اوپر جن اشعار کا حوالہ دیا گیا ہے، ان میں سے ایک شعر اپنی جگہ ایک دلچسپ چیز ہے ؎
روئے سخن کسی کی طرف ہو تو رو سیاہ
سودا نہیں‘ جنوں نہیں‘ وحشت نہیں مجھے
اس میں لطف یہ ہے کہ کوئی وضاحت نہیں کہ کس کا رُوسیاہ۔ جس کی طرف رُوئے سخن کا احتمال یا الزام ہے‘ اس کا یا شاعر کا اپنا۔ جبکہ مصرعہ اس طرح ہونا چاہیے تھا ع
روئے سخن اُدھر ہو اگر میرا رُو سیاہ
گزشتہ کالم میں اس شعر پر بات تو ہو چکی ہے کہ ؎
وعدہ آنے کا وفا کیجیے یہ کیا انداز ہے
تم نے کیوں سونپی ہے میرے در کی دربانی مجھے
لیکن ''در کی دربانی‘‘ پر بات نہ ہو سکی تھی۔ یہ گھر کی دربانی بھی ہو سکتا تھا اور اسے کتابت کی غلطی کے کھاتے میں بھی ڈالا جا سکتا تھا لیکن ایک تو کتاب کے ناشر ملک بک ڈپو اردو بازار لاہور نے کتاب کے آغاز میں یہ دعویٰ کر رکھا ہے کہ اردو دیوان کا عکسی ایڈیشن خود مرزا صاحب کے مصدقہ اور قلمی نسخہ کے مطابق ہے اور دوسرے عالی جناب نے ایک اور شعر میں بھی یہ کام دکھا رکھا ہے، یعنی ؎
بعد یک عمر ورع بار تو دیتا بارے
کاش رضواں ہی درِ یار کا درباں ہوتا
حالانکہ در کا دربان ایسے ہی ہے جیسے باغ کا باغبان۔ یعنی اگر خود درباں میں در موجود ہے تو اس دوسرے در کی کیا ضرورت تھی؟ مصرعہ ثانی اس طرح بھی لکھا جا سکتا ہے ع
کاش رضوان ہی مرے یار کا درباں ہوتا
ایک اور شعر ہے ؎
اسدؔ خوشی سے مرے ہاتھ پائوں پھول گئے
کہا جب اُس نے ذرا میرے پائوں داب تو دے
اس میں غالبؔ ایک تو محاورہ ہی غلط بلکہ الٹا باندھ گئے ہیں کیونکہ لغت میں خوشی سے ہاتھ پائوں پھولنے کا ذکر کہیں نہیں ہے۔ حوالے کے لیے دیکھیے فرہنگِ آصفیہ صفحہ نمبر 1392، جس میں ہاتھ پائوں پھولنے کے جملہ مطالب بیان کر دیے گئے ہیں مثلاً ''ورم یا سوجن کے باعث ہاتھ پائوں کا کام نہ دے سکنا، چلنے پھرنے کی طاقت نہ رہنا۔ بدحواس ہو جانا۔ سراسیمہ ہو جانا۔ خوف کے باعث طاقت نہ ہونا، وغیرہ وغیرہ۔ گویا ہاتھ پائوں کے پھول جانے کا خوشی سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تو ایسے ہی جیسے فرطِ غم میں قہقہے لگا کر ہنسنا یا خوش ہو کر زار و قطار رونا۔ اس میں دوسری قباحت مصرعۂ ثانی میں ہے کہ ذرا میرے پائوں داب تو دے۔ کیونکہ کہا یہی جاتا ہے کہ ‘‘ ذرا میرے پائوں تو داب دے‘‘ جو ردیف سے مجبور ہو کر کیا گیا ہے۔ تیسرا معاملہ اس شعر کا یہ ہے کہ یہ اجتماعِ ردیفین کا شکار ہے اور جس کا مطلب ہے کہ کوئی شعر جو مطلع نہ ہو لیکن بظاہر مطلع لگے کہ دونوں مصرعوں کے آخر میں ہم قافیہ الفاظ آتے ہیں۔ اور‘ اسے شعر کا عیب قرار دیا گیا ہے، جس کی مثالیں غالبؔ کے کلام میں جا بجا موجود ہیں، مثلاً ؎
نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہُوا ہو گا
قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا
.........
موت کی راہ نہ دیکھوں کہ بِن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں کہ نہ آئو تو بُلائے نہ بنے
بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اُٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے
ایک اور شعر ہے ؎
آتا ہے داغِ حسرتِ دل کا شمار یاد
مجھ سے مرے گُنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
غالبؔ لکھنا تو گناہوں کا حساب چاہتے تھے لیکن مصرعے میں گنجائش نہ تھی ورنہ حساب تو گناہوں کا ہوتا ہے۔ ایک گناہ کا کیا حساب ہو گا۔
کل والے کالم میں ذکر کیا تھا کہ غالبؔ نے لفظ ''سمجھیے‘‘ کو صحیح وزن میں نہیں باندھا۔ اب یہ شعر نظر پڑا ہے جس میں اسے صحیح وزن میں باندھا گیا ہے ؎
گنجینۂ معنی کا طلسم اُس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
ایک اور شعر ہے ؎
حیف اُس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالبؔ
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا
دونوں مصرعوں میں ''قسمت‘‘ کی تکرار کچھ اچھی نہیں لگتی اس لیے مصرعہ اول یوں ہوتا تو بہتر تھاع
حیف اُس چار گرہ کپڑے کی حالت غالبؔ
ضمناًایک بات یہ بھی ہے کہ اگر کسی شعر یا لفظ پر کوئی اعتراض اٹھایا جائے تو یار لوگ فوراً کہیں نہ کہیں سے کوئی سند لے آتے ہیں کہ فلاں شاعر نے چونکہ ایسا لکھا یا کہہ رکھا ہے اس لیے یہ جائز بلکہ درست ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ چونکہ فلاں صاحب نے یہ جھک مار رکھی ہے اس لیے اس جھک کو تسلیم کر لیا جائے اور درست مان لیا جائے حالانکہ صحیح‘ صحیح ہے اور غلط‘ غلط ۔ نہ صحیح کو غلط بنایا جا سکتا ہے نہ غلط کو صحیح۔اب آخر میں غالبؔ نے جن الفاظ کا وزن تبدیل کر دیا ہے یا ایک مختلف وزن کو صحیح قرار دیا ہے‘ اس پر بھی بات ہو جائے۔ ہم تو لاہور اور مور کو ہم قافیہ باندھیں تو اسے درست تسلیم نہیں کیا جاتا لیکن غالبؔ کے ہاں ایسے الفاظ بکثرت دستیاب ہیں جن کے وزن ہمارے نزدیک درست نہیں ہیں۔ مثلاً ؎
سلطنت دست بدست آئی ہے
جامِ مے خاتم جمشید نہیں
ہے تجلی تری سامانِ وجود
ذرہ بے پرتو خورشید نہیں
اسی طرح ایک غزل میں 'گفتگو‘، 'کہو‘، 'خو‘ اور 'دیدۂ دیدار جو‘ کو ہم وزن با ندھا گیا ہے۔اسی طرح ایک غزل میں 'کو‘ اور 'بُو‘ کو ہم قافیہ باندھا گیا ہے۔اس تحریر کا مقصد خدا نخواستہ غالبؔ کی اصلاح نہیں تھا۔
میں نے اس حوالے سے محض چند سوالات اٹھائے ہیں جن کا جواب میرے پاس نہیں ہے! وما علینا الاالبلاغ۔
آج کا مقطع
دور ہے سبزہ گاہِ معنی ظفرؔ
ابھی الفاظ کا یہ ریوڑ ہانک