ایک ماہ میں بہت کچھ بدل گیا ہے ! قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں شریک ہونے کے لیے ہمارے ایم این اے حضرات جس طرح کی قیمتی گاڑیوں سے اُتر رہے تھے اس سے لگتا نہیں تھا کہ یہ ملک 60 ارب ڈالرز کا مقروض ہے۔سیاست ایک کاروبار بن کر رہ گئی ہے۔ کچھ مال لگائو اور ہزار گنا واپس لو۔شک کی گنجائش تھی تو ایک سینئر افسر نے ایک واقعہ سنا کر پوری کر دی۔ اسے گیلانی صاحب کے دور میں چیئرمین سی ڈی اے بننے کی پیشکش کی گئی اور ’نذرانہ‘ سات کروڑ روپے مانگا گیا ۔ اس غریب افسر کا کہنا تھا کہ چالیس ہزار روپے دے سکتا ہوں اور وہ بھی کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی ہوسکتی ہے۔ چند ماہ قبل ایک پرائیویٹ پارٹی کو اجازت دی گئی کہ وہ پانچ ارب روپے کے ڈالرز پاکستانی مارکیٹ سے خرید کر کانگو بھیج دے۔ یہ ڈالرز سرکاری طور پر کانگو بھیجے جانے تھے۔ یہ سرکار کی سرپرستی میں منی لانڈرنگ کی بدترین مثال تھی۔ ملک میں ڈالر کم ہورہے ہیں، ریٹ اُوپر جارہا ہے‘ ان حالات میں پانچ ارب روپے کے ڈالر خرید کر کانگو بھیجنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اگر پانچ ارب روپے سے ڈالروں کی خریداری سے ڈالر کی مقامی مارکیٹ میں قیمت ایک پیسہ بھی بڑھ جائے تو اندازہ کریں کہ ساٹھ ارب ڈالر کے قرضوں پر کتنا فرق پڑے گا۔ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ ایک پارٹی کی منی لانڈرنگ میں مدد کرنا ضروری تھی۔ اپنے ایک پائو گوشت کے لیے پورے اونٹ کو ذبح کرنے کی کوشش کی گئی۔ کیا اسحاق ڈار اس مسئلے پر غور کریں گے یا ڈالروں کی خریداری کا یہ سکینڈل بھول جائیں گے۔ کیا لوٹ مار کا یہ نظام یونہی چلتا رہے گا؟ ایک بار گیلانی صاحب سے گزارش کی تھی کہ انسانی حقوق کا سیل وزیراعظم ہائوس میں قائم کریں۔ ایک گھنٹہ روزانہ اخبارات کا خود مطالعہ کر کے دیکھیں کہ کسی کے ساتھ کہیں زیادتی تو نہیں ہورہی۔ کہیں شکایت دیکھیں تو اسے اپنے اچھے افسروں کی ٹیم کے سپرد کریں‘ اس کا فالو اپ کریں اور پھر دیکھیں کہ کیا نتائج نکلتے ہیں۔ سن کر بولے: اور سنائیں گھر میں سب ٹھیک ہے؟ آج اپنا جوان بیٹا غائب ہے تو شاید وہ دوسروں کا دکھ بہتر طور پر سمجھ پائیں گے۔ شاید خدا ہمیں اس لیے آزمائش میں ڈالتا ہے کہ ہم کم وسیلہ لوگوں کے دکھ کو سمجھ سکیں۔ ایک خبر نظر سے گزری اور عجیب سی بے چینی محسوس ہوئی۔ دنیا اخبار کے رپورٹر احمد بھٹی کی مہربانی کہ اس نے اس دور میں بھی اس خبر کو قابلِ اشاعت سمجھا۔ اڈیالہ جیل میں قید برطانوی نژاد خاتون خدیجہ شاہ کی نومولود بچی ڈی ایچ کیو ہسپتال راولپنڈی کی غفلت کی وجہ سے خسرے کا شکار ہوگئی۔ اسے مئی 2012ء میں بینظیر بھٹو ائرپورٹ سے منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے وقت وہ حاملہ تھی اور دوران قید اس نے ایک بچی کو جنم دیا۔ اس بچی کو حفاظتی ٹیکے لگائے بغیر ڈی ایچ کیو ہسپتال راولپنڈی سے جیل بھیج دیا گیا۔ اس قیدی خاتون کے پہلے بھی دو بچے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی ماں اس کام کے لیے کیوں مجبور ہوئی؟ اُس کی دردناک کہانی کیا ہے؟ شاید کبھی معلوم نہ ہوسکے۔ دو بچے ماں سے دور اور تیسری بچی خسرے کے ہاتھوں موت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ایک اور کہانی… سیالکوٹ میں ایک باپ نے تین جوان بچوں اور ان کی ماں کو قتل کر کے خودکشی کر لی۔ سرجیکل آلات بنانے کے کارخانے کا مالک دو سال سے قرض میں ڈوب گیا تھا۔ چلیں اب سب کا قرض ادا ہوگیا ! ہمارے حکمران حضرت عمرؓ کی مثال دہراتے رہتے ہیں کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو قیامت کے روز کیسے حساب ادا ہوگا۔ والدین کو ان حالات پر مجبور کردینا بھی ایک قتل ہے۔ کیا اس کے ذمہ دار حکمران نہیں سمجھے جائیں گے؟ اس ملک میں دیوالیہ پن کا کوئی قانون موجود نہ ہونے کی وجہ سے تین بچوں کا قتل ہوا۔ لوگوں کو معاشی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر مضبوط کیا جانا چاہیے۔ یہ خون خوار دنیا ہمیشہ سے طاقت ور کی دنیا رہی ہے۔ کمزور کو کچل کر آگے بڑھا جاتا ہے، رک کر اس کی طرف مدد کا ہاتھ نہیں بڑھایا جاتا۔ بچوں سے یاد آیا‘ لیہ میں اپنے گائوں کی چھوٹے بچوں کی ماں حسینہ بی بی کے بارے میں کالم لکھا تھا جس پر امریکہ سے اعجاز صاحب نے مدد کی۔ شوکت خانم میں کام کرنے والے ایک نیک دل گمنام نوجوان نے میرا کالم پڑھ کر ذاتی کاوش کر کے اس عورت کا علاج شروع کرایا۔ اب بہن کا گائوں سے فون آیا ہے کہ اس کے پرائمری سکول کے باہر پانچ چھوٹے بچے بیٹھے ہیں ۔ وہ ان کو کیا جواب دے ؟ میں نے پوچھا کیا ہوا ؟ بتانے لگی ان کا باپ ایک ڈرائیور ہے اور بیمار ہے۔ اسے ہر جگہ چیک کرایا لیکن درست نہیں ہورہا ۔سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ اب پتہ چلا ہے اسلام آباد کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں آٹھ لاکھ روپے کے خرچ سے آپریشن ہوگا۔ اس غریب خاندان کے پاس اپنے گزارے کے لیے دو کنال زمین تھی‘ وہ بیچ دی لیکن پیسے پھر بھی پورے نہیں ہوئے۔ بہن ناراض ہونے لگی کہ تم ان کے فون تک نہیں سنتے۔ یہ لوگ کدھر جائیں۔ تم بڑے آدمی بن گئے ہو۔ یہ امید رکھ کر بیٹھے ہیں۔ ان کے باپ کی زندگی کا سوال ہے۔وہ ہماری لاڈلی بہن ہے لہٰذا ہم سب بھائی اس کا غصہ برداشت کرتے ہیں کیونکہ اُسی نے اپنی تنخواہ سے ہمیں پڑھایا ہے۔ میں چپ رہا تو بہن نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ انہیں تمہارے پاس بھیج رہی ہوں‘ ان کا کچھ کرو۔ میں ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنے سکول سے ناامید کر کے واپس نہیں بھیج سکتی۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ میں ہر سال جو دس لاکھ روپے سے زیادہ کا انکم ٹیکس یہ سوچ کر ادا کرتا ہوں کہ ان سے غریب لوگوں کا مفت علاج ہوگا ، وہ میں خود ان پر خرچ کر سکوں تاکہ یہ رقم سیاستدانوں کی سکیورٹی اور ذاتی عیاشیوں پر خرچ نہ ہو۔ اگر ان غریبوں کا علاج پرائیویٹ ہسپتالوں میں ہی لاکھوں روپے سے ہوگا تو پھر ریاست ہم سے کیوں ٹیکس لے رہی ہے ؟ بہن کی ڈانٹ سننے کے بعد سوچ رہا ہوں کہ سیالکوٹ کے قرض تلے ڈوبے باپ کے ہاتھوں مارے گئے تین بچوں کے حقیقی قاتل کون ہیں؟ اڈیالہ جیل میں قید ماں کی خسرے کی وجہ سے موت کی طرف بڑھتی نامولود بچی سے لے کر اپنے گائوں کے ان پانچ چھوٹے بچوں کا کیا کروں جو باپ کی زندگی کے لیے میری بہن کے سکول سے اٹھ کر اپنے تاریک اور اداس کچے گھر جانے کو تیار نہیں ہیں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved