تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     05-08-2020

ذہنی علاج اور معاشرتی رویے…( 2)

میں گزرتے گزرتے آپ کو ایک طنزیہ جملہ کہہ دیتا ہوں۔ آپ کو دکھ محسوس ہوتاہے لیکن صرف کچھ دیر کے لیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک شخص ذہنی طور پر بیمار ہے تو وہ اس قدر حساس ہو چکا ہوگا کہ میرا جملہ تھپڑ کے بجائے ایک پہاڑ کی طرح اس پہ گرے گا۔ وہ اس کا وزن سہہ نہ سکے گا۔عام انسان کو دوسروں سے جتنا حسد محسوس ہوتاہے، اسے اس سے ہزار گنا زیادہ محسوس ہوگا۔ کچھ لوگ طبعاً بھی زیادہ حساس ہوتے ہیں لیکن بیمار شخص لازماً بہت حساس ہوتا ہے۔ بخار میں بھی ہر شخص چڑچڑا ہوجاتاہے۔ ذہنی تکلیف کا شکار آخری حد تک حساس ہو جاتاہے۔عام لوگ جن باتوں سے ہنسی خوشی گزر جاتے ہیں، ذہنی بیماری کا شکار ان میں پِس کر رہ جاتاہے۔ 
وہ لوگ جو ذہنی تکلیف کا شکار ہیں،و ہ بتاتے ہیں کہ جسمانی طور پر جس قدر تکلیف سے انسان گزر سکتاہے، ذہنی اذیت اس سے ہزار گنا خوفناک ہوتی ہے۔آپ اندازہ اس سے لگائیں کہ ایک صحت مند شخص بھی کچھ دیر کے لیے جذباتی بحران میں سے گزرے تواس کی ساری توانائی ختم ہو جاتی ہے، کجا یہ کہ برسوں ذہنی بیماری سے گزرنا۔ وہ لوگ یہ بتاتے ہیں کہ جو خود ذہنی تکلیف سے نہیں گزرا، وہ کبھی بھی اس اذیت کو جان نہیں سکتا۔ آپ بائی پولر کے مریض پر غور کر لیں۔ وہ یا تو انتہائی اداس ہوتاہے یا شدّتِ جذبات سے تڑپ رہا ہوتاہے۔ اس کی پوری زندگی تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ 
بائی پولر کے مریض میں اکثر اتنی توانائی بھی نہیں ہوتی کہ معمولاتِ زندگی سر انجام دے سکے۔ اٹھ کر باتھ روم جانا اسے پہاڑ سر کرنے جیسا لگتاہے۔ پھر اچانک اس میں اتنی توانائی آجاتی ہے کہ وہ پاگلوں کی طرح چیخنے لگتاہے اور ساری دنیا فتح کرنے کے خواب دیکھتا ہے۔ جب وہ یہ سب خواب دیکھ چکتاہے اور جب ان خوابوں کو وہ حقیقت کی شکل دینے کے لیے باہر نکلتاہے تو اس وقت اچانک اس کی توانائی ختم ہو جاتی ہے۔ وہ پھر سے Depressed ہوجاتاہے۔
اگر آپ نے کبھی غصے پر غور کیا ہوتو آپ کو معلوم ہوگا کہ غصے میں دماغ سخت تکلیف کی حالت میں ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑائی کے بعد انسان کو شدید نقاہت محسوس ہوتی ہے۔ جسم اور دماغ کی ساری توانائی استعمال جو ہو جاتی ہے۔ اب جس بندے کو روزانہ غصے یا دوسرے شدید جذبات کے ادوار (Episodes)سے گزرنا پڑے تو انسان تصور ہی کر سکتاہے کہ وہ روز کس تکلیف سے گزرتا ہو گا۔ 
ایک نوجوان نے مجھے بتایا کہ روز ایک جگہ جا کروہ تصدیق کرنے پر مجبور ہے کہ کئی مہینے قبل جو پتھر اس نے سڑک سے دور پھینکا تھا، وہ واقعتاً اس نے پھینک ڈالا تھا اور اس کی وجہ سے کوئی ٹریفک حادثہ رونما نہیں ہوا۔اس کی باتوں سے مجھے شک ہوا کہ وہ شدید Obsessionکا شکار ہو چکا ہے اور کونسلنگ سے اس کا علاج ہرگز ممکن نہیں۔ وہ اس سٹیج سے ایک قدم دور ہے، جہاں صبح سے شام تک بیٹھا وہ ہاتھ دھوتا رہے گا۔ میں نے اسے فوراً ماہرِ نفسیات کے پاس پہنچنے کا کہا۔ بعد میں مَیں اس سے رابطے میں رہا۔وہ واقعتاً شدید Obsessionکا شکار تھا۔اسے اینٹی Obsessionڈرگز دی گئیں اور ساتھ ہی اس کی حالت بہتر ہونا شروع ہو گئی۔ وہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آیااور اس نے کہا کہ مجھے ایک نئی زندگی ملی ہے۔ وہ مجھے کہنے لگا کہ تا حیا ت وہ میرا احسان مند رہے گا۔ میں نے اس سے کہا کہ اگر احسان مند ہونا ہے تو پچھلے پچاس ہزار سال میں جمع ہوتے چلے جانے والے انسانی علم کا احسان مانو۔اسی نے ہمیں بتایا کہ بائی پولر پر کون سا اMood Stabilizerکارگر ثابت ہو سکتاہے۔ کون سا عنصر Obsessionختم کرتاہے۔ 
ہاں! دوا البتہ اس لڑکے کو مدتوں لینا ہوگی اور اس کے سائیڈ افیکٹس بھی ہوں گے۔ اگر وہ صرف کونسلنگ سے ٹھیک ہو سکتا تو اس سے بہتر بات اور کوئی نہیں تھی لیکن بات کونسلنگ سے آگے نکل چکی تھی۔ وہ ڈیڑھ عشرے تک سخت ذہنی دبائو سے گزرا تھا۔ ادویات کی مدد سے وہ ایک مکمل نارمل زندگی بسر کرنے کے قابل تھا ورنہ عین ممکن تھا کہ شدید جذباتیت کا شکار ہو کر کسی دن خودکشی ہی کر لیتا۔ 
مسئلہ یہ ہے کہ میں تونہیں جانتاکہ کسی کو دوا کی ضرورت ہے یا نہیں۔ یہ توماہرِ نفسیات ہی جانتا ہے۔ایک اہم بات یہ ہے کہ کرکٹ میں وقار یونس اور وسیم اکرم سے لے کر شعیب اختر تک ہر کھلاڑی کی اپنی ایک کلاس ہے۔دوسرے ان کی کلاس کو نہیں پہنچ سکتے۔ اسی طرح ہر سرجن کی اپنی ایک کلاس ہوتی ہے۔اسی طرح کسی بھی پروفیشنل کی اپنی ایک کلاس ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر ماہرِ نفسیات کی اپنی کلاس ہوتی ہے۔ ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز کے اعزازات رکھنے والے ڈاکٹر ملک حسین مبشر کی بھی اپنی ایک کلاس ہے۔ چالیس سال سے میڈیکل سائنس کے طلبہ کو وہ پڑھا رہے ہیں۔ مریض جیسے ہی ان کے کمرے میں داخل ہوتاہے اور جیسے ہی وہ اس سے چند جملوں کا تبادلہ کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی انہیں پورے یقین سے معلوم ہوجاتاہے کہ اسے کیا مرض لاحق ہے۔انہیں مریض کے اوپر تجربے نہیں کرنا پڑتے اور نہ ہی مختلف ادویات دے کر ان کے رزلٹ کی روشنی میں اگلا لائحۂ عمل طے کرنا پڑتا ہے۔کچھ لوگ شدید محنت سے امتحان پاس کر کے ڈگری تو لے لیتے ہیں لیکن ان میں انسان کے اندر جھانکنے کی ویسی صلاحیت نہیں ہوتی۔ وہ مختلف ادویات دے کر نتائج دیکھتے ہیں۔ 
ایک دوست کو میں ماہرِ نفسیات کے پاس لے کر گیا، جو بہت تکلیف دہ ذہنی حالت میں تھا۔اسے مذہبی طور پر گستا خانہ خیالات آتے تھے اور اس کے بعد اس پر یہ کیفیت طاری رہتی تھی کہ میرا ایمان ضائع ہو گیا ہے۔اس کا کہنا یہ تھا کہ یہ تو خیالات ہیں‘ ادویات انہیں دماغ میں پیدا ہونے سے کس طرح روک سکتی ہیں۔ پھر جیسے ہی اس کا انہوں نے علاج شروع کیا، یہ خیالات آنا کم ہو گئے کہ ذہنی کیفیت جو بہتر ہو گئی لیکن اس نے علاج ادھورا چھوڑ دیا۔ وہ آج بھی کہتا ہے کہ میری تکلیف میں بہت کمی آئی اور اگر میں ان کے پاس نہ جاتا تو شاید اب تک ختم ہو چکا ہوتا لیکن علاج سے اس کی یادداشت کم ہوگئی۔ 
اصل میں جب بھی کوئی بندہ کسی بھی ذہنی یا جسمانی بیماری کا شکار ہو جاتاہے تو سمجھیں کہ نقصان تو اب ہو کر رہنا ہے بلکہ ہو چکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ علاج سے اس نقصان میں کس حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔
بس یہ ہے وہ نکتہ کہ پوری میڈیکل سائنس جس کے گرد گھومتی ہے۔ ڈاکٹر کو یہ دیکھنا ہوتاہے کہ کوئی بھی ٹریٹمنٹ دینے کا نقصان کتنا ہے اور نہ دینے کا کتنا۔ بہت سے لوگ بالکل ٹھیک ہو جاتے ہیں اور صحت مند زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ اگر آپ ادویات کے ذریعے ایک مریض کو خودکشی کے ارادے سے روک لیتے ہیں اور اگر وہ چھوٹی موٹی تکالیف کے باوجود معمولاتِ زندگی سر انجام دینے کے قابل ہو جاتاہے تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ جو شخص ایک انسان کی جان بچالیتاہے، وہ گویا پوری انسانیت کو مرنے سے بچا لیتاہے۔
مصیبت میں بھی اللہ کی طر ف سے انسان کی خیر چھپی ہوتی ہے۔ اگر ایک شخص ذہنی بیماری سے لڑ لیتاہے تو اس سے زیادہ مضبوط شخص دنیا میں اور کوئی نہیں ہوتا۔ وہ انتہائی سخت جان اور محنتی بن جاتاہے۔ زندگی کے چھوٹے موٹے مسائل اسے محسوس ہی نہیں ہوتے۔ایک بیمار نے مجھے بتایا کہ اللہ نے ذہنی دبائو ڈال کر اسے فرعون بننے سے روک رکھا ہے ورنہ جب وہ صحت مند تھا تو فرعون ہی تھا!واقعی خدا کی حکمتیں وہی جانتا ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved