ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ جانوروں کے ساتھ بدترین سلوک کرتے ہیں۔ محض کھیل تماشے کے لیے جانوروں پر ظلم کیا جاتا ہے، ان کو مارا پیٹا جاتا ہے، راہ چلتے اکثر بچے کتے‘ بلی مرغی اور خرگوش وغیرہ کو پتھر مار کر خوش ہوتے ہیں، کچھ ان کی دم کے ساتھ مختلف چیزیں باندھ دیتے ہیں جب وہ جانور جب ڈر کر بھاگتے ہیں تو بے حس لوگ ان کی وڈیو بناکرخوش ہوتے ہیں۔ اس ہی طرح کتے‘ تیتر‘ بٹیر اور مرغوں کی لڑائی کرائی جاتی ہے جو جانور مر جاتا ہے‘ اس کا مالک ہار جاتا ہے۔ جانوروں کی اس لڑائی میں جوا بھی کھیلا جاتا ہے جو ایک حرام فعل ہے۔ بہت سے پرندے دنیا بھر سے پاکستان ہجرت کرکے آتے ہیں لیکن یہاں ان کا شکار کر لیا جاتا ہے۔ اس سے ایک طرف ان پرندوں کی نسل کشی ہو رہی ہے تو دوسرا اس سے ایکو سسٹم پر بھی بہت برا اثر پڑ رہا ہے مگر حکومت کی اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بندروں‘ ریچھ اور بعض دوسرے جانوروں کو جنگلوں سے پکڑ کر مار مار کر سدھایا جاتا ہے، پھر ان کو گلی گلی نچوایا جاتا ہے۔ بہت سے امیر لوگوں نے شیر‘ چیتے اور اژدھے گھروں میں پال رکھے ہیں اور محض شو مارنے کی غرض سے ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جاتی ہیں۔ یہ جانور اپنے اصل رہن سہن اور قدرتی ماحول سے دور ہونے کی وجہ سے معتدد بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور جلدی مر جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارے ہاں غیر ملکی نسل کے کتے رکھنے کا بھی رواج عام ہو گیا ہے۔ پاکستان میں گرمی نسبتاً زیادہ پڑتی ہے اور ٹھنڈے علاقوں کے جانور یہاں مر جاتے ہیں لیکن لوگ محض شو شا کے لیے مہنگے دام ان جانوروں کو خرید لیتے ہیں اور پھر ان کو مناسب توجہ نہیں دیتے اور یہ گرمی اور لاپروائی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔جانور بول نہیں سکتے لیکن وہ جاندار ہیں، انہیں بھی تکلیف اور درد ہوتی ہے۔ جانور بھی اپنی ماں‘ اپنے خاندان سے الگ ہونے پر رنجیدہ ہوتے ہیں۔ ان کو تنگ و تاریک جگہ پر رکھنا ان کو خوف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ پنجرے ان کے اندر کی شرارت کو ختم کر دیتے ہیں۔ خوراک کی کمی ان کو نڈھال کر دیتی ہے۔ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے وہ بیمار ہو جاتے ہیں۔ جنگلی جانور کو پالتو جانور کے طور پر گھر میں رکھنا خطرے سے خالی نہیں‘ اکثر کھیل کھیل وہ مالکان کو نقصان پہنچا دیتے ہیں‘ اور عموماً ایسا ہونے کے بعد ہمارے ہاںسزاکے طور پر انہیں جان سے ہی مار دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ خچر، گدھے، گھوڑے، گائے، بیل اور اونٹ وغیرہ پر بھی ظلم کیا جاتا ہے۔ ان سے گھنٹوں کام لیا جاتا ہے، کم خوراک دی جاتی ہے، ان کو مارا پیٹا جاتا ہے، کام کے بوجھ سے یہ جانور لاغر ہوجاتے ہیں۔ دوسری جانب سرکس وغیرہ میں بھی جانوروں کے ساتھ بہت برا سلوک ہوتا ہے، کرتب سکھانے کے لئے ہاتھی، شیر، بندر، بکرے، ریچھ وغیرہ کو بھوکا رکھا جاتا ہے، ان کو ہنٹر اور کیل والے ڈنڈے سے مارا جاتا ہے۔
اس سے ہٹ کر اگر دیکھیں تو جانوروں کی کھال وغیرہ فیشن کے نام پر اتار لی جاتی ہیں‘ ان پر مختلف ادویات ٹیسٹ کی جاتی ہیں، انہیں مختلف تجربات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بے شمار جانوروں کے سر انسانوں کے محلات میں آویزاں مل جاتے ہیں۔ اچھی خاصی پوش آبادیوں میں پڑھے لکھے لوگ کتوں کو زہر دے کر مار ڈالتے ہیں یا میونسپلٹی والے سڑکوں پر موجود آوارہ کتوں کو گولیاں مار دیتے ہیں۔ ہماری گلی کی گرین بیلٹ پر مادہ سوزی رہتی تھی‘ اس کے چار بچے تھے‘ گلی میں سب ان 5کتوں کو کھانا پانی دے دیتے تھے‘ ایک دن انتظامیہ ان کو گولیاں مار کر کچرے کے ڈرم میں ڈال کر لے گئی۔ جانوروں کو یوں اپنے سامنے مرتا دیکھ کر میں کتنے دن روتی رہی، عملے سے بحث بیکار تھی کیونکہ انہیں تو سرکاری بابوئوں سے جو حکم ملتا ہے‘ اس پر عمل کرتے ہیں۔ہمارے ہاں جانوروں سے پیار‘ محبت اور شفقت کا نہیں ان سے نفرت اور ظلم کا کلچر عام ہے۔ ہم چرند، پرند اور آبی مخلوق‘ سب کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ جنگلوں سے لاکر جانوروں کو پنجرے میں بند کرکے ان پر ٹکٹ لگا کر ان کا تماشا لگایا جاتا ہے۔ کتنے جانور اور پرندے ہیں جو انسانی شکار کی بھینٹ چڑھ گئے اور آج معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ پرندوں اور جانوروں کی باقاعدہ مارکیٹس بنی ہوئی ہیں جہاں ڈربوں میں جانوروں کو ٹھونس کر رکھا جاتا ہے اور کورونا کے دوران جب یہ مارکٹیں بند ہوئیں تو بہت سے جانور بند دکانوں میں مرگئے اور بہت سے دکانداروں نے جانوروں کو گندے نالوں میں مرنے کے لئے پھینک دیا۔ آپ کو وہ گدھا بھی یاد ہوگا جس پر ایک سیاسی نعرہ لکھ کر اس کو مار مار کر مار دیا گیا تھا اور وہ چھوٹا سا کتا بھی جس پر ایک سیاسی جماعت کا جھنڈا باندھ کر اس کو گولی مار دی گئی تھی۔ ظلم کی یہ داستان بہت طویل ہے۔
چڑیا گھر والے بھی ظلم کی اس داستان کا حصہ نظر آتے ہیں۔ پنجروں میں رہ رہ کر کئی جانور نفسیاتی عوارض کا شکار ہو جاتے ہیں، بیمار ہو جاتے ہیں اور آخر میں قید تنہائی میں ہی مر جاتے ہیں۔ کورونا سے پہلے جب میرا اسلام آباد کے چڑیا گھر جانا ہوا تو بہت افسوسناک صورتحال دیکھنے میں آئی۔ اس چڑیا گھر کا قیام 1978ء میں عمل آیا تھا۔ شروع میں چڑیا گھر میں بہت سے جانوروں رکھے گئے جن میں شیر، ہاتھی، بندر، ریچھ، شتر مرغ ، نیل گائے، ہرن، طوطے مور، بطخیں، سانپ، گیڈر، لومڑی، زیبرے، چڑیاں، خرگوش، گلہریاں، گینڈے، مشک بلی اور کئی نایاب نسل کے پرندے شامل تھے۔ وقت کے ساتھ صورتحال بدلتی گئی۔ انتظامیہ کی لاپروائی جانوروں کو نگلنے لگی۔ حالیہ چند سالوں میں شترمرغ، نیل گائے، ہرن، بندر، شیر کے چار بچے اور متعدد پرندے اپنی جان سے گئے۔وہ چڑیا گھر جہاں ہمارے بچپن میں صفائی کا بہترین انتظام ہوتا تھا‘ وہاں اب گندگی کا راج تھا اور جانور بیمار پڑے تھے۔ چڑیا گھر کو تزئین و آرائش اور جانوروں کو صاف پانی، اچھی خوراک، روم کولرز اور نئے پنجروں کی اشد ضرورت تھی۔ بطخیں کائی والے گندے پانی میں تیر رہی تھیں۔ کیوان ہاتھی گم سم سا کھڑا تھا، اس کے پنجرے کی باڑ جگہ جگہ سے ٹوٹ چکی تھی۔ جبکہ اس کی ساتھی ہاتھی 2012ء میں بیماری کے باعث چل بسی تھی۔ اسی طرح زیبرے، ہرن، نیل گائے کے پنجرے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے۔ دیوسائی کے نایاب بھورے ریچھ کو دیکھ کر محسوس ہوا جیسے یہ ذہنی توازن کھو چکا ہے جبکہ اس کی ٹانگ پر ایک کھلا زخم بھی تھا۔ شیروں‘ مور اور دوسرے پرندوں کے پنجروں میں جابجا بل تھے اورچوہے ان کے پنجروں میں آزادانہ گھوم رہے تھے۔چڑیا گھر کی اس حالتِ زار کی گونج اعلیٰ عدلیہ تک سنائی دی جس نے جانوروں کی حالت پر تشویش کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جانوروں کا خیال نہیں کر سکتے تو چڑیا گھر بند کر دیں۔ چڑیا گھر کے نام پر سیاست ہو رہی ہے‘ ایم سی آئی کو چڑیا گھر کا چارج دینا غلط تھا۔ حکم آیا کہ چڑیا گھر کے جانوروں کو دو ماہ میں محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں دالخراش واقعہ یہ پیش آیا کہ چڑیا گھر کے عملے کے پاس بے ہوشی کے ٹیکے موجود نہیں تھے‘ انہوں نے ویسے ہی شیروں کی منتقلی کی کوشش کی اور پنجرے میں آگ لگا دی جس سے شیر اور شیرنی ہلاک ہو گئے۔ اس سے متعلقہ ادارے اور انتظامیہ‘ سبھی پوری طرح ایکسپوز ہو گئے۔ اگر دارالحکومت میں جانوروں کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے تو باقی ملک میں کیا ہوتا ہوگا‘ یہ سوچ کر ہی جھرجھری آ جاتی ہے۔منگل کو ہائیکورٹ میں اس کیس کی سماعت ہوئی‘ امید ہے کہ جانوروں کو اس ظلم سے جلد نجات اور مجرمان کو قرار واقعی سزا ملے گی۔
گرمی کا موسم ہے‘ چھت پہ اور کیاری میں باجرہ اور ٹھنڈا پانی رکھیں۔ یہ زمین جانوروں اور پرندوں کی بھی اتنی ہی ہے جتنی انسانوں کی ہے، جانوروں سے شفقت سے پیش آئیں۔ ہمارا مذہب ہمیں چرند پرند سے اچھے سلوک کا حکم دیتا ہے۔ قرآن پاک میں گائے‘ چوپایوں‘ چیونٹی‘ شہد کی مکھی‘ مچھلی اور ہاتھی کا ذکر ہے۔ خود رسول اللہﷺنے جانوروں کے ساتھ بدسلوکی، مار پیٹ، چھیڑ چھاڑ، انہیں داغنے اور ان پر استطاعت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے منع فرمایا ہے۔ جانوروں پر رحم کر کے اپنے انسان ہونے کا ثبوت دیں۔