تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     04-08-2020

صنوبر … آزاد یا قیدی؟

صنوبر کا درخت نہ سیالکوٹ میں اُگتا ہے اور نہ لاہور میں۔ اس کا مطلب ہے کہ اقبال نے یہ خوبصورت درخت ضرور یورپ میں اپنے پانچ سالہ قیام اور سیرو سیاحت کے دوران دیکھا ہوگا‘ مگر اُنہوں نے ''پھول ‘‘کے عنوان سے جونظم لکھی‘ غالبا‘ یورپ جانے سے پہلے لکھی گئی۔ اُس کا تیسرا شعر یوں ہے:
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گِل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
اگرچہ صنوبر کے درخت کلام اِقبال پڑھ سکتے تو وہ بہت رنجیدہ ہوتے۔ دوسرے درختوں کی طرح صنوبر کے پائوں تو اُس مٹی میں گڑے ہوتے ہیں۔ جس سے وہ اُگتا اور نشوونما پاتا بلندی کی طرف سفر کرتا ہے۔ یہ تو ہوئی (نرم سے نرم لفظ میں) پابندی جو کسی لحاظ سے زندگی بھر کی قید سے مختلف نہیں ۔پائوں میں اس سے بڑی زنجیر اور کیا ہو سکتی ہے؟ یہ اقبال کا حُسنِ نظر تھا کہ اُنہیں زمین میں پیوست ہونے اور ایک انچ بھی ادھر اُدھر نہ ہونے کی صلاحیت سے محرومی کیلئے پابندی کا لفظ استعمال کیا۔ بے چارے صنوبر کو صرف ایک اُونچا درخت ہونے کی آزادی ہے اور وہ بھی ایک مقررہ حد تک۔ ظاہر ہے کہ صنوبر بڑھتا بڑھتا بادلوں تک تو نہیں پہنچ سکتا۔ اقبال نے ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار دیکھی‘ وہ حالتِ جو دو صدیوں کی غلامی سے دل ٹوٹ جانے کے بعد آپ کے چہرے سے ٹپکتی ہے۔ پھر اقبال کا دھیان دنیا کی سب سے بڑی نعمت ''آزادی‘‘ کی طرف گیا تو اُنہوں نے اپنی آنکھیں بند کیں اور دل میں سوچا کہ میں شاعرانہ مبالغہ آرائی سے کتنا بھی کام لوں میں حقیقت پسندی کا دامن نہیں چھوڑ سکتا‘ میں دیکھ سکتا ہوں کہ میری قوم کرگسوں کی صحبت میں پلی بڑھی ہے۔ اُسے راہ و رسمِ شہبازی کی کوئی خبر نہیں۔ وہ شیشہ گران ِ فرنگ کے احسان اُٹھاتے اُٹھاتے ذہنی طور پر مفلوج ہو چکی ہے۔ پھر وہ ہم سے یوں مخاطب ہوئے: اگر آپ آزاد ہونا چاہتے ہیں‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ اس نعمت کے ہر گز مستحق نہیں‘آپ کا لحاظ کرتے ہوئے میں آپ کے سامنے صنوبر جتنی محدود (بے حد محدود) آزادی کے حصول کی تجویز پیش کرتا ہوں۔ بس اسی پر گزارہ کریں۔ اس نظم کے دوسرے شعرمیں اقبال نے ہمیں کانٹوں میں اُلجھ کر زندگی کرنے (غور فرمائیں کہ زندگی بسر نہیں بلکہ کی جاتی ہے) کی خُو پیدا کرنے کامشورہ بھی دیا۔ اب آپ کو پتہ چل چکا ہوگا کہ ہم کیوں اقبال کو گلوکاروں کے سپرد کر کے اُن کے مشوروں کو دور سے سلام کر کے چین کی بانسری بجانے لگے۔ وہ دن اور آج کا دن‘ ہمارے اُوپر آٹا مافیا‘ چینی مافیا‘ بجلی مافیا‘ پٹرول مافیا اور ہر طرح کے لیٹروں کی اجارہ داریاں مسلط ہو جائیں‘ وہ سالہا سال ہمارا خون چو سیں‘ ہمارے کسانوں‘مزدوروں ‘ محنت کشوں اور متوسط طبقہ کی خون پسینے کی کمائی سے اربوں پائونڈ چرالیں ‘ ہماری بلا سے۔ ہم اپنی قسمت پر آنسو بہا کر صبر و شکر کی گردان کرتے رہیں گے۔
حسب معمول اتنی لمبی تمہیدیوں باندھی گئی کہ کالم نگار نے 30 جون کے روزنامہ Times کے تیسرے صفحہ پر ایک خبر جن درختوں کے بارے میں پڑھی اُن کا نام ہے پوکلپٹس(Eucalptus)۔ درختوں سے گھری ہوئی محلات نما حویلیاں (جو بڑے جاگیرداروں نے اپنے عروج کے زمانہ میں بنائیں) برطانیہ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ سینکڑوں بڑے عالی شان کمروں پر مشتمل۔ اُن میں ایک کا نام ہے: Chatworth House ۔ لندن سے 125 میل دُور وسطی انگلستان کی کائونٹی Derbyshire میں۔ یہ محل 1549سے جس خاندانی نواب کا گھر ہے اُس کا نام ہےDuke of Devonshire ۔ پانچ سو سال سے اس گھر کے اردگرد شاہ بلوط (Oak) کے درختوں کا ایک شاندار جنگل ہے۔ اب زمانہ بدل گیا تو نہ نوابوں کی حکومت رہی اور نہ شاہ بلوط کے درختوں کی چودھراہٹ۔ ہر سال ہزاروں برطانوی یہاں کے موسم سے تنگ آکر چمکتے ہوئے سورج کی تمازت سے لطف اندوز ہونے کیلئے آسٹریلیا نقل مکانی کر جاتے ہیں۔ آسٹریلیا نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اپنا ایک مایہ ناز درخت (یوکلپٹس) برطانیہ بھیج دیا جو یہاں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اُس نے نہ صرف برطانوی سرزمین میں اپنی جڑیں بلکہ اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ مذکورہ بالا محل کے چاروں طرف پوکلپٹس کے 6750 درخت لگائے اور اُگائے جائیں گے۔ اس محل کی وسعت کا آپ صرف اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ اسے موسم سرما میں گرم کرنے کیلئے ہر سال آتش دانوں میں جو لکڑی جلائی جاتی ہے اُس کا وزن دو ہزار ٹن ہوتا ہے۔ آسٹریلوی تارکِ وطن درخت نے شاہ بلوط کو اس لئے جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے میں کامیابی حاصل کی کہ وہ شاہ بلوط سے دس گنا زیادہ لکڑی مہیا کر سکتا ہے۔ مناسب ہوگا کہ میں اپنے قارئین کا پوکلپٹس (جو پاکستان میں موٹر وے اور نہروں کے کنارے پر باافراط پایا جاتا ہے) سے مفصل تعارف کرائوں۔ اس کی تین خصوصیات ہیں۔ (1) آسٹریلیا (جو اس کا آبائی ملک ہے) میں اس درخت کی 760قسمیں ہیں جن میں سے صرف 30 برطانوی موسم کو راس آتی ہیں۔ (2) یہ ہر سال چھ فٹ اُونچا ہوتا ہے۔ یہ رفتار شاہ بلوط سے دس گنا اور Coniferسے دُگنی زیادہ ہے۔ (3) یہ 1850 کے لگ بھگ (ملکہ وکٹوریہ کے عہد میں) آسٹریلیا سے برطانیہ بطور ایک نمائشی درخت درآمد کیا گیا جو بعد ازاں تجارتی اور کاروباری لحاظ سے بہت کامیاب رہا۔ (4) جنوب مشرقی آسٹریلیا میں وکٹوریہ کے مقام پر پوکلپٹس کا سب سے اونچا (435 فٹ) درخت ہے۔ جو Ferguson Tree کے نام سے مشہور ہے۔ دوسرے نمبر پر Tasmania کے جزیرہ پر اُگنے والا (Centurian نامی) پوکلپٹس کا درخت ہے۔ اس کی اونچائی 327 فٹ ہے۔ (5) حساب لگایا گیا ہے کہ پوکلپٹس کے درخت فی ایکڑ فی سال 400 پائونڈ کی تجارتی لکڑی مہیا کر سکتے ہیں۔ اس درخت سے نکالے جانے والے تیل کے مُستند طبی فوائد ہیں۔ 
قیام ِپاکستان کے بعد ہمارے ملک میں بدقسمتی سے حرص و ہوس‘ لالچ‘ لوٹ کھسوٹ اور مار دھاڑ کی جو خوفناک کالی آندھی چلی وہ ہماری صدیوں پرانی معاشرتی روایات‘ وضع داری‘ تہذیب اور اخلاقی اقدار کے ساتھ ساتھ ہر اُس شے کو خس و خاشاک کی طرح اُڑا کر لے گئی جو اس کے راستے میںآئی۔ بے چارے بے زباں درختوں کی کیا اوقات تھی‘وہ کس کھیت کی مولی تھے کہ مزاحمت کر سکتے۔ کالم اپنے خاتمہ کے قریب پہنچا تو اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ صنوبرکے لفظ کو آکسفورڈ اُرد و لغات میں تلاش کیا جائے۔ صفحہ نمبر764 دوسرے کالم پر ساتواں لفظ۔ یہ دیکھتے ہی میرا بوڑھا دل دھک سے رہ گیا‘ صنوبر کا انگریزی متبادل ہے Juniperجس پر مخروطی شکل کے Cone لگتے ہیں۔ یقینا یہ میری غلطی ہے۔ مجھے لغات کی طرف کالم لکھنے سے پہلے رجوع کرنا چاہیے تھا نہ کہ کالم کے اختتام پر۔ اس صدمہ پر قابو پانے کیلئے میں نے وہ نظم دوبارہ پڑھی جو اقبال نے پھول کو مخاطب کرنے کیلئے لکھی تھی۔ پہلا شعر ہی میرے اوپر سکتہ طاری کرنے کا موجب بنا۔
تجھے کیوں فکر ہے اے گُل دلِ صد چاک بلبل کی
تو اپنے پیرہن کے چاک تو پہلے رَفو کر لے
افسوس کہ نہ کالم نگار کے پیرہن کے چاک رَفو ہوں گے اور نہ اُس کے دل سے دلِ صد چاک بلبل کا فکر جائے گا۔ وہ آہ و زاری کرنے والا بلبل جسے طرح طرح کے صیادوں نے مافیا بن کر اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ جب وہ آزاد ہوکر کھلی فضائوں میں پرواز کرے گا اور اگر وہ آزادی صنوبر کی متنازعہ آزادی سے بڑی مختلف ہوئی تو میرے پیرہن کے چاک بھی خود بخود رَفو ہو جائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved