پاکستان میں سیاست آگے کو نہیں چلتی یہ دائرے میں گھومتی ہے اور یہ اصول حزب اختلاف کی جماعتوں اور پی ٹی آئی کی حکومت دونوں پر لاگو ہوتا ہے؛ البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فریقین کے پاس اپنے اپنے دائرے موجود ہیں اور وہ انہی میں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ اس امر کی کوئی دلیل نہیں ملتی کہ یہ لوگ اپنے اپنے دائروں کے مابین ہم آہنگی یا ربط پیدا کرنے کے لیے کسی مکالمے کو جنم دینے پر راغب ہوں۔ اسی وجہ سے بعض اوقات یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ سیاست ساکت و جامد ہے۔ سیاست کا معیار جمہوری سیاست کی سان پر پرکھا جاتا ہے اور بدقسمتی سے سیاسی رہنمائوں کا کردار اس حوالے سے تصنع کے احساس کو جنم دیتا ہے۔
مسلم لیگ (نواز) کو قیادت کا بحران درپیش ہے اور اس کے علاوہ اس جماعت میں تنظیمی مسائل بھی ہیں۔ اس کے غیر متنازعہ رہنما لندن میں قیام پذیر ہیں جبکہ قیادت کے دو دعویدار لاہور میں ہیں جنہوں نے اس معاملے پر فی الحال جنگ بندی کررکھی ہے۔ نواز لیگ کے دوسرے رہنمائوں نے سیاست کیلئے ایک محفوظ دائرے کا چُنائو کر رکھا ہے اور وہ دائرہ ہے تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کرنا اور پارلیمان کے اندر اور باہر بالخصوص عمران خان کی ذات کو نشانہ بنانا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے مابین ایک دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنی موجودگی محسوس کرائی جائے اور یوں پارٹی قیادت کی نظروں میں اپنی اہمیت قائم رکھی جائے۔ ان میں سے کوئی بھی اپنی جماعت میں قیادت کے معاملے پر زبان نہیں کھولتا اور نہ ہی جماعت کی تنظیمی ضروریات بارے بات کرتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی اوپر سے نیچے تک کی قیادت بھی یہی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ محفوظ حکمت عملی یہی ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی اور دو صوبوں میں حکومت کو نشانہ بنایا جائے۔ اور پی ٹی آئی حکومت کی معاملات چلانے میں نااہلی کے طفیل اس بات کے کافی امکانات موجود ہیں کہ انہیں تنقیدی توپوں کے دہانے پر رکھا جا سکے اور یوں اس حکمت عملی پر عمل پیرا ہونا قطعی مشکل کام نہیں۔ پی پی پی کی قیادت پارٹی کے تنظیمی امور خصوصاً پنجاب کے حوالے سے بہت چوکنی ہے۔ انہیں اندازہ ہے کہ اس وقت جو صورتحال ہے اس میں پارٹی خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں نئے انتخابات کے لیے تیار نہیں۔ پی ٹی آئی کی مخالفت دونوں جماعتوں، پی پی پی اور پی ایم ایل این میں قدرِ مشترک ہے۔ اس کام کیلئے یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے بات کرنے کو تیار ہیں اور اسی مقصد کیلئے کل جماعتی کانفرنسوں کے انعقاد کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے تاکہ پی ٹی آئی حکومت کو زک پہنچانے کیلئے طریقے طے کیے جا سکیں؛ تاہم باہمی تعاون کا یہ دائرہ اسی نکتے پر اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔ جب پی پی پی پنجاب میں احیا کیلئے اپنی تنظیم سازی کی بات کرتی ہے تو یہ امر براہِ راست مسلم لیگ نون کے مفادات سے ٹکراتا ہے۔ پی پی پی پہلے ہی پی ٹی آئی کے ساتھ حالت جنگ میں ہے اور پنجاب میں پارٹی کی تنظیم نو کی کسی بھی عملی کوشش کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پی ایم ایل این کی قیادت کے ساتھ اس کے ''اچھے تعلقات‘‘ اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت کو یاد ہے کہ اس کے خلاف مقدمات مسلم لیگ (ن) کے ادوارِ حکومت میںقائم کیے گئے تھے۔ فی الوقت پیپلز پارٹی کی قیادت کیلئے محفوظ دائرہ یہی ہے کہ وہ اپنی تنقیدی توپوں کا رُخ حکومت کی جانب ہی مرکوز کیے رکھے۔
پی ٹی آئی حکومت نے بھی اپنے لیے ایک مخصوص دائرہ تخلیق کر رکھا ہے۔ عمران خان اپنی پارٹی کے اس دائرے سے باہر نہیں دیکھتے اور نہ ہی ان کی کوئی کاوش اور ارادہ نظر آتا ہے کہ وہ قومی اہمیت کے امور اور مسائل پر اپوزیشن جماعتوں سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پی ٹی آئی اور حزب اختلاف کے مابین ابتدائی مکالمہ کابینہ اور پارٹی کی سینئر قیادت کے ذریعے ہو سکتا ہے؛ تاہم پی ٹی آئی کے اپنے اندرونی مسائل بھی ہیں۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ملک کی باقی جماعتیں تو اندرونی مسائل کا شکار ہوں اور پی ٹی آئی اس سے مبرا ہو۔ یقینا ایسے مسائل سے خود یہ جماعت بھی دوچار ہے۔ اس پارٹی میں ''نظریاتی کارکنان‘‘ کی بڑی تعداد موجود ہے ، یہ وہ اشخاص ہیں جنہوں نے یا تو 2011 سے پہلے یا 2011 اور 2017 کے دوران پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان ہی وہ رہنما ہیں جو پاکستانی سماج میں بنیادی سماجی و معاشی تبدیلی لا سکتے ہیں اور یہ کہ وہ زرداری اور نواز شریف کے مقابلے میں نئے خیالات کے نقیب ہیں۔ ان نظریاتی کارکنان کی اکثریت اب پی ٹی آئی حکومت کی کارگزاری سے مایوس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت کا فوکس عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کے پروگراموں کے بارے میں بیانات اور منصوبوں کا اعلان کرنے پر زیادہ ہے؛ تاہم جہاں تک بات ہے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے لوگوںکو بہتر شہری سہولیات فراہم کرنے اور منڈی کی قوتوں کو قابو میں رکھنے کی تو ان دونوں محاذوں پر اس کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ منڈی کی قوتیں اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے تمام معاملات کو من مرضی سے چلا رہی ہیں۔ ان کو یہ سہولت بھی ملی ہوئی ہے کہ وہ اپنے مفادات کے مطابق مختلف اشیا کی قیمتوں کو بڑھا رہی ہیں۔ پنجاب میں پارٹی کی حکومت کو قائم رکھنے کے بارے میں بھی اختلافات موجود ہیں۔ یہ اور ایسے ہی دیگر معاملات کی وجہ سے پی ٹی آئی اور خصوصاً عمران خان اس بات کے زیادہ خواہاں دکھائی نہیں دیتے کہ وہ اپنے مخصوص دائرے سے نکل کر حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ مکالمے کا آغاز کریں اور اپنے اور ان جماعتوں کے مابین موجود تضادات پر قابو پا کر جمہوریت کے امکانات کو روشن کریں۔ پی ٹی آئی حکومت کیلئے ایک اور ضروری چیز یہ ہے کہ اس کی وفاقی کابینہ میں ہم آہنگی ہو، اور ان کا زیادہ فوکس نعرے بازی کی بجائے ان کلیدی مسائل پر ہو جن پر قابو پا کر پاکستان کو غربت کے چنگل اور بیرونی معاشی امداد پر انحصار سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔
حزب مخالف کی جماعتوں نے حکومت کو نکال باہر کرنے کے لیے ایک اور حکمت عملی بھی اختیار کر رکھی ہے اور وہ ہے کل جماعتی کانفرنسوں کا انعقاد اور عوامی احتجاج کی دھمکیاں۔ آج کل کُل جماعتی کانفرنس بڑی عمومی سی چیز بن چکی ہے، اسے آپ کل جماعتی کی بجائے کثیر جماعتی کانفرنس بھی کہہ سکتے ہیں، اب تو ہر چار پانچ ماہ کے بعد کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت ایسی کانفرنسیں منعقد کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ کل جماعتی کانفرنسیں حزب اختلاف کے رہنمائوں کے لیے ایسے تقریری مقابلے کا روپ اختیار کر چکی ہیں جہاں یہ لوگ حکومت سے بڑے بڑے مطالبات کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی مجوزہ کل جماعتی کانفرنس سے بھی کچھ زیادہ ٹھوس نتائج نکلنے کا امکان دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اس کانفرنس میں شامل ہونے والی تمام جماعتیں عافیت کے اپنے اپنے متعین دائروں میں ہی رہنا پسند کریں گے۔ ان میں سے کوئی بھی اس دائرے سے نکل کر دلیرانہ سیاسی قدم اٹھانے پر تیار نہیں اور یہ دلیرانہ قدم یا تو یہ ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف کے مابین مثبت تعلقات قائم کرنے کی جانب قدم بڑھائے جائیں یا قومی اسمبلی میں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے یا گلیوں بازاروں میں احتجاج کر کے پی ٹی آئی حکومت کو مفلوج کر دیا جائے۔ اگلے تین مہینوں میں تو مندرجہ بالا کسی بھی آپشن پر عمل ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔
حزب مخالف کے لیے اس وقت بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ پی ایم ایل این اور پی پی پی، پی ٹی آئی حکومت پر تنقید سے ایک قدم آگے بڑھ کر پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی، اس کی زراعت و صنعت کو توانا بنانے اور بیرونی معاشی امداد پر انحصار کم کرنے کے متبادل اور حقیقت سے قریب تر پالیسی فریم ورک پیش کریں۔ اس حکمت عملی کو اختیار کر کے یہ جماعتیں آئندہ انتخابات میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے قابل ہو سکتی ہیں۔