شاعر نے شام کی منڈیر سے ایک بڑا دلچسپ دعویٰ کیا ہے۔ پہلے کلامِ شاعر بزبانِ شاعر سن لیجئے پھر دیکھیں گے کہ شاعر اپنے دعوے میں کس حد تک سچا ہے۔
اب سمجھ میں آتا ہے
اس نے جو کہا تھا سب
ہم نے جو سنا تھا تب
کس طرح ہلے تھے لب
کس طرح کٹی تھی شب
ہم نے ان سنی کر دی
بات جو ضروری تھی
کس قدر مکمل اور
کس قدر ادھوری تھی
وہ جو اک اشارہ تھا
ذکر جو ہمارا تھا
وہ جو اک کنایہ تھا
جو سمجھ نہ آیا تھا
اب سمجھ میں آتا ہے
ہم جہاں پہ جیتے تھے
اصل میں تو ہارے تھے
جس کو اتنا سمجھے ہم
کیوں سمجھ نہ آیا تھا؟
اب سمجھ میں آتا ہے
اب سمجھ میں آیا جب
زندگی اکارت ہے
ایسی اک بجھارت ہے
جو دیر سے سمجھ آئی
زندگی کے بھیدوں کو
ہم نے اب سمجھنا تھا
آنکھ جب پگھل جائے
اور... شام ڈھل جائے
زندگی کی مٹھی سے
ریت جب نکل جائے
بھید اپنے جیون کا
تب سمجھ میں آتا ہے
سب سمجھ میں آتا ہے
جناب شاعر سے بصد ادب اختلاف کرتے ہوئے یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ زندگی کے کسی نقطے پر ٹھہر کر یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اب میں سب کچھ سمجھ گیا ہوں۔ عین ممکن ہے کہ آپ جسے سمجھنے کا ایک نایاب لمحہ تصور کر رہے ہوں دراصل وہ کوئی سراب ہو، کوئی خواب ہو۔ وہ جو اسداللہ غالب نے کہا تھا:
ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں
زندگی کا مزاج کچھ ایسا ہے کہ آخر دم تک سیکھنے (Learn) اور بھولنے (Unlearn) کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو زندگی کی بجھارت کو مٹھی سے ریت کے نکل جانے سے پہلے پہلے سمجھ لیتے ہیں اور اپنے جیون کا بھید پا لیتے ہیں۔ میں کافی غور کرتا رہا کہ آخر زندگی کا بھید ہے کیا؟ یوں تو زندگی میں ہر چھوٹے بڑے آدمی کا کوئی نہ کوئی مقصد یا مشن ہوتا ہے۔ جتنا جس کا مقصد عظیم ہو گا اتنی ہی اس کی زندگی خوبصورت اور اطمینان بخش ہو گی۔ اس شخص کے ہاتھ میں رازِ ہستی نہیں آتا جس کی زندگی کا کوئی واضح مقصد ہوتا ہے نہ سمتِ سفر متعین ہوتی ہے۔ با مقصد زندگی گزارنے والے آدمی کو دورانِ سفر کوئی ایسی کوفت نہیں ہوتی کہ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا‘وہ کیا کرے۔ زندگی کے نشیب و فراز لمحاتی طور پر راستہ روکتے ہیں مگر مقصد کی لگن ہر لحظہ اسے آگے بڑھنے اور بڑھتے چلے جانے پر اکساتی اور آمادہ کرتی رہتی ہے۔ اگر ہم اپنی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو قائدِ اعظم محمد علی جناح کی درخشندہ مثال ہمارے سامنے آئے گی۔ اُن کی سیاسی زندگی میں ارتقاء ضرور نظر آتا ہے مگر کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ رازِ حیات سمجھنے میں کسی کنفیوژن کا شکار رہے ہوں۔ ایک بارانہوں نے مسلمانانِ ہند کے کیس کو اپنے ہاتھ میں لیا تو اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اس مشن کیلئے تگ و دو کرتے رہے۔ دمِ واپسیں پر وہ بڑے خوش اور مطمئن تھے کہ انہوں نے جو کچھ کہا اسے کر دکھایا اور منزلِ مراد پر پہنچ کر بھی دم نہ لیا بلکہ اس منزل کو اپنے کیے گئے وعدوں کی پُر شکوہ تعبیر بنانے کیلئے اس وقت تک مصروفِ عمل رہے جب تک خرابیٔ صحت نے انہیں صاحبِ فراش نہیں بنا دیا۔
قیامِ پاکستان اور قائد اعظم محمد علی جناح کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ہماری سیاست قومی مفاد کے مشن سے نکل کر ذاتی جاہ و جلال اور مال و متاع کے گرد چکر لگانے لگی۔ قائدِ اعظم نے کبھی مقدس ترین مشن کے حصول کے لیے کوئی غیر قانونی اور غیر اخلاقی طرزِ عمل ہرگز اختیار نہ کیا۔ مگر اُن کی وفات کے بعد یار لوگوں نے محلاتی سازشوں میں ذاتی مفادات کے فلک بوس محلات تعمیر کیے اور حرص و ہوس میں سب کچھ جائز قرار دے ڈالا۔ انہی ادوار میں الیکشن میں ''جھرلو‘‘ پھیرنے اور عوام کے ووٹوں پر ڈاکہ ڈالنے کا آغاز ہوا۔ اگر راہِ راست پر چلنے والے سیاست دان ذاتی و شخصی مفادات سے ماورا ہو کر قائد اعظم محمد علی جناح کے بتائے ہوئے صاف شفاف سیاسی راستے پر گامزن رہتے اور ہر طرح کی محلاتی سازشوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے اور پہلی دستور ساز اسمبلی کے جبراً معزول کیے جانے والے سپیکر مولوی تمیزالدین کے دست و بازو بن جاتے تو پھر انہیں اپنے اپنے دور میں شامِ زندگی کے دریچے سے ماضی پر نظر ڈالتے ہوئے یہ گلہ نہ ہوتا کہ وہ تب نہیں سمجھے تھے بلکہ اب سمجھے ہیں۔
میاں نواز شریف کو اس وقت قوم ایک ٹریجک سیاسی ہیرو سمجھتی ہے۔ اگر میاں صاحب نے سیاست اور تجارت کو بالکل الگ الگ رکھا ہوتا اور سیاسی مقام و مرتبے سے کوئی مالی و تجارتی منفعت وابستہ نہ کی ہوتی تو انہیں یہ گلہ نہ ہوتا کہ وہ تب کس کس کو نہ سمجھ سکے اور اب سمجھ رہے ہیں۔ زندگی کی سرشت ہی کچھ ایسی ہے کہ انسان آخر وقت تک کسی نہ کسی انداز میں فریب کھاتا رہتا ہے۔ دیکھئے یاس یگانہ چنگیزی نے کیا خوب بات کہی ہے؎
مزاج آپ کا دنیا سے کچھ کشیدہ سہی
فریب کھائیں گے پھر بھی، فریب دیدہ سہی
اب اسی مرحلے سے موجودہ وزیر اعظم جناب عمران خان گزر رہے ہیں۔ انہوں نے قائد اعظم کے نقش قدم پر چلنے کی باتیں کیں، عدل و انصاف کے اعلیٰ اصولوں پر مبنی ایک جدید آئیڈیل اسلامی ریاست کا ماڈل پیش کیا‘ مگر ان دو اڑھائی برسوں میں عمران خان نے حصولِ اقتدار کے لیے جائز نا جائز کی تفریق مٹانے اور کمپرومائز پر کمپرومائز کرنے سے لے کر اپنے ہر ہر وعدے پر یو ٹرن لینے تک ثابت کیا کہ اُن کا نظریہ کچھ اور تھا اور اُن کا عمل کچھ اور ہے۔ جب نظریہ اور عمل میں بعدالمشرقین ہو تو پھر شاعر کی طرح سیاست دان بھی شام کی منڈیر سے ماضی پر نظر ڈالتے ہوئے کہتا ہے؎
زندگی کی مٹھی سے
ریت جب نکل جائے
بھید اپنے جیون کا
تب سمجھ میں آتا ہے
سب سمجھ میں آتا ہے