تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     06-08-2020

غالبؔ کو پڑھتے ہوئے… اور ابرار احمد کی نظم

اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ غالبؔ کی پشت پر بیدلؔ دہلوی جیسا بڑا شاعر کھڑا ہے جس سے غالبؔ نے بے پناہ فیض حاصل کیا۔ 488 صفحات پر مشتمل غالبؔ انسٹیٹیوٹ نئی دہلی کی جانب سے شائع کی جانے والی ڈاکٹر سید احسن الظفر کی کتاب ''بیدؔل و غالبؔ‘‘ میں بیسیوں ایسے اشعار کا حوالہ دیا گیا ہے جو بیدؔل کے اشعار سے متاثر ہو کر غالب نے لکھے۔ اس کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی اپنی مشہور تصنیف ''یادگارِ غالبؔ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ غالبؔ ساری عمر 'بیدلیّت‘ سے باہر نہیں نکل سکے۔ خیر! یہ تو استاد اور شاگرد کا معاملہ ہے، ہمارا اس سے کیا لینا دینا ہے جبکہ ہم تو وہی ٹٹ پونجیے کے ٹٹ پونجیے اور بے مرشدے ہی رہ گئے کہ نہ ہمارا کوئی استاد تھا نہ شاگرد۔
1957ء میں جب میں نے شعر گوئی کی اس وادیٔ پُرخار میں قدم رکھا تو اس وقت ناصر کاظمی کا طُوطی بول رہا تھا۔ میں نے کچھ سیکھنے کے بجائے اس کے ساتھ باقاعدہ اینٹ کھڑکا شروع کر دیا، (جو اب میرے نزدیک مناسب نہ تھا) اور ایسے شعر بھی کہتا رہا ؎
سبھی تسلیم ہے اے معتقدِ میرؔ مجھے
اپنے بھی شعر کی دکھلا کبھی تاثیر مجھے
.........
اپنی ہی کرامات دکھاتے رہے سب کو
سرقہ نہ کیا معجزۂ میرؔ سے ہم نے
.........
سب سمجھتے ہیں کہ جس سے ملتا جلتا رنگ ہے
لاکھ تو کہتا پھرے میرا تو اپنا رنگ ہے
وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔میں یہ بات پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ سکول کے زمانے میں مَیں نے کلیاتِ میر اور دیوانِ غالبؔ مرقع چغتائی خریدا۔ اور ابھی ایک بار ہی دیوانِ غالب پڑھا تھا کہ کوئی اٹھا کر لے گیا۔ اسی طرح کلیات میرؔ کو بھی سرسری دیکھا اور وہ اپنے دوست اسرار زیدی کو دے کر خدا کا شکر ادا کیا کیونکہ مجھے پتا تھا کہ میں نے شاعری کر نی ہے اور اگر یہ دو جن میرے سر پر سوار رہے تو میں شاعری کر چکا۔ چنانچہ میری شاعری میں جس بے راہ روی اور آوارہ خیالی کا ذکر کیا جاتا ہے اس کی وجہ بھی شاید یہی تھی کہ میں اس میدان میں اپنے آپ ہی بگٹٹ بھاگ کھڑا ہوا تھا۔
میرؔ پر میرا اعتراض یہ تھا کہ اس کے ہاں کڈھب الفاظ کی مجھے کثرت نظر آئی اور بالعموم سلاست کی کمی کو میں نے محسوس کیا لیکن جو اشعار سلیس زبان اور انداز میں تھے وہ اپنی جگہ لاجواب ہیں۔ برادرم شمس الرحمن فاروقی کے بقول میرؔ نے اپنی شاعری میں سب سے زیادہ الفاظ استعمال کیے ہیں جبکہ شیکسپیئر کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے۔
تاہم‘ میں نے غالبؔ سے دوبارہ رجوع کیا اور اس کی مشکل پسندی کے باوجود یہ محسوس کیا کہ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہے کیونکہ غالبؔ جہاں غالبؔ ہے کوئی دوسرا اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچتا۔ میں نے آتشؔ، سوداؔ، جرأتؔ، مصحفیؔ اور داغؔ وغیرہ کو بہت کم پڑھا ہے اس لیے کہ غالبؔ کے بعد یہ سارے لوگ مجھے بس فالتو سے لگے۔ حتیٰ کہ غالبؔ تک پہنچنے کے لیے یہ حضرات سیڑھی کا کام بھی نہیں دیتے۔ ان میں سے شاید ہی مجھے کسی کا کوئی شعر یاد ہو، ماسوائے مصحفیؔ کے اس شعر کے ؎
تھا سُرخ پوش وہ گل شاید چمن کے اندر
شعلہ سا شب پھرے تھا سر و سمن کے اندر
اور لطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے دوست جمیل یوسف نے مصحفیؔ کا جو انتخاب شائع کیا ہے اس میں یہ شعر موجود ہی نہیں!
غالبؔ کے مطالعہ کے دوران جہاں جہاں میں کسی الجھن کا شکار ہوتا ہوں، اس کا نوٹس بھی لیتا ہوں اور یہ بھی اس کے ساتھ اپنائیت ہی کی وجہ سے ہے ورنہ آج کے زمانے میں کون کسی کا نوٹس لیتا ہے۔ اس کالم پر فیڈ بیک آنا شروع ہو گیا ہے اور میں اسے بھی غنیمت سمجھتا ہوں اور سوچتا ہوںکہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
ڈان کیخوٹے کے لیے
ڈان۔۔۔۔۔!
دنیا بہت کمینی ہے
اور ظالم
آہنی سینے پر روکتی ہے
کم زور ہتھیاروں کے وار
تم۔۔۔۔۔مریل گھوڑے، لاغر بدن
اور کند تلوار کے ساتھ
اسے کاٹنے نکل کھڑے ہوئے
ان دیکھے دشمنوں
اور سورمائوں سے لڑتے
خیالی ریاستوں کو
تاراج کرتے رہے
فقیروں کو
تاج کوئی نہیں پہنایا کرتا
نہ سادہ دلوں کو
کہیں سلامی دی جاتی ہے
تمہاری، ڈالینیا،
الوہی حسن کا
بے مثال شاہ کار ہے
موجود کہیں نہیں
لیکن اس کے لیے
جان دی جا سکتی ہے!
تمہاری در بہ دری
میرے اندر تلواریں چلاتی رہی
اور تمہارے آنسو
میرے تکیے پر گرتے رہے
ڈان کیخوٹے!
کیا تم بھول گئے
کہ دنیا خواب ہی سہی
خواب دیکھنے والوں کے لیے نہیں ہے
اور اب تم
گہری تاریک نیند میں لپٹے
ہم جیسوں کی رفاقت میں
پھر سے
محوِ خواب۔۔۔۔۔ رہنے لگے ہو
آج کامطلع 
میں سانس لے نہیں سکتا‘ ہوا رکاوٹ ہے
رکا ہوا ہوں کہ خود راستہ رکاوٹ ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved