تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     06-08-2020

جو آشیاں میں ہے اپنے وہ باغ بھر میں نہیں

وطن سے محبت انسان کے مزاج اور طبیعت کا حصہ ہے۔ اور یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کسی کو وطن سے عمر کے کسی خاص حصے میں محبت ہو اور بعد میں اِس محبت کی شدت میں کمی آجائے۔ اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی طے کرے کہ ایک خاص حد تک ہی وطن سے محبت کی جائے گی۔ وطن سے انسان یا تو محبت کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ ؎ 
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر ... یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا 
عمومی سطح پر لوگ وطن اور بالخصوص جائے پیدائش کے معاملے میں اُتنے جذباتی نہیں ہوتے جتنے ہونے چاہئیں۔ اگر یہ محبت دل و دماغ پر طاری ہو جائے، پورے وجود کو اپنے دائرۂ اثر میں لے تو انسان پورا تبدیل ہو جاتا ہے۔ جائے پیدائش سمیت پورے وطن سے غیر معمولی محبت انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہے، بہت کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ 
آج کا پاکستان حقیقی اور بھرپور حب الوطنی کے معاملے میں خاصا بدنصیب ہے۔ وطن سے محبت کے دعویدار قدم قدم پر ملتے ہیں مگر وطن سے محبت کا حق ادا کرنے کی خواہش اور ہمت رکھنے والے خال خال ہیں۔ عمومی سطح پر معاملہ یہ ہے کہ لوگ وطن سے محبت کے دعوے ہی کو بہت کچھ یا سب کچھ گردانتے ہوئے عملی سطح پر کچھ کرنے سے یکسر گریزاں رہتے ہیں۔ بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ سال میں دو تین مواقع پر وطن سے محبت کا جذبہ محسوس کرتے ہیں اور کچھ دیر اُس سے سرشار رہتے ہوئے باقی دن اپنے معمول کے مطابق بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ طریق کسی بھی اعتبار سے حب الوطنی کا حق ادا نہیں کرتا اور کر ہی نہیں سکتا۔ وطن سے محبت کم و بیش ہر انسان کے لیے لازمے کا درجہ رکھتی ہے۔ جس زمین پر انسان رہتا ہو اگر وہ اُسی کا نہ ہو تو باقی دنیا اُسے احترام کی نظر سے نہیں دیکھتی۔ وطن سے بے لوث اور جامع محبت ہی انسان کو ایسی زندگی بسر کرنے کی تحریک دیتی ہے جس میں وہ پورے سماج کو کچھ دینے اور اُس سے کچھ لینے کی ذہنیت پروان چڑھانے کے مزاج کا حامل ہو۔ جو اپنی زمین سے محبت کرتا ہو وہی اُس کا حق ادا کرنے کے بارے میں بھی سوچ سکتا ہے۔ یہاں یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ ع 
وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں 
وطن کا مطلب اُس میں پائے جانے والے تمام قدرتی و انسانی وسائل۔ وطن یعنی سماج۔ سماج یعنی لوگ۔ ہم مل کر رہتے ہیں تو سماج تشکیل پاتا ہے۔ سماج کو زمین کا ٹکڑا درکار ہوتا ہے جس میں وہ بخوبی سماسکے۔ جب ہم وطن سے محبت کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں تب سماج کو بھی گلے لگا رہے ہوتے ہیں۔ وطن سے محبت کا بنیادی تقاضا ہے اہلِ وطن کو اپنا سمجھنا، اُنہیں سمجھنا اور جو کچھ بھی اُن کے لیے کیا جاسکتا ہو وہ کر گزرنا۔ 
فی زمانہ زندگی کے تقاضے بدل چکے ہیں۔ ہر معاشرہ غیر معمولی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ بہت کچھ ہے جو انسان کے ہاتھ میں نہیں رہا۔ وہ بہت سے معاملات میں خاصا بے بس ہے۔ خواہش کے باوجود وہ بعض معاملات میں اپنی مرضی کے مطابق کچھ نہیں کر پاتا اور دوسری طرف ایسا بہت کچھ کرنا پڑتا ہے جو کسی بھی اعتبار سے اپنی مرضی کا آئینہ دار نہیں ہوتا۔ پھر بھی وطن سے محبت ایسا معاملہ ہے جس میں ڈگر سے ہٹنے کی گنجائش نہیں۔ جو وطن سے محبت کرتے ہیں وہ اُس کے لیے کچھ بھی کر گزرتے ہیں کیونکہ وطن ہی اُن کی زندگی کو سہارا دینے والا سب سے بڑا سُتون ہوتا ہے۔ 
ہر دور کے انسان کے لیے وطن سے محبت ایک بنیادی ضرورت رہی ہے۔ وطن کو مکمل طور اپنانے والے ہی کچھ کر پاتے ہیں۔ وطن سے محبت مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ جو وطن سے ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں وہ اہلِ وطن کو بھی اپنا سمجھتے ہیں اور اِس معاملے میں کچھ بھی کر گزرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ انسان کے لیے ایک بڑی کسوٹی یہی تو ہے کہ جن کے درمیان رہتا ہو اُن سے پیار کرے، اُن کا خیال رکھے، اُن کی مدد کرے اور وقت پڑنے پر اُن سے مدد لینے سے نہ ہچکچائے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب وطن کی مٹی سے محبت ہو اور اُس کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کا جذبہ پروان چڑھ چکا ہو۔ ہر دور میں وطن سے محبت کا اظہار انسان کے لیے عظمت کے حصول کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔ وطن سے محبت کرنے والوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ اور اگر کوئی وطن کے لیے جان دے دے تو سمجھ لیجیے امر ہوگیا۔ اِس سے بڑی سعادت کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی اپنے دین، نظریے یا لوگوں کے لیے جان کی بازی لگادے؟ کسی بھی انسان کے لیے زندگی سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہوتی۔ زندگی کو داؤ پر لگادینا انسان کے لیے حقیقی کسوٹی ہوا کرتا ہے۔ وطن سے محبت کا ایک تقاضا یہ بھی تو ہے کہ اُس کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔ جو یہ قربانی دے ڈالے اُس کی عظمت کو تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ 
اب ذرا سوچیے کہ آج کے پاکستان کو ہم سے جس قدر محبت درکار ہے کیا ہم اُتنی محبت کر رہے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی مٹی سے اُتنی محبت نہیں کر رہے جتنی کرنی چاہیے۔ آج کا پاکستان ہم سے بے پناہ محبت کا طالب ہے۔ وقت بدل چکا ہے، وقت کے تقاضے بھی بدل گئے ہیں۔ آج کی دنیا میں کم و بیش ہر ملک کے باشندوں پر لازم ہوگیا ہے کہ وطن کی محبت کا گراف بلند رکھیں۔ وطن کو ترجیح دینے کا رجحان پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ مسابقت کی صدی ہے۔ زندگی کا ہر معاملہ مسابقت کی نذر ہوچکا ہے۔ ایسے میں وہی معاشرے زندہ رہ سکتے ہیں جن سے اُن کے باشندے غیر معمولی حد تک پیار کرتے ہوں۔ عالم گیریت کے اِس دور میں ہر وہ ملک کمزور پڑ جاتا ہے جس سے اُس کے باشندے بھرپور محبت نہ کرتے ہوں۔ 
آج اہلِ پاکستان کا امتحان ہے۔ وہ اپنی ذاتی اغراض کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وطن کے مفاد کو ذہن نشین رکھیں اور اُسی کو ترجیح دیں۔ وطن سے محبت کا اظہار متعدد معاملات میں ہوتا ہے۔ وطن کی آبرو برقرار رکھنے کی ہر کوشش حب الوطنی کے زمرے میں ہے۔ وطن کے وسائل کی حدود میں رہتے ہوئے جینا بھی وطن سے محبت کے اظہار ہی کا ایک معقول طریقہ ہے۔ کسی بھی ملک کو وطن پر ترجیح دینا کسی بھی اعتبار سے مستحسن طرزِ فکر و عمل نہیں۔ باقی دنیا سے بھی نفرت لازم نہیں مگر وطن سے محبت لازم ہے۔ اور اِس محبت کے اظہار کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ہم کسی بھی ملک کو وطن پر ترجیح نہ دیں۔ دنیا گھومیں مگر اپنی مٹی کے مفاد کو ذہن نشین رکھیں اور اُسے اولین ترجیح کا درجہ دیں۔ 
آج کا پاکستان ہم سے شدید محبت کا طالب ہے کیونکہ اقوام کی برادری میں ڈھنگ سے جینے کے لیے لازم ہے کہ اہلِ وطن اپنی مٹی سے شدید محبت کرتے ہوں۔ دنیا بھر میں حب الوطنی آج بھی ایک لافانی وصف سمجھا جاتا ہے۔ لوگ اپنے معاشرے اور ملک کو باقی دنیا پر ترجیح دیتے ہیں۔ اُن کے لیے وطن سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ یہ سوچ ہمیں بھی اپنانا ہوگی۔ پاکستان کو استحکام درکار ہے۔ اِس کی کمزوریاں بڑھتی جارہی ہیں۔ ایسے میں ہمارے لیے لازم ہے کہ اِس کے مفاد کو ہر شے پر مقدم سمجھیں۔ وطن سے محبت کے اظہار کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ اِسے نقصان پہنچانے والی ہر طرزِ فکر و عمل سے مکمل گریز کیا جائے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم اپنے ذاتی یا انفرادی مفادات کو ایک طرف ہٹاکر صرف اجتماعی مفاد کو تحفظ فراہم کرنے کا سوچیں۔ اِسی صورت ہم وطن سے محبت کا حق ادا کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ دنیا چاہے کتنی ہی رنگین ہو، ہمارے لیے وطن سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ جو کچھ اِس میں ہے وہی ہماری اصل دولت، حقیقی اثاثہ ہے ؎ 
سکون دل کا میسّر گل و ثمر میں نہیں 
جو آشیاں میں ہے اپنے وہ باغ بھر میں نہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved