاحب مرحوم کمرئہ ملاقات میں اپنی مخصوص نشست پر بیٹھے تھے۔حسب معمول ناشتہ سجا تھا۔ وہ سب لوازمات موجود تھے جو ان کے دستر خوان کا خاصہ سمجھے جاتے تھے۔ گفتار اور انداز میں بھی کوئی فرق نہیں تھا۔ملاقات سے پہلے یہ خیال بار بار دل سے گزرا تھا کہ ان کی صحت کس قدر متاثر ہوئی ہوگی، صدمے نے انہیں کس قدر کمزور کر ڈالا ہوگا؟ لیکن وہ جوں کے توں تھے،مطمئن اور پُرسکون۔غصہ، نہ برہمی۔ خوف نہ آزردگی۔ پریشانی نہ کمزوری۔ دلجوئی کے چند الفاظ ہی زبان سے ادا ہوئے تھے کہ وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں گویا ہوئے… جب انعامات بڑے ہوتے ہیں تو آزمائشیں بھی بڑی ہوتی ہیں… وہ مسلسل اس یقین کا اظہار کرتے رہے کہ وقت پھر بدل جائے گا اور وہ اس بڑی آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلیں گے۔انعامات بڑے ہوں تو آزمائشیں بھی بڑی ہوتی ہیںاور آزمائشیں بڑی ہوں تو ان کے بعد انعامات بھی بڑے ہوتے ہیں۔جاتی عمرہ میں محوِ آرام میاں محمد شریف کی روح آسودہ ہوئی ہوگی کہ ان کی دعا قبول ہوچکی۔انعام نے آزمائش کی جگہ لے لی ہے۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved