تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     06-08-2020

دماغ میں کیمیکلز کو ریلیز ہونے سے روکیں

پارک میں وہ دونوں چلتے چلے جا رہے تھے اور مسلسل ایک دوسرے کو کوس رہے تھے۔ پھر وہ رکے اور ان میں سے ایک نے دوسرے کوتھپڑ مارنے کی کوشش کی، جس کے جواب میں دوسرے نے اسے دھکا دیا۔ پھر انہوں نے دوبارہ زور زور سے بولنا شروع کر دیا۔ میں کافی دیر سے انہیں سن رہا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ ان میں سے ہر ایک اپنے آپ کو شدید مظلوم اور دوسرے کو شدید ظالم سمجھ رہا تھا۔ زندگی میں مجھے اس طرح کے کئی کردار ملے۔دونوں فریق اپنی اپنی جگہ انتہائی دکھی تھے۔ اگر آپ تھیوری میں جائیں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ دونوں بیک وقت سچے ہوں لیکن دونوں کو اپنی اپنی مظلومیت اور دوسرے کے ظالم ہونے پہ یقین ِ کامل تھا۔دونوں کو اپنے سچّے ہونے پر اس قدر یقین تھا کہ وہ خدا کے حضور پیش ہونے اور اس سے انصاف کے منتظر تھے؛حالانکہ دونوں تو سچے نہیں ہو سکتے تھے کہ ان کے موقف میں 360درجے کا تضاد تھا۔ 
ایسا کیوں ہوتاہے؟ نفس کو خود سے اتنی محبت ہوتی ہے کہ وہ انسان کو انصاف کرنے او راپنی غلطی کا جائزہ لینے کے قابل کہاں چھوڑتا ہے۔ جب جذبات بھڑکانے والے کیمیکلز دماغ میں ریلیز ہوتے ہیں تو اس کے بعد انصاف کا قتلِ عام ہوتاہے۔ دوسرے کو کیا‘ وہ اپنے آپ کو یقین دلا دیتاہے کہ غلطی ہے ہی دوسرے کی، مجھ سے توآج تک 1فیصد بھی زیادتی سرزد نہیں ہوئی۔ دماغ میں یہ کیمیکلز ایک دم ریلیز نہیں ہوتے۔ آپ خود ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ میں نے صبر کرنا ہے یا خود کو جذبات کے حوالے کر نا ہے۔ ایک بار آپ نے جذبات والی راہ اختیار کر لی تو پھر کیمیکلز ریلیز ہوتے چلے جائیں گے۔ 
پھر یہ اسی طرح ہوتاہے، جیسے آپ دیاسلائی جلا کر پیٹرول کے پاس لے جائیں۔ وہ آگ نہ پکڑے تو اور کیا کرے۔ یہاں مجھے ایک بات یاد آئی۔ آپ کومعلوم ہے کہ انسان کچھ عناصر جیسا کہ ہائیڈروجن، آکسیجن، کاربن، کیلشیم اور فاسفورس وغیرہ سے مل کر بنا ہے۔ ان میں سے ہر عنصر کی اپنی مخصوص خصوصیات ہوتی ہیں۔ ہائیڈروجن کو آگ دکھائی جائے تو وہ دھماکے سے جل اٹھتی ہے۔اسی طرح لوہے کو پانی؍آکسیجن چھونے لگے تو وہ زنگ پکڑ لیتاہے۔ ہائیڈروجن یہ نہیں کہہ سکتی کہ گو میرا دل کر رہاہے جلنے کا لیکن میں جلوں گی نہیں۔ لوہا یہ نہیں کہہ سکتا کہ گو میرا دل کر رہاہے زنگ پکڑنے کو لیکن میں پکڑوں گا نہیں۔ اللہ کی شان دیکھیں کہ انسان کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ میرا دل تو کر رہا ہے یہ کام کرنے کا لیکن میں کروں گا نہیں۔ دو میں سے ایک کے انتخاب کا حق۔جھگڑے میں بھی عقل بار بار یاد دلا رہی ہوتی ہے کہ صلح نہ کر لیں؟ سر جھکا نہ لیں؟ جذبات آڑے آ جاتے ہیں کہ ہم کیوں جھکیں۔ خدا نے انسان کو یہ اختیار کیسے دیا؟ مختلف عناصر کی خصوصیات کو آپس میں مکس کر کے۔ وہ سب سے بڑا طبیعات دان ہے، سب سے بڑا کیمیا دان، سب سے بڑا ماہرِ حیاتیات۔کہاں سے زندگی اس نے ایک خلیے کی شکل میں شروع کی۔ کہاں پچاس‘ پچپن کروڑ سال پہلے سمندری حیات سے آغاز ہوا اور پھر ریپٹائلز، میملز، پرائمیٹس اور گریٹ ایپس ڈھلتی چلی گئی۔ 
جذبات کی رومیں بہہ کر انسان جب سچ کا قتلِ عام شروع کرتاہے تو پھر وہ حق تک نہیں پہنچ سکتا، خواہ وہ سورج کی طرح جگمگا رہا ہو۔ سترہویں صدی کے اطالوی ماہرِ فلکیات گیلیلیو کو آج Father of Modern Observational Astronomyکہاجاتاہے، Father of Modern Physics, Father of Scientific Method, Father of Modern Science۔ یہ خطابات جس شخص کو دیے گئے، اسے سترہویں صدی کے وسط میں چرچ نے یہ راز افشا کرنے کے جرم میں تا حیات نظر بند کر دیا تھا کہ کرّۂ ارض کائنات کا محور و مرکز نہیں۔ پادریوں نے سوچا کہ اگر کرّۂ ارض کائنات کا محور و مرکز نہ رہی تو ہماری کیا اہمیت باقی رہ جائے گی۔ پھر کتنی صدیاں چرچ اپنا جبر نافذ کرنے میں کامیاب ہوا۔ آج سکول کے بچّے نصاب میں پڑھ رہے ہیں کہ زمین کائنات کا محور و مرکز تو کجا، اپنی کہکشاں میں بھی کسی اہمیت کی حامل نہیں۔ واحد اہمیت اس کی یہ ہے کہ اس پر زندہ مخلوقات پائی جاتی ہیںورنہ تو اس زمین جیسی سو ارب زمینیں تو ہماری کہکشاں میں محوِ پرواز ہیں۔ کہاں تو یہ زمین کائنات کا مرکز سمجھی جاتی تھی اور کہاں سور ارب میں سے ایک۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہ کہکشاں بھی سینکڑوں ارب کہکشائوں میں سے ایک ہے۔ 
زمین کی واحد اہمیت اس پہ زندہ اشیا کی موجودگی ہے۔ سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ ہم جب کائنات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں باقی چیزوں کی سمجھ تو آ جاتی ہے لیکن یہ سمجھ نہیں آتی کہ کچھ عناصر مل کر زندہ اشیا میں کیسے تبدیل ہو گئے۔ سٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا کہ کائنات اگر زندگی پیدا کر سکتی ہے تو پھر یہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کائنات تو خود بے جان ہے، وہ زندگی کیسے پیدا کر سکتی ہے۔ آپ کے خیال میں زندگی کون پیدا کر رہا ہے؟ کوئی ستارہ یا سورج؟ کوئی بلیک ہول؟ فیصلہ سازی والا دماغ کسی ستارے میں نصب ہے یا کسی بلیک ہول میں؟ وہ تو خود (ہمارے الفاظ میں) مردہ ہیں اور انسان کی طرف سے اپنے Discover کیے جانے کے محتاج۔ سٹیفن ہاکنگ جیسے سائنسدان کہنا چاہتے ہیں لیکن ڈر کے سبب خدا کا نام نہیں لیتے۔ وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ کائنات زندگی پیدا کر سکتی ہے تو پھر کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اگر وہ خدا کا نام لیں تو انہیں مذہب مخالف مغربی معاشرے کی طرف سے اپنے دھتکار دیے جانے کا شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ 
چند صدیاں پہلے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ کرّۂ ارض تو ایک چھوٹا سا سیارہ ہے اور وہ ہرگز کائنات کا مرکز نہیں۔ اسی طرح ایک قدامت پسند معاشرے میں آج یہ سچ ظاہر کرنا مشکل ہے کہ نبض صرف دل کی دھڑکن ہے۔ اس میں سے کینسر، بواسیر، نظامِ انہضام اور دوسری بیماریاں تشخیص کرنا سو فیصد فراڈ ہے۔ نبض صرف اور صرف دل کے دھڑکنے کی رفتار بتاتی ہے۔ آپ اندازہ اس سے لگائیں کہ کچھ اَن پڑھ لوگ پڑھے لکھوں کو بیو قوف بنا رہے ہیں کہ ہم نبض سے تمہاری صحت کا مکمل حال تمہیں بتائیں گے اور وہ یقین بھی کر لیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ خون کے ٹیسٹ ایجاد ہو رہے تھے۔ ایکسرے، الٹرا سائونڈ، ایکو، اینڈو سکوپی، ایم آر آئی، ای سی جی اور ای ای جی وغیرہ۔ اب ان کے پاس لیبارٹریز اور مشینیں تو تھی نہیں۔ انہوں نے کہا: ہم نبض پکڑ کر بیماری بتائیں گے۔ اس مقصد کے لیے گرگے چھوڑ دیے جاتے تھے، جو مریضوں کے بھیس میں ہر جگہ موجود ہوتے تھے۔ وہ راستے میں ہی مریض کو ٹوہ لیتے تھے۔ اس میں ایک بہت بڑی چودھراہٹ بھی تھی کہ تم تو مشینیں استعمال کرتے ہو، ہم نبض پہ ہاتھ رکھ کر ہی بیماری بتا دیتے ہیں ؛حالانکہ ہے یہ سو فیصد فراڈ۔ 
بات شروع ہوئی تھی دماغ میں کیمیکلز کے اخراج سے۔ کسی بھی تنازع میں اگر آپ خود کو جذبات کے حوالے کر دیتے ہیںتو بس پھر کر لیا انصاف آپ نے۔ مزید برآں یہ کہ جذبات کے اظہار، جھگڑے کے بعد دوسری طرف سے سخت باتیں سن کر بھی انسان کو آغاز وہیں سے کرنا پڑتا ہے۔ آخرکار جھکنا ہی پڑتا ہے۔ اس جھگڑے میں اپنی توانائی برباد کرنے کا ایک فیصد فائدہ نہیں ہوتا۔ فریقِ ثانی کو بھی اپنی مظلومیت پر اتنا ہی یقین اور اتنا ہی اصرار ہوتاہے۔ اس سے بہتر ہے کہ انسان جھگڑ ے میں جائے ہی ناں۔ اپنے دماغ میں کیمیکلز کر ریلیز نہ ہونے دے۔ فریقِ ثانی جب اپنے جذبات کا اظہار کر چکے گا اور جب وہ جذباتی کیفیت سے نکلے گا تو پھر لامحالہ وہ نادم ہوگا۔ پھر آپ کے خاموش رہنے کی وجہ سے اس کے دل میں آپ کا احترام پیدا ہوگا۔ دلوں میں احترام پیدا کرنے کے لیے صبر کرنا پڑتاہے۔ یہی سرکارﷺ کا قرینہ تھا۔ انسانی تاریخ میں کاملیت کے ساتھ آپﷺ ہی نے اسے اختیار فرمایا۔یہی وجہ تھی کہ آپﷺ دلوں کو فتح فرماتے چلے گئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved