تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     07-08-2020

بدلتی خارجہ پالیسی اور قومی اتفاق رائے

مقبوضہ جموں و کشمیر میں بہنے والے شہیدوں کے خون اور وہاں پر ہماری ماؤں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کی عصمتوں کی قربانیوں نے پاکستان کی منتشر اور باہم دست و گریباں سیاسی قیادت کو دوسال بعدون پوائنٹ ایجنڈے پر ایک میز پر بٹھا ہی دیا۔ دیر آید درست آید کے مصداق سیاسی قیادت اور خاص طور پر اپوزیشن کی طرف سے مثبت عمل کا مظاہرہ کیاگیا۔ دفتر خارجہ کے بڑے ہال میں جے یو آئی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں‘ سابق سفارتکار اور دفاعی تجزیہ کار جمع ہوئے۔ تمام شرکا بظاہر وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے مہمان تھے لیکن اس ساری تقریب کے اہتمام میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید کی محنت اور کاوشیں نمایاں تھیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے پرویز خٹک کافی متحرک رہے۔ مولانا فضل الرحمان اس اہم بیٹھک میں تشریف نہ لائے کیونکہ آج کل وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نہیں ہیں اور وہ ایسی کسی بھی کاوش میں شامل ہونا مناسب نہیں سمجھتے جس میں وہ خود ڈرائیونگ سیٹ پر نہ ہوں۔ اس مجلس میں جنرل فیض حمید اور ان کی ٹیم نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں ہونے والی گزشتہ ایک سال کی پیش رفت سے آگاہ کیا اور علاقائی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی۔ مسلم لیگ (ن)‘ پی پی پی‘ ایم کیو ایم ‘اے این پی‘ بلوچستان عوامی پارٹی‘ بی این پی مینگل سمیت کم و بیش تمام جماعتوں کے سینئر رہنما موجود تھے ‘گویا قومی امور اور قومی نکات پر سیاسی اور فوجی قیادت کا ایک چھت تلے جمع ہونے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوچکا ہے‘ جوکہ خوش آئند ہے ۔ ایک اور فیصلہ بھی کیا گیا کہ ایک پولیٹیکل کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی سینئر قیادت کو شامل کیاجائے اور ان رہنماؤں کو بھی اس کمیٹی میں شامل کیا جائے جو پارلیمان میں موجود نہیں ہیں۔ اس کمیٹی میں اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کو شامل کیاگیا ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ پولیٹیکل کمیٹی تشکیل دینے کی کاوشیں کافی عرصے سے ہورہی تھیں لیکن وزیراعظم کے مبینہ سخت رویے کی وجہ سے اس میں کامیابی نہیں ہو پارہی تھی۔ اطلاعات یہ ہیں کہ پولیٹیکل کمیٹی کی تشکیل کی ضرورت عسکری قیادت کی طرف سے بہت ضروری قرار دی جارہی تھی اور اس کی افادیت پر زور دیا جارہا تھا تاکہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر اہم قومی امور پر دیرپا اتفاق واتحاد کے لیے اہم فیصلے کیے جاسکیں اور ان فیصلوں کو آنے والی حکومتیں بھی برقرار رکھیں۔ اس ضمن میں اہم سیاسی رہنماؤں کی اعلیٰ عسکری قیادت سے ملاقاتیں بھی ہوئیں جن میں عسکری قیادت نے اپوزیشن کو خاص طور پر آمادہ کیا کہ خطے میں اہم تبدیلیاں آرہی ہیں ‘ عالمی سیاست کے کردار بدل رہے ہیں اور آنے والا عشرہ انتہائی اہم ہے‘ دنیا بھر کے ممالک نئی صف بندی کررہے ہیں اور خارجہ پالیسیوں کو ری وزٹ کیا جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات ‘ چین کاجارحانہ رویہ ‘ ایران‘ بنگلہ دیش ‘نیپال اوربھوٹان کی انڈیا سے دوری اور چین سے قربت ‘چین کا لداخ میں گلوان وادی اور تبت سرحد پر فوج اتارنا اور بھارت کے یکطرفہ اقدامات کو مسترد کرکے فوجی طاقت سے نئی لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا تعین کرنا ایسے اہم اقدامات ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا‘ لہٰذا ہمیں بھی مل بیٹھ کر سوچ بچار کرنی چاہئے۔
اس دوران ایک اہم تبدیلی بلکہ بہت ہی بڑا واقعہ جو خاموشی سے وقوع پذیر ہوا وہ وزیراعظم عمران خان اور بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد کے مابین پندرہ منٹ کی فون کال تھی‘ جس کی شدت اور حدت سرحدوں کے پار بہت زیادہ محسوس کی گئی اور اس کے آفٹر شاکس دلی میں آج تک محسوس کیے جارہے ہیں۔ نہ صرف دلی بلکہ پاکستان کو دولخت کرنے کی سازش کے آرکیٹیکٹ اور تمام غیرملکی کردار‘ سب حیران ‘ پریشان نظر آرہے ہیں اور اس کھوج میں ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین اور وہ بھی شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی حسینہ واجد کے دورِ اقتدار میں برف کیسے پگھلی اور نفرتوں اور دشمنی کے پہاڑ کیسے سر ہوگئے اور انہیں اس اہم ترین ڈویلپمنٹ کی ہوا تک نہ لگی۔ دلی اور دیگر کرداروں کی لاعلمی کا اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ بھارتی میڈیا کا درد تو اپنی جگہ مغربی ذرائع ابلاغ بھی پاکستان اور بنگلہ دیش کے وزرائے اعظم کی خبروں پر منفی تبصرے اور زہرآلود تجزیے کرتے نظر آرہے ہیں اور حسینہ واجد کو باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان سے دشمنی ‘دوستی میں تبدیل نہ ہونے پائے‘ لیکن گزشتہ ایک سال میں ہونے والی خفیہ اہم سرکاری و غیر سرکاری سفارتکاری کا پھل کافی حد تک پک چکا ہے اور اسلام آباد اور ڈھاکہ میں موجود ہم خیال پرانی رنجشوں کو بھلا کر ایک نئے سفر کی شروعات چاہتے ہیں اور یہ دوستی کی خواہش دونوںجانب پائی جاتی ہے۔ اس میں ہمارے ازلی دشمن بھارت اور مودی کی انتہاپسندی اورفاشسٹ نظریے نے بھی کافی کردار ادا کیا ہے۔ مودی اور بھارتی فوجیوں نے خود بھی بہت کچھ بیان کردیا ہے کہ کس طرح انہوں نے مکتی باہنی میں شامل ہوکرنفرت کی آگ لگائی۔ اب جبکہ پندرہ منٹ کی کال کا اعلامیہ اسلام آباد سے جاری ہوا کہ کشمیر کے معاملے پر بھی بات ہوئی تو اس کے بعد ڈھاکہ میں انڈین ہائی کمشنر بنگلہ دیش کے دفتر خارجہ سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن انہیں مثبت جواب نہیں مل رہا اور چار ماہ سے زائد عرصے سے انہیں ملاقات کا وقت نہیں دیا جا رہا۔انڈیا کے شہریت ترمیمی ایکٹ کے بعد بھارت بنگلہ دیش تعلقات مزیدسردمہری کا شکار ہوچکے ہیں۔ انڈیا کو دیے گئے منصوبوں کے معاہدے منسوخ کرکے ٹھیکے چین کو دیے جارہے ہیں اور پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارت کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ انڈیا کے منفی پروپیگنڈے کو بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ بیمار ذہنیت قرار دے رہے ہیں۔ وہ دہلی کو اپنا منہ بند کرنے اور بنگلہ دیش کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی وارننگ بھی دے چکے ہیں۔ وزیراعظم حسینہ واجد نے بھی پاکستان کے ساتھ بدلتے تعلقات کا دفاع کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ خارجہ پالیسی میں وہ آزاد ہیں اور پاکستان بنگلہ دیش کا دشمن نہیں ہے‘ انہیں حق حاصل ہے کہ وہ جس ملک سے چاہیں دوستی کریں‘ انڈیا کو اس سلسلے میں منفی پروپیگنڈ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ حسینہ واجد کے خیال میں پاکستان اور بنگلہ دیش کی قربت پر منفی ردعمل ظاہرکرنے والے خطے کے عوام کی کوئی خدمت نہیں کررہے۔ بنگلہ دیش کی واضح پوزیشن کے باوجود دِلی سرکار بے چین ہے اور حسینہ واجد کے دورہ ٔپاکستان کو رکوانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
گزشتہ برس پانچ اگست کے مودی کے اقدام اور''انڈیا صرف ہندوؤں اور وہ بھی انتہاپسند اور دہشت گرد ہندوؤں کے لیے ہے ‘‘کی پالیسی نے جنوبی ایشیا کے ممالک کی آنکھیں کھول دی ہیں‘ اس لیے چین اس وقت جارحانہ موڈ میں ہے اور ایران‘ بنگلہ دیش‘ نیپال اور بھوٹان کو معاشی ترقی کا پیکیج آفر کررہا ہے‘ کیونکہ سی پیک سے یہ تنازعہ شروع ہوا جبکہ پاکستان اور چین کیلئے سی پیک ایک گیم چینجر ہے۔ ایک طرف تعمیر وترقی کی سوچ ہے اور دوسری طرف انڈیا اور امریکہ کے توسیع پسندانہ عزائم اور تکبر‘ اس لیے چین نے پانچ اگست کے بھارتی اقدام کا جواب گلوان کے محاذ پر دیا ہے اور پاکستان نے اپنا نیا سیاسی نقشہ جاری کرکے۔ پہلے یہ نقشہ سیاسی قیادت نے منظور کیا اور بعد ازاں وفاقی کابینہ نے منظوری دی۔ کشمیر سے شروع ہونے والا مفاہمت کا یہ سفر کہاں تک چلتا ہے اس کے لیے انتظار کرنا پڑے گا لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ آنے والے دنوں میں قومی اتفاق رائے بڑے پیمانے پر دیکھنے کو ملے گا اور جو اس قومی اتفاق رائے کے عمل سے باہر ہوگا اسے آئندہ کے لیے نظر انداز کردیا جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved