کئی سال پہلے کسی انجمن نے غالب ڈے کے موقع پر مشاعرہ کروایا جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا۔ مصرعِ طرح بھی غالب ہی کا تھا۔ میں نے وہاں جو غزل پڑھی اس کا مقطع تھا ؎
میں کہ اس عہد میں مُنکر ہوں ظفرؔ اپنا بھی
کس لیے محفلِ غالب میں بلایا ہے مجھے
میں چونکہ اپنے کلام کو دشمن کی نظر سے دیکھا کرتا ہوں (حالانکہ یہ کام دوسروں کو کرنا چاہئے) غالب میرا بھی پسندیدہ شاعر ہے اس لیے میں اس کی شاعری سے بھی سرسری نہیں گزر سکتا۔ چنانچہ اس کے مطالعہ کے دوران کئی مقامات ایسے بھی آئے جہاں مجھے رکنا پڑا اور جو میری پریشانی کا باعث بھی بنے۔ میں یہاں فرداً فرداً ہی اُن کا ذکر کروں گا جبکہ کئی جگہ میرے ذہن میں یہ بھی آیا کہ یہ شعر اگر میں کہتا تو کس طرح کہتا، یہاں غالب کے ساتھ مقابلہ بازی ہرگز نہیں ہے جس کا نہ میں اہل ہوں اور نہ مجھ میں یہ جرأت ہو سکتی ہے۔ کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں:
گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا‘ یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چُھٹ جائیں گے کیا
پہلی بات تو یہی سمجھ میں نہیں آتی کہ ناصح نے غالب جیسی شخصیت کو قید کیسے اور کیوں کر لیا اور غالب اس کی قید میں آ کر مطمئن کیونکر ہو گئے اور اسے تسلیم کیسے کر لیا کہ غالب اور دیگر شعرا ناصحوں اور واعظوں کا جو مذاق اڑاتے ہیں وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے جبکہ نصیحت نہ ماننے والے کو قید کر لینا تو اس کے دائرہ اختیار ہی میں نہیں۔ اگر مصرعۂ اول کا پہلا حصہ کچھ اس طرح ہوتا کہ ''گر رکھا ناصح نے ہم سے بیر‘‘ تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے کہ ناصح زیادہ سے زیادہ یہی کچھ کر سکتا تھا جبکہ مصرع کا اگلا حصہ یعنی ''اچھا یوں سہی‘‘ مزید مشکل میں ڈالتا ہے کہ ہمیشہ 'یوں ہی سہی‘ پڑھتے اور سنتے آئے ہیں نہ کہ ''یوں سہی‘‘؛ تاہم غالب اسے اس طرح بھی کہہ سکتے تھے ''گر کیا ناصح نے ہم کو قید تو یوں ہی سہی‘‘ (اس طرح مصرعہ رواں بھی ہو گیا ہے)
اگلا شعر ہے ؎
یوسف اُس کو کہوں اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی
گر بگڑ بیٹھے تو میں لائقِ تعزیر بھی تھا
مصرعۂ ثانی میں ''گر بگڑ بیٹھتے‘‘ ہوتا تو بہتر تھا لیکن وزن کی مجبوری درپیش تھی۔ایک اور شعر ہے ؎
وعدہ آنے کا وفا کیجئے یہ کیا انداز ہے
تم نے کیوں سونپی ہے میرے درکی دربانی مجھے
اس کے پہلے مصرعہ میں تو باقاعدہ ادب کا لہجہ ہے جبکہ دوسرے میں شاعر ''تُم‘‘ پر آ گیا ہے۔ اس کا پہلا مصرع اگر یوں ہوتا تو یہ فرق دُور ہو سکتا تھا یعنی ؎
وعدہ آنے کا وفا کر دو یہ کیا انداز ہے
اگلا شعر ہے ؎
وضع میں اُس کو اگر سمجھیے قافِ تریاق
رنگ میں سبزئہ نوخیزِ مسیحا کہیے
اس کے پہلے مصرعہ میں لفظ ''سمجھیے‘‘ کو ''فاعلن‘‘ کے وزن پر باندھا گیا ہے جبکہ اس کا صحیح وزن ''فعولن‘‘ ہے۔ آپ نے ایک اور شعر میں بھی یہ لفظ اسی وزن پر باندھا ہوا ہے ؎
یوں سمجھیے کہ بیچ سے خالی کئے ہوئے
لاکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند
جبکہ انہوں نے لفظ صحیح وزن میں بھی باندھا ہے ؎
سمجھ کے کرتے ہیں بازار میں وہ پُرسشِ حال
کہ یہ کہے کہ سرِ رہگزر ہے کیا کہیے
ایک اور شعر میں بظاہر تو کوئی گڑ بڑ نظر نہیں آتی لیکن میرے خیال میں کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ شعر ہے ؎
بوئے گل، نالۂ دل، دُودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
ارو وہ یہ کہ پہلے مصرعہ میں لفظ ''محفل‘‘ آیا ہے تو دوسرے میں ''بزم‘‘۔ یہ تکرار کچھ اچھی نہیں لگتی۔ میرا وتیرہ تو یہ ہے کہ کوئی بھی کلیدی لفظ مثلاً خواب، دریا، باغ اور دشت وغیرہ میری پوری غزل میں بھی ری پیٹ نہیں ہوتے۔ چنانچہ اگر یہ شعر میں کہتا تو اس طرح ؎
بوئے گل، نالۂ دل، سلسلۂ دُودِ چراغ
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
اس سے ایک تو مذکورہ لفظوں کی تکرار ختم ہوتی ہے اور ''سلسلہ‘‘ اس لیے لایا گیا ہے کہ چراغ کا دھواں جب باہر نکلتا ہے تو ایک زنجیر سی بناتا ہوا۔
غالب نے جو سہرا لکھا تھا اور جس کا آخری شعر یوں تھا ؎
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرفدار نہیں
دیکھیں اس سہرے سے بڑھ کر کوئی کہہ دے سہرا
اس میں چونکہ استادِ شاہ یعنی ذوق کو چیلنج کیا گیا تھا اور جس کا نوٹس بھی لیا گیا جس کے جواب میں غالبؔ نے دس گیارہ معذرتی اشعار لکھے کہ تلافیٔ مافات کی کوئی صورت نکلے۔ اس میں سے کچھ اشعار ؎
منظور ہے گزارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیان حسنِ طبیعت نہیں مجھے
یہاں اپنا بیان حسنِ طبیعت ''نہیںمجھے‘‘ کے بجائے ''میرے لیے‘‘ ہونا چاہیے تھا۔
ایک شعر ہے ؎
سو پشت سے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
یہاں بھی ذریعۂ عزت مجھے کے بجائے میرے لیے ہونا چاہیے تھا۔
اگلا شعر یوں ہے ؎
کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
مانا کہ جاہ و عظمت و ثروت نہیں مجھے
یہاں بھی مجھے کی جگہ میرے لیے ہونا چاہیے تھا۔ اگلا شعر ہے ؎
استادِ شہ سے ہو مجھے پرخاش کا خیال
یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے
یہاں بھی مجھ میں یہ تاب، میری یہ مجال اور مجھ میں یہ طاقت ہونا چاہئے تھا۔
آج کا مقطع
غالب کے ساتھ میرا جھگڑا نہیں ظفرؔ کچھ
میں ہر طرح سے اپنی اوقات جانتا ہوں