تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     05-08-2020

یہ کھیل ہے ہمت کا

کون سا معاملہ ہے جو ہم سے منصوبہ سازی کا تقاضا نہیں کرتا؟ زندگی بھر ہمیں سوچنا پڑتا ہے، منصوبے بنانا پڑتے ہیں۔ یہ سب کچھ فطری ہے۔ دنیا اِسی طور چلتی رہی ہے۔ ہر معاملہ ہم سے متعلقہ مقدار و معیار کے ساتھ غور و فکر کا طالب ہے۔ سوچے سمجھے بغیر کام کرنے کی صورت میں مطلوب نتائج شاذ و نادر ہی برآمد ہو پاتے ہیں۔ شاندار کامیابی کے لیے لازم ہے کہ انسان ہر معاملے کے تمام پہلوؤں کو نظر میں رکھے اور معقول طرزِ فکر و عمل کے ساتھ آگے بڑھے۔ 
کامیابی کی بنیادی شرائط کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد اپنے حالات درست کرنے کے لیے شخصی ارتقا اور کامیابی کے بارے میں بہت کچھ پڑھتے ہیں۔ شخصی ارتقا اب ایک باضابطہ شعبہ ہے جس سے ہزاروں لکھنے اور بولنے والے وابستہ ہیں۔ مطبوعہ مواد کے ساتھ ساتھ سمعی و بصری آلات کی مدد سے بھی کروڑوںافراد بہتر زندگی کی تحریک پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کامیاب زندگی بسر کرنے کے لیے تحریک کا پایا جانا لازم ہے۔ جب تک کچھ کرنے کی تحریک نہ ملے تب تک انسان عمل کی طرف مائل اور راغب نہیں ہوتا۔ مثبت سوچ کے ساتھ کچھ کرنے کی تحریک پانے کے لیے لوگ سو طرح کے جتن کرتے ہیں۔ کامیابی اور شخصی ارتقا کے موضوع پر لکھنے والوں کو پڑھ کر اور اُن کی تقریریں یا گفتگو سن کر کچھ نیا کرنے کی تحریک پانے کی کوشش عام ہے۔ نئی نسل کو ڈھنگ سے کچھ کرنے کے لیے جو تحریک درکار ہے‘ وہ آسانی سے میسر نہیں کیونکہ انہماک کی راہ میں حائل ہونے والے عوامل بہت سے ہیں۔ قدم قدم پر ایسے معاملات ہیں جو انسان کو غور و فکر کی راہ سے ہٹادیتے ہیں۔ کسی بھی اہم معاملے پر خاطر خواہ حد تک توجہ مرکوز رکھنا فی زمانہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ نئی نسل کو فکر و عمل کی راہوں سے دور لے جانے والے معاملات بہت زیادہ ہیں۔ ایسے میں خاطر خواہ انہماک یقینی بنانا اور پھر اُسے برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہے۔ غیر معمولی انہماک کسی خاص زمانے تک محدود رہنے والی صفت نہیں بلکہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ جو نوجوان کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں اُن کے لیے آگے بڑھنا آسان نہیں۔ اُنہیں بہت سے معاملات میں ذاتی پسند کے متعدد امور کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ 
کچھ نیا اور منفرد کرنے کی تحریک اگر کسی نہ کسی طور مل جائے تب بھی انسان کبھی کبھی زیادہ دور نہیں جا پاتا۔ کیوں؟ پیشرفت کے لیے کچھ کرنے کی تحریک پانے کے ساتھ ساتھ ایک اور صفت کا پایا جانا بھی لازم ہے۔ جب تک وہ صفت نہ ہو انسان ڈھنگ سے کچھ کرنے کے قابل نہیں ہو پاتا۔ یہ وصف ہے ہمت۔ بہت سے لوگ کچھ کرنے کا ذہن تو بنالیتے ہیں‘ مطلوبہ اہلیت بھی پیدا کرلیتے ہیں‘ حالات پر نظر بھی رکھتے ہیں مگر اُن میں ایک قدم آگے جاکر‘ تھوڑا سا خطرہ مول لیتے ہوئے کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ہمت وہ غیر معمولی وصف ہے جو کامیابی کی راہ پر بڑھتے جانے کے لوازم میں سے ہے۔ 
ویسے تو خیر ہمت زندگی کے ہر معاملے میں ایک بنیادی ضرورت ہے مگر کیریئر کے معاملے میں اِس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ بہت سے نوجوانوں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کسی خاص شعبے میں آگے بڑھنے کے حوالے سے ذہن بنالینے کے بعد بھی وہ شش و پنج میں مبتلا رہتے ہیں۔ ہمت کے معاملے میں ناکام رہنے کی صورت میں کیریئر داؤ پر لگ جاتا ہے۔ کیریئر کے لیے کسی نہ کسی مرحلے پر مخصوص ہمت کے ساتھ فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ فیصلے کی گھڑی آگئی ہو تو سوچنے، ٹھہرنے اور ٹھٹھک کر دیکھنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ بیشتر معاملات میں انسان کو واضح فیصلہ کرنے سے کوئی نہ کوئی خطرہ روکتا ہے۔ ہر معاملے میں تھوڑا بہت خطرہ ضرور پوشیدہ رہتا ہے۔ اگر کچھ کرنا ہے تو خطرات سے کھیلنے کا ہنر سیکھنا ہی پڑے گا۔ دنیا میں کوئی بھی معاملہ مکمل طور پر محفوظ یا خطرات سے پاک نہیں۔ ہر معاملے میں انسان کو ایک خاص حد تک خطرہ مول لینا ہی پڑتا ہے۔ بہت کچھ ہے جو ہمارے علم میں نہیں‘ جو معاملات ہماری نظر سے پوشیدہ رہیں وہ ہمارے کے لیے ایک خاص حد تک خطرے کا پہلو رکھتے ہی ہیں۔ کچھ نہ کچھ تو داؤ پر لگتا ہی ہے۔ گویا ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ خطرات مول لینا ہی پڑتے ہیں۔ 
کیریئر میں ٹائمنگ غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ ٹائمنگ کا مطلب یہ ہے کہ انسان بروقت فیصلے کرے اور پھر اُن پر عمل بھی بروقت کرے۔ اگر ٹائمنگ کے معاملے میں کوتاہی برتی جائے تو معاملات کو الجھنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر بروقت فیصلے ہی طلب نہیں کرتی‘ اُن پر بروقت عمل کا تقاضا بھی کرتی ہے۔ 
ہمت کا معاملہ کبھی کبھی یوں بھی پیچیدہ شکل اختیار کر جاتا ہے کہ تمام معاملات اِس کے گرد گھومنے لگتے ہیں۔ کھیلوں کا کوئی بھی مقابلہ دیکھ لیجیے۔ وہی کھلاڑی کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں جو جی داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک قدم آگے جاکر کچھ کرتے ہیں۔ کسی بھی کھیل کا ہر مقابلہ اُسی کے نام رہتا ہے جو مقابلے کے کسی خاص یعنی اہم مرحلے میں روایتی سوچ ترک کرتے ہوئے تھوڑا بہت خطرہ مول لیتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔ مقابلہ انفرادی ہو یا اجتماعی‘ تھوڑا سا آگے بڑھ کر یعنی خطرہ مول لے کر کچھ کر گزرنا ہی فرق پیدا کرتا ہے۔ کھلاڑی ہوں یا سپاہی، تاجر ہوں یا کار یگر، اساتذہ ہوں یا تلامذہ ... سبھی کے لیے کامیابی اُس وقت ہی ممکن ہو پاتی ہے جب وہ عمومی ڈگر سے ہٹ کر چلتے ہیں یعنی تھوڑا بہت خطرہ مول لیتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور نتائج کے بارے میں زیادہ پریشان نہیں ہوتے۔ 
ہمت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان نتائج کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہ کرے اور کچھ بھی کر گزرے۔ بے ذہنی کے ساتھ بروئے کار لائی جانے والی ہمت خاطر خواہ نتائج پیدا نہیں کرتی۔ ہمت سے کام لینے کے لیے بھی ذہن سے کام لینا پڑتا ہے۔ ہم زندگی بھر ایسے لوگوں کو دیکھتے رہتے ہیں جو دوسروں سے ہٹ کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ اُن میں غور و فکر کی صلاحیت اور رجحان ہی نہیں پایا جاتا، ہمت سے کام لینے کا جذبہ بھی پروان چڑھتا رہتا ہے۔ یہ جذبہ زندگی کو منفرد بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اُنہیں دیکھ کر بہت سوں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ہمت سے کام لینا زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں یومیہ بنیاد پر بھی ہمت سے کام لیتے ہوئے ایسے فیصلے کرنا پڑتے ہیں جن میں تھوڑا بہت خطرہ ہوتا ہے۔ انسان رفتہ رفتہ سیکھ ہی جاتا ہے کہ کب، کہاں کتنی ہمت سے اور کس طرح کام لینا ہے۔ آنکھ بند کرکے آگ میں کود پڑنے کا نام ہمت نہیں۔ ہمت بہت حد تک ذہانت کا امتحان بھی ہے۔ کھیلوں میں بھی یہی تو ہوتا ہے۔ کھلاڑی معاملات کا جائزہ لینے کے بعد ایسے لمحے کا انتظار کرتا ہے جب تھوڑا بہت خطرہ مول لینے سے سب کچھ داؤ پر لگنے کا احتمال نہ ہو۔ جب وہ لمحہ آتا ہے تب وہ ہمت سے اس طور کام لیتا ہے کہ فریقِ ثانی حیران رہ جاتا ہے۔ ہمت کا سب سے بڑا کارنامہ فریقِ ثانی کو حیران کردینا ہی تو ہے۔ 
معیاری زندگی وہ ہے جس میں حالات کے تقاضوں کو نبھانے کا وصف پایا جائے۔ حالات کا سب سے بڑا تقاضا ہمت کو بروقت بروئے کار لانا ہے۔ کامیاب زندگی کے حقیقی خواہشمند مرتے دم تک حالات پر نظر رکھتے ہیں اور جہاں جو کچھ کرنا لازم ہو وہاں وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ ہمت اِسی کا نام ہے کہ موقع کی مناسبت سے جامع ترین عمل یا ردِعمل پیش کیا جائے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں ہر طرف چیلنجز ہیں۔ ہر چیلنج دراصل آپ کے لیے امتحان ہے۔ وقت کا‘ حالات کا بدلنا آپ کے لیے کوئی نہ کوئی چیلنج ضرور کھڑا کرتا ہے۔ جو لوگ وقت کے پیدا کردہ چیلنج سے نمٹنے کے معاملے میں دانش سے کام لیتے ہوئے موزوں ترین فیصلہ کرتے ہیں وہ کامیاب رہتے ہیں۔ موزوں ترین فیصلہ یعنی ہمت سے کام لیتے ہوئے دوسروں سے کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ۔ اس طور جینے ہی میں زندگی کا حقیقی حُسن پوشیدہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved