آج پانچ اگست 2020ء کو نریندر مودی کی فاشسٹ راشٹریہ سیوک سویم سنگھ (آر ایس ایس) ذہنیت بھارتی مسلمانوں سمیت دنیائے اسلام پر ایک نیا وار کرنے جا رہی ہے۔ نریندر مودی جس نے ٹھیک ایک برس پہلے 5 اگست کو اپنی سات لاکھ سے زائد فوج اور ڈیڑھ لاکھ پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے پہرے میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو روندتے ہوئے اپنے زیر قبضہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت زبردستی تبدیل کرکے 80 لاکھ سے زائد کشمیریوں کی چیخوں اور ماتم میں ہندوتوا کے لئے جشن کا سماں باندھتے ہوئے پورے بھارت میں مسلم دشمنی کی آگ بھڑکا دی تھی‘ اب ٹھیک ایک برس بعد اپنی اسلام دشمنی کی سالگرہ منانے کے لئے دوبارہ پانچ اگست کو ہی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا افتتاح کرنے جا رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے بھارت بھر سے انتہا پسند ہندئوں کے قافلے ایودھیا کی جانب روانہ ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ با بری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر کرنے کی پروپیگنڈا مہم کو مسلم دشمنی کی علامت کے طور پر دنیا بھر میں پیش کرنے کے لئے انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سویک سویم سنگھ (آر ایس ایس) بھارتی وزیراعظم نرنیدر مودی کو ''بھارتی اردوان‘‘ کا خطاب پیش کرنے جا رہی ہے تاکہ وادی گلوان میں چین سے بری طرح شکست کھانے کے بعد مودی کی بھارت میں مقبولیت جس طرح گرنا شروع ہوئی ہے‘ اسے مسلم دشمنی کے نام سے انتہا پسندی کے انجکشن لگاتے ہوئے دوبارہ بحال کیا جائے۔ اردوان کا نام مودی کو اس لیے دیا جا رہا ہے کہ آیا صوفیہ مسجد کی بحالی کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں میں جس طرح ترک صدر اردوان کی پذیرائی ہو رہی ہے اسی طرح رام مندر کی تعمیر شروع کر کے نریندر مودی اپنے چہرے میں پڑنے والے کالے سیاہ دھبوں کو مٹانے کی کوشش کرنے جا رہا ہے۔ گزشتہ سال بالا کوٹ میں جابا کے مقام پر جعلی سرجیکل سٹرائیک کے دعوئوں کے اگلے ہی روز 27 فروری 2019ء کو لائن آف کنٹرول عبور کرنے پر اپنی ایئر فورس کے ونگ کمانڈر ابھینندن اور اپنے دو مگ21 جہاز پاکستان کے شاہینوں کے ہاتھوں تباہ ہوتا دیکھنے کے بعد اور پھر جون 2020ء میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے تھپڑوں اور گھونسوں سے نریندر مودی اپنے منہ پر لگنے والی کالک کو رام مندر کی تعمیر کے جشن سے دھونے کی ناکام کوشش کرنے جا رہا ہے۔
نریندر مودی کے ترکش میں اب بابری مسجد کی صورت میں یہی ایک تیر باقی ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سر جوڑ کر بیٹھی ہوئی ہے کہ اس تیر کو کس طرح چلایا جائے اور اس آخری تیر سے کون کون سے نشانے لینا ہوں گے کیونکہ بی جے پی جانتی ہے کہ اگر ان کا یہ آخری وار بھی خالی گیا تو ان کے پاس کوئی بہت بڑا اور تباہ کن ایڈوینچر کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا؛ تاہم انہیں یہ خطرہ بھی لاحق ہے کہ چین کے ساتھ لداخ میں پیدا ہونے والی صورت حال کے تناظر میں نازک پوزیشن پر کھڑے کسی بھی ایسے ایڈوینچر کی صورت میں بے پنا ہ خطرات اور تباہی بھارت کا مقدر بن سکتی ہے۔
خود کو دنیا کا سب سے بڑا سیکولر جمہوری ملک کہنے والے بھارت نے اپنے ملک کی سپریم کورٹ سے جس طرح رام مندرکے حق میں فیصلہ لیا ہے وہ بھی بھارت کی جمہوریت اور نظام انصاف کے دامن پر لگا وہ دھبہ ہے جسے بھارت کا تمام میڈیا اور ان کے تھنک ٹینک دھونا بھی چاہیں تو نہیں دھو سکیں گے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی بابری مسجد کی جگہ پر روی شنکر جیسے ہندوئوں کے روحانی پیشوا کا کیمپ لگا کر بیٹھ رہنا اور عدالت کے اندر بیٹھے ججوں کو ڈھکی چھپی دھمکی دینے کے لئے بھارت کے ہر میڈیا چینل کو ایک ہی انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہنا کہ ''اگر ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ نہ کیا گیا تو بھارت میں شام جیسی صورت حال پیش آ سکتی ہے کیونکہ اگر بھارتی سپریم کورٹ فیصلہ دیتی ہے کہ متنازع جگہ پر بابری مسجد ہی تھی تو بھارت اسے قبول نہیں کرے گا کیونکہ یہ پانچ سو برس تک مندر کے لئے لڑنے والی بھارت کے ہندوئوں کے لئے اس قدر تلخ گولی ثابت ہو گی کہ یہ ایک فائر ہی پورے بھارت خاک و خون میں نہلا جائے گا‘‘۔ یہ اسی دھمکی کا نتیجہ تھا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ میں صرف ایک مسلماں جج نذیر احمد نے اختلافی نوٹ لکھا جبکہ باقی سب ججوں نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے حق میں فیصلہ دیا، جسٹس نذیر احمد نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ ایودھیا میں رام مندر کی موجودگی تاحال غیر ثابت شدہ جبکہ بابری مسجد کی پانچ سو سال سے موجودگی اصل حقیقت ہے۔
ہندوئوں کے روحانی پیشوا روی شنکر فیصلہ آنے سے کئی دن پہلے ہی سپریم کورٹ کے باہر بیٹھ کر میڈیا کو رام مندر کی موجودگی کے حق میں دلائل دیے جا رہے تھے حالانکہ زیر سماعت کیس پر کوئی بھی بیان جو کیس پر اثر انداز ہو سکے‘ پوری دنیا کی اخلاقیات کے منافی ہے۔ بھارت کے مشہور سینئر صحافی راج دیپ سردیسائی نے اس پر یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ شری روی شنکر یہ سب کچھ اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں یا بھارتی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو کوئی پیغام دے رہے ہیں یا وشوا ہندو پریشد کی دھمکی سامنے لا کر فیصلے پر اثر انداز ہو رہے ہیں؟ اس کے بعد سب نے دیکھا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے وہی فیصلہ سنایا جس کی ڈکٹیشن روی شنکر سپریم کورٹ کے دیتا چلا آ رہا تھا۔ اس پر خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے روی شنکر کے مذکورہ بیان کو فیصلے سے نتھی کرتے ہوئے اسے معنی خیز قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر انگلیاں اٹھائیں کیونکہ روی شنکر نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ''ہم نے جس مدعے کو اٹھایا ہے‘ ہم اس میں کامیاب ہوئے ہیں اور ہمیں ''ادھر‘‘ سے مثبت خبریں مل رہی ہیں‘‘۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ کشمیر کے غاصبانہ قبضے کے زخم تازہ کرنے کے لیے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا سنگِ بنیاد رکھنے کے لیے پانچ اگست کا انتخاب کیا گیا لیکن اتر پردیش کے مسلم کش اور انتہا پسند وزیراعلیٰ ادتیہ ناتھ یوگی نے پانچ اگست کا دن منتخب کرنے کی توضیح پیش کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ ہم نے رام مندر کی تعمیرکے لیے چار پانچ جوتشیوں سے کسی ''شبھ گھڑی‘‘ کی مہورت نکالنے کی درخواست کر رکھی تھی اور حیران کن طور پر ہر ایک نے اس کے لئے پانچ اگست کا دن ہی شبھ جانا ہے۔
اب یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ رام مندرکی بنیادوں میں لگ بھگ دو ہزار فٹ نیچے ''ٹائم کیپسول‘‘ دفن کیا جائے گا تاکہ مستقبل میں اگر کوئی ''مندر‘‘ کی تاریخ کے بارے میں معلوم کرنا چاہے تو اسے تمام شواہد مل جائیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وشوا ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی راشٹریہ سیوک سویم سنگھ ذہنیت جب بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرتے ہوئے ٹائم کیپسول رکھے گی تو اس ٹائم کیپسول میں کون سی تاریخ دفن کی جائے گی؟
پانچ اگست کی تاریخ کا بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے اعلان ہوتے ہی مسلم قیادت نے رام مندر کی تعمیر کے خلاف احتجاج کیا تو بھارتی میڈیا نے رام مندر کی تعمیر کو آیا صوفیہ کے ساتھ نتھی کرنا شروع کر دیا۔ بھارت کی بات چھوڑیے‘ پاکستان کے اندر بیٹھے ہوئے بعض نام نہاد ترقی پسند لکھاری بھارتی میڈیا کی زبان بولتے ہوئے یہ بتانا شروع ہو گئے ہیں کہ پاکستان اور مسلم دنیا سے اگر رام مندر کی تعمیر پر کوئی احتجاج ہوتا ہے تو اس کا کس طرح مقابلہ کرنا ہے۔ بھارت کو یہ زبان ان امریکی اور بھارتی مراعات یافتہ ترقی پسندوں کی طرف سے دی جا رہی ہے جو لندن ، جنیوا، جرمنی اور امریکہ میں بیٹھ کر برسوں سے پاکستان اور نظریۂ پاکستان کی بنیادیں ہلانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔