تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     04-08-2020

ارشد پپو سے عزیر جان بلوچ تک …… (3)

سابقہ دونوں اقساط میں داد محمد دادل اور شیرو سے چلتے ہوئے رحمان ڈکیت اور پھر عزیر بلوچ تک کی کہانی کا تفصیل سے ذکر کیا گیا۔ عزیر بلوچ خود کوئی بڑی طاقت نہیں تھا کیونکہ2002ء کے لوکل باڈیز انتخابات میں اسے پیپلز پارٹی کے ایک کارکن حبیب حسن کے ہاتھوں میئر شپ کیلئے لیاری میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی تنہائیوں کو دیکھ کر اس کے خالہ زاد بھائی رحمان بابا نے اسے اپنے ساتھ شامل ہونے کا مشورہ دیا جس پر پہلے تو عزیر بلوچ نے انکار کر دیا لیکن بعد میں اس نے محسوس کیا کہ ارشد پپو اور لالو گینگ سے وہ اکیلا بدلہ نہیں لے سکتا۔ پس وہ اپنے بھائی رحمان بابا کے ساتھ شامل ہو گیا اور پھر ان دونوں گروپوں نے ایک دوسرے کے لوگوں کو مکھیوں کی طرح قتل کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بعض مقامی سیاستدانوں کی ہدایت پر ایم کیو ایم کے پرچم تلے اکٹھے ہونے والے اردو بولنے والوں کو نشانے پر لے لیا اور یہ سلسلہ پھر دونوں اطراف سے اس طرح شروع ہو گیا کہ بسوں اور گاڑیوں سے اتار اتار کر ایک دوسرے کے لوگ ذبح کئے جانے لگے۔ کراچی کے وار لارڈز کی سیا ست نے اچانک اس وقت پلٹا کھایا جب 2009ء میں رحمان ڈکیت کو ایک ''پولیس مقابلے‘‘ میں پار کر دیا گیا جس سے عزیر جان بلوچ اپنے دست راست بابا لاڈلا کی معاونت سے اپنے گینگ کا سربراہ بن گیا۔
کراچی جو پہلے ہی مختلف مافیاز کی طرف سے قبضوں کی جنگ کے باعث لاشوں کا شہر بنتا جا رہا تھا‘ اس پر 2013ء میں جلتی پر تیل ڈالنے کے لئے نئے بلدیاتی قانون‘ جسے پیپلز لوکل گورنمٹ بل کا نام دیا گیا‘ کو نافذ کر دیا گیا۔ (جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو اس بل کے خلاف دائر کی گئی رٹ کی سپریم کورٹ میں سماعت ہونے جا رہی ہے) اس بل کی مخالفت کو قوم پرستوں کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو 23 اضلاع پر مشتمل سندھ جن میں سے سائوتھ، ویسٹ، ایسٹ، سینٹرل اور ملیر پر مشتمل صرف پانچ اضلاع کا تعلق کراچی سے ہے‘ کراچی کے جنوبی ضلع میں لیاری ٹائون، صدر بازار اور جمشید ٹائون ڈسٹرکٹ ویسٹ میں سائٹ، اورنگی، کیماڑی اور بلدیہ ٹائون کے علاقے، ڈسٹرکٹ ایسٹ میں شاہ فیصل ٹائون، لانڈھی، کورنگی اور گلشن ٹائون، سینٹرل ضلع میں نیو کراچی ٹائون، لیاقت آباد، نارتھ ناظم آباد اور گلبرگ ٹائون جبکہ ملیر ضلع میں ملیر، بن قاسم اور گڈاپ ٹائونز کے علاقے شامل ہیں۔
بلدیہ ٹائون جہاں ایک فیکٹری کو نذرِ آتش کرنے کے بعد کم و بیش 279 انسانوں کو زندہ آگ میں جلا دیا گیا تھا‘ اس ٹائون کا ایک حصہ جو وزیرستان گوٹھ کے نام سے مشہور ہے‘ قبضہ گروپوں کی پشت پناہی اور اسلحے کی سپلائی کا سب سے بڑا ڈپو بن گیا تھا۔ کراچی کی روز بروز بگڑتی ہوئی صورت حال پر دنیا بھر کے مختلف سٹڈی گروپوں کی رپورٹس میں اسے جنوبی ایشیا کا بیروت کہا جا نے لگا جہاں جدید ترین اسلحہ اور گولہ بارود جب چاہیں جہاں چاہیں جس طرح چاہیں استعمال کیا جا سکتا تھا۔ روزانہ پندرہ بیس انسان مکھیوں مچھروں کی طرح مار دیے جاتے‘ قانون نافذکرنے والے اداروں کے چھوٹے سے لے کر بڑے افسران تک‘ سبھی ہر وقت ڈر اور خوف کا شکار رہتے‘ ان کی فیملیاں زیادہ تر ملک سے باہر چلی گئیں اور وہ خود سخت پہرے اور حصار میں فرائض انجام دینے کی نیم دلانہ کوشش کرنے لگے۔
کراچی کے ایسے علاقے جہاں ٹی ٹی پی کے سیف ہائوسز تھے‘ ان کے اندر تو بہت دور کی بات ہے‘ ان کے ارد گرد بھی کوئی دوسرا شخص پر نہیں مار سکتا تھا۔ ایک پولیس افسر کی رپورٹ کی مطابق کراچی سے طالبان اور دوسری کالعدم تنظیموں کے لئے 17 ملین ڈالر بھجوائے گئے۔ کراچی جسے منی پاکستان کہا جا تا ہے‘ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے ساٹھ ممالک سے زائد آبادی کا حامل شہر ہے۔ اگر اس کا دوسرے ممالک سے موازنہ کیا جائے تو الجزیرہ کی اُس وقت کی جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطا بق 2001ء میں کراچی میں قتل کی شرح ایک لاکھ افراد میں 4.04 تھی جبکہ ممبئی میں یہی شرح 1.67 اور دہلی میں 3.79 تھی۔ اسی طرح اس دور میں کہا جاتا تھا کہ القاعدہ کے لیے سوڈان کی نسبت کراچی زیا دہ محفوظ جگہ ہے، بلکہ یہ بھی کہا جا نے لگا کہ ممبئی کے انڈر ورلڈ کے لوگ بھی کراچی پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ سہراب گوٹھ، الآصف سکوائر، رابعہ سٹی اور اس سے ملحقہ علاقے جہاں پہلے اے این پی کا ہولڈ تھا، آہستہ آہستہ تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ کے ہاتھوں میں جانے لگے۔ اس میگا سٹی کی بربادی میں جہاں دوسرے بہت سے عوامل کارفرما ہیں وہیں ایک سب سے بڑا سبب یہی گینگ وار ہے۔
2009ء سے یک دم کراچی میں لسانیت کی بنیاد پر بڑھنے والی قتل و غارت گری اور کراچی میں قبضہ گروپوں، لسانی نفرتوں، علاقوں کی تقسیم اور بھتہ و تاوان کے حصول میں مسابقت کی جنگ دوبارہ تیز ہو گئی جس کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا تھاکہ اسی دوران پیپلز لوکل گورنمنٹ بل پر ہنگامے شروع ہو گئے، ان کے اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب ڈھونڈنے کے لئے کراچی کے پانچوں اضلاع میں رہنے والی آبادیوں کا ایک تفصیلی جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کراچی میں اس وقت 9 لسانی قومیتیں رہائش پذیر ہیں جن میں ایک تعداد ان سندھیوں کی ہے جن کا پس منظر مکران کی بلوچ نسل سے ہے۔ یہ کئی نسلوں سے کراچی میں آباد ہیں، اس لیے سندھی بڑی آسانی اور روانی سے بولتے ہیں۔ ان میں سماٹ اور بلوچ بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ گجرات سے تعلق رکھنے والے سندھی ہیں جو قیام پاکستان کے بعد بھوج اور کَچھ کے علاقوں سے ہجرت کر کے یہاں پہنچے تھے جبکہ لاسی ریاست لسبیلہ سے سندھ میں آکر آباد ہوئے۔ یہ 1960ء سے پہلے بلوچستان کا حصہ تھے۔ تیسرے راجستھانی ہیں‘ جن میںقائم خانی راجپوت، شیخ، گذدر اور سلاوٹ شامل ہیں۔ ان کی اکثریت راجستھان کی مختلف زبانیں بولتی ہے۔ سلاوٹ 1930ء میں پیر پگارا کے کہنے پر سندھ میں آکر آباد ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ملباری ہیں جو 1935ء کے بعد کیرالا سے آ کر یہاں آباد ہوئے تھے۔ اس کے بعد اردو بولنے والوں کے علاوہ بہاری اور بنگالی ہیں جو قیام پاکستان کے وقت 47ء میں اور اس کے بعد 1971ء میں بنگلا دیش بننے کے بعد کراچی پہنچے تھے۔ ان کے علاوہ پنجابی جو ایوب خان کے دور میں سکھر بیراج بنتے وقت آباد ہوئے۔ جنرل ایوب خان اور یحییٰ خان کے دور میں پٹھان بھی دھڑا دھڑ کراچی میں آباد ہونا شروع ہو گئے تھے لیکن جنرل ضیاء کے دور میں تو روس افغان جنگ کے دوران ہر طرف سے افغانوں کا ایک سیلاب کراچی کی طرف امڈ آیا۔ ان میں ہر طرح کے لوگ تھے‘ محنت مزدوری کرنے والے بھی اور انڈر ورلڈ مافیا والے بھی۔ افغانستان کی خاد سے منسلک بھی اور بھارتی را سے وابستہ بھی۔ اس کے علاوہ کشمیری، برمی، مہاراشٹری، سرائیکی، ہند کو ہزارہ وال بھی ملک کے مختلف حصوں سے کافی تعداد میں کراچی میں آباد ہو چکے ہیں۔ اب اگر اردو، بنگالی اور بہاری آبادی کو جمع کیا جائے تو یہ کراچی کی کل آبادی کا 20 فیصد بنتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں سندھی، بلوچ، پٹھان، مکرانی، پنجابی، گجراتی اور لاسی‘ ان سب ملا کر دیکھیں تو یہ کم و بیش کراچی کی آبادی کا 68 فیصد ہیں۔ یہ سب حالات کراچی میں گینگ وار اور لسانی فسادات کو بڑھاوا دینے کے لیے کافی تھے۔
حبیب جان بلوچ جس نے فرینڈز آف لیاری کے نام سے نئی جماعت بنائی تھی‘ اس کے گروپ نے 2012ء میں راج محمد نامی ایک ذہین کانسٹیبل کو‘ جو لیاری میں ان کی مخبریاں حاصل کرنے کے فرائض انجام دیتا تھا،اغوا کرنے کے بعد ویرانے میں لے جا کر ا س کے سر کو کلاشنکوف کا برسٹ برسا کر اڑا دیا جس کی ایف آئی آر کلری پولیس سٹیشن میں درج ہے ۔ادھر عزیر بلوچ نے اپنے باپ کے قاتل ارشد پپو اور اس کے بھائی یاسر عرفات کو اغوا کرنے کے بعد مبینہ طور پر ان کے سر کاٹے اور سینکڑوں لوگوں کے سامنے ان سے فٹ بال کھیلتے ہوئے بعد میں ان کے جسموں کو آگ لگا کر اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈی کی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved