غلطی سے ہرگز نہیں ، آدمی اپنے ادنیٰ خیال کی محبت میں مبتلا ہونے سے مرتا ہے ۔ خورشید رضوی سے پوچھا تھا۔ کہا: ہنگامۂ دنیا کا حاصل ہیں‘ سو‘ دو آنسو اک اشکِ محبت ہے، اک اشکِ ندامت ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے فرمایا: شہباز شریف پاکستان کو پیرس بنا سکتے ہیں ۔ پانچ برس کے بعد جس آدمی کو خیال آیا کہ مسئلہ پولیس اور پٹوار ہے ؟ریپڈ بس کا پی سی ون کیا بنا تھا؟ منصوبہ مرتّب کیے بغیر لوہے کی مقدار ہی متعین نہ کی جا سکتی ۔ ہوا کے گھوڑے پر سوار وزیر اعلیٰ نے کہا: زیادہ سے زیادہ سریا ڈال دیا جائے۔ تعمیرات کے نرخ کیا رہے؟ مرکزی ٹھیکے دار نے فقط دستخط فرمانے کے کتنے ارب روپے وصول فرما لیے؟ بابائے معاشیات ایڈم سمتھ کے چند بنیادی کلیے طلبہ کو آغاز ہی میںیاد کرائے جاتے ہیں ۔ان میں سے ایک یہ ہے : وسائل ہمیشہ محدود ہوتے ہیں ۔ معیشت کے کچھ سنہری اصول سرکارؐ نے سکھائے تھے۔ ترجیحات کا تعین، اعتدال اور دیانت دار عمّال کا تقرر، جن کی تربیت اور نگرانی کی جائے، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ۔ آخری نکتہ تفصیل طلب ہے ، سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ کی جس پر توجہ رہی ’’عراق کے دلدلی راستوں پر اگر کوئی خچر پھسل کے گر پڑا تو اندیشہ ہے کہ عمرؓ سے اس بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔ انفراسٹرکچر ! یہ سرسری خیال نہیں ۔ اس حیرت انگیز منتظم عمر بن العاصؓ سے ان کی بحث رہی اور تاریخ نے اسے محفوظ رکھاہے۔ شہرِ لاہور کے کشمیری النسل تر دماغ میاں محمد نواز شریف کی ترجیح ِ اوّل ہیں ۔ بہرحال اپنے ہی لوگوں میں سے انہیں انتخاب کرنا تھا اور پارلیمانی نظام میں یہ ان کا استحقاق بھی ہے ۔ کوئی مگر یہ بتائے کہ خواجہ سعد رفیق ریلوے کو کتنا جانتے ہیں ؟ خیر وہ تو پھر بھی جواں سال اور متحرک آدمی ہیں ۔ ممکن ہے کہ سیکھنے کی کوشش کریں اور یہ نکتہ ان پر کھل جائے کہ ایسے میں فقط ماہرین پر انحصار چاہیے۔ مسلم لیگ ہی کا مسئلہ نہیں ۔ تحریکِ انصاف اگر جیت جاتی تو کیا وہ صداقت عباسی کو یہ محکمہ سونپتی ؟ خوش گمان شفقت محمود یا علیم خان کو ؟ میں ان کے جواب سے واقف ہوں۔ جی نہیں ! ٹیکنو کریٹس کو ۔ کون سے ؟ جو صوبہ سرحد میں مقرر ہوئے؟ وہاں دہشت گردی سے نمٹنا ہے ، سب سے بڑا چیلنج انٹیلی جنس ہے اور پولیس کو جدید تر خطوط پر استوار کرنا۔ شفاف مالیاتی نظام۔ سول سروس کی بہترین صلاحیت بروئے کار لاتے ہوئے ، نگرانی کا نظا م۔ مرکز کی گھاگ افسر شاہی سے معاملات کون طے کرے گا؟ جاوید ہاشمی؟ جب جی میں آئی مثلِ ہوا اٹھ کھڑے ہوئے جب چاہا ساتھ بیٹھ گئے گردِ راہ کے اتفاق سے کچھ نام ذہن میں چمکے۔ اگر وہ آمادہ ہوں تو انٹیلی جنس اور پولیس کو جدید ترین خطوط پر استوار کر کے ملک کے لیے مثال بنا دیں۔ شیر شاہ سوری کے منتظمین کی طرح نہ سہی مگر دوسروں سے بہت بہتر۔ ہاتھی پہ سولہ دن کی مسافت طے کر کے اکبرِاعظم چونیاں پہنچا تھا کہ بندوبستِ اراضی کے لیے نابغۂ روزگار ٹوڈرمل کی منت سماجت کرے ۔ اس خیال سے مگر میں خوف زدہ ہو گیا کہ ادھر ان کا میں نے نام لیا اور ادھر ہر خوشامدی کیڑے ڈالنے کے لیے اپنی ڈبیاکھولے گا۔اس کے منہ میں ہوتی ہے ۔ عقل میں بخیل، الفاظ کے حاتم طائی۔ خرچ لمحوں میں ترے دستِ کشادہ سے ہوئے کتنی صدیوں کی مشقّت سے کمائے ہوئے ہم اعتراف کرنا چاہیے کہ اس ناچیز کا بھی قصور ہے ۔ پارٹی الیکشن کے لیے منصوبہ ناقص بنا۔ سازشیوں نے جال بُنا تو واویلا چاہیے تھا۔ تب یہ بھوت سوار تھا کہ کسی نہ کسی طرح نون لیگ کو ادھیڑ دیا جائے ۔ سامنے کے نکات نظر انداز تھے ۔ کاروباری طبقے سے لاتعلقی، جہاں رہنمائی اوپر سے آتی ہے۔ اوپر کے اقبال زیڈ احمد ایسے سرحدوں سے باہر بھی دیکھتے ہیں ، کچھ اور بھی ہیں۔ان کے زیرِ اثر لگ بھگ تیس چالیس لاکھ ووٹ۔ اتنے ہی سمندر پار پاکستانیوں کے ، جو اس طرح نظر انداز کر دیے گئے، جیسے بچوں کے لیے آٹے کا تھیلا خریدے بغیر باپ میلے میں چلا جائے۔ کہہ تو دیا مگر کہنا کافی نہ تھا۔ ’’سیاپا‘‘ چاہیے تھا۔ ووٹ دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک پارٹی اور دوسرے امیدواروں کے ۔ قائد اعظم نے کس کو ٹکٹ دیئے تھے ؟ تحریکِ انصاف کی قیادت ہیجان کا شکار تھی کہ تخت اچھالے اور تاج گرا دیے جائیں ۔ یہ فیض احمد فیضؔ کامصرعہ ہے ۔ شاعر تو ان جیسا کوئی دوسرا نہ تھا مگر سب جانتے ہیں کہ عمر بھر ان کی سیاست خیالات کی وادیوں میں بھٹکتی رہی، بے نیل و مرام! فارسی کی کہاوت یہ ہے : جو مکّا جنگ کے بعد یاد آئے، اپنے منہ پر مارنا چاہیے۔ اتفاق سے ایک ایسی شب تھی کہ خیال روشن اور قلب آسودہ تھا ۔ خود مجھ سے کہاں غلطی ہوئی، سوچتا رہا ۔ نتیجہ ہم نے اخذ کر لیا تھا کہ گومگو کا شکار لگ بھگ دو کروڑ ووٹر نگران حکومتوں کی تشکیل کے بعد فیصلہ کریں گے ۔پھر چوکس کیوں نہ رہے کہ اب وہ کیا سوچ رہے ہیں ؟ سمندر پار پاکستانی منہا کر دیے۔ تبدیلی کے تصور سے خوف زدہ صنعت کار، تاجر اور دکاندار منہ پھیر کر چل دیے: یہ تو ڈرون گرائیں گے ۔ یہ تو مغربیوں کو حقیر گردانتے ہیں ۔ حقیر؟ ارشاد یہ تھا:جس سے نفرت کرتے ہو، اس سے ڈرتے رہو ۔ تمام کامیابیاں ، سب ناکامیاں اپنی ہوتی ہیں ۔ ایک سال پارٹی الیکشن میں گنوا دیا؛چونکہ کوئی نظام ہی نہ تھا؛ چنانچہ امیدواروں پر کوئی معلومات بھی نہیں ۔ نتیجہ یہ کہ علیم خان ، سیف اللہ نیازی اور عامر کیانی ٹکٹ بانٹ رہے تھے ۔ اجڑی مسجدوں کی گلہریوں نے امامت کی ۔ شاہ محمود نے این اے 177میں بوسکی کی جس قمیص کو ٹکٹ دیا، وہ جیتنے والے کا صرف 13فیصد لے سکی۔ جس کا ٹکٹ روکا ، وہ پچھلی بار 150ووٹوں سے ہارا تھا ۔ خوش اخلاق، قادرالکلا م اور جہاندیدہ! واویلے سے اب کیا فائدہ ؟ یہ کہ اپنی غلطی مانی جائے ! ٹی وی کے مباحث چھوڑیے ۔ بیداری ان سے پیدا ہوئی مگر اب وہ خلطِ مبحث کا سبب زیادہ ہیں ۔ ذرا سی بات تھی افسانۂ عجم نے جسے۔ بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے ۔ایسا کوئی مسئلہ نواز شریف کو درپیش ہے اور نہ کپتان کو ، جس کا کوئی حل موجود نہ ہو ۔ ہاں راستہ کبھی دراز اور مشکل بھی ہوتاہے ۔ ہتھیلی پہ سرسوں نہیں جمتی۔ پاکستان کی معیشت کتنی ہی الجھ گئی ہو ، دوسری عالمگیر جنگ سے برباد جاپان اور جرمنی سے بدتر بہرحال نہیں۔ 1980ء میں 150ڈالر فی کس والے ملائیشیا اور 180ڈالر والے چین سے کمتر تو بہرحال نہیں ۔ اس کی تربیت درکار ہے ، جو دنیا کی سات ذہین ترین اقوام میں سے ایک ہے ۔ آسانی سے مگر ڈسپلن قبول نہیں کرتی ۔ ملوکیت اور استعمار کی صدیوں کا اثر ہے کہ جلد مایوسی کا شکار ہو جاتی اور تمام تر امیدیں فقط حکمرانوں سے وابستہ کر لیتی ہے ۔ شہباز شریف ہیجان کے مارے ہیں ۔ ترجیحات طے نہیں کر سکتے ۔ لاہور سے دس کلومیٹر دور کتنے ہی دیہات ہیں ، سورج ڈوبنے کے بعد جن کے راستے ویران ہو جاتے ہیں ۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ، دو متحارب افواج برّاعظم امریکہ کو ویرانہ بنا سکتی تھیں ، دانش بروئے کار آئی اور وہ بچ رہے ۔ فروغِ علم اور ٹیکنالوجی اپنی جگہ ، دو عالمگیر جنگوں میں دس کروڑ زندگیوں کے چیتھڑے اڑا کر مغرب نے دریافت کیا کہ اعتدال اور امن کی اہمیت کیا ہے ۔ سیاسی استحکام اسی سے جنم لیتا اور حیات اس قرار میں پھلتی پھولتی ہے۔ آج نہیں تو کل ، یہ معاشرہ دریافت کرے گا کہ انتہا پسند، نام نہاد نظریاتی گروہ شاید سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ ان کی خوف ناک ضد…Rigidity! امن کی آرزومند رائے عامہ ان سے ڈرتی ہے۔ اس خلا میں آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف ایسے لیڈر اپنا جواز پاتے ہیں ۔ ع کہ میں نے شوقِ گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی قدرت کے قوانین ہیں اور ان کا ادراک کرنا پڑتا ہے۔ انتخابی مہم کے ملبے پر خیال کا ابر بہت دن برستا رہا ۔ پھر اس میں سے ایک کونپل پھوٹی، اس کونپل پر ایک پتہ ۔ اس پتے پر یہ لکھاتھا: چیخ پکار سے نہیں ، انفرادی اور اجتماعی حیات کی برقرار رہنے والی پائیدار عمارت خون پسینے سے تعمیر کی جاتی ہے ، پیہم ریاضت سے۔ اظہارالحق نے کہا تھا۔ انہیں اس کارِ لا حاصل سے کوئی باز رکھتا سنا ہے عشق میں کچھ لوگ مرنا چاہتے ہیں غلطی سے ہرگز نہیں ، آدمی اپنے ادنیٰ خیال کی محبت میں مبتلا ہونے سے مرتا ہے ۔ خورشید رضوی سے پوچھا تھا۔ کہا: ہنگامۂ دنیا کا حاصل ہیں‘ سو‘ دو آنسو اک اشکِ محبت ہے، اک اشکِ ندامت ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved