تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     09-06-2013

ایک وعدے کی تکمیل کا اطلاعی کالم

امریکہ آئے آج سولہواں دن ہے ۔اس دوران تین چار بار پاکستانی نیوز چینل دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ مسلسل سفر ہے اور ہوٹلوں کی رہائش ہے۔ ہوٹلوں میں پاکستانی چینل نہیں آتے۔ بس لے دے کر پاکستانی اخبارات ہیں جو نیٹ کے ذریعے پڑھ لیتا ہوں۔ امریکہ میں رہنے والے پاکستانی پاکستان کی سیاست کے بارے میں کم از کم مجھ سے زیادہ باخبر ہیں کہ ہر تازہ خبر کسی نہ کسی پاکستانی نیوز چینل سے سنتے رہتے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ مجھے ان سے زیادہ تازہ خبروں سے آگاہی ہے۔ ہر ملنے والا پاکستان کی تازہ صورتحال کا پوچھتا ہے۔ الیکشن کے نتائج پر اپنے اعتراضات نوٹ کرواتا ہے۔ حکومت کی کارکردگی کے بارے میں مختلف سوالات کرتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں فکرمندی کا اظہار کرتا ہے۔ موجودہ حکومت کے پانچ سال پورے ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتا ہے اور ہر بات پر میری رائے لیتا ہے۔ پاکستان کی سیاست کے بارے میں سو ال و جواب کا سلسلہ لاہور ائیرپورٹ سے امریکہ روانگی سے قبل ہی شروع ہوگیا تھا جب وی آئی پی لائونج میں بیٹھے ایک نوجوان نے الیکشن کے نتائج پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی سیاست، پرانے پاپی سیاستدانوں اور بزرگ چیف الیکشن کمشنر کے بارے میں امریکن انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ نوجوان جس کی عمر بیس بائیس سال سے زیادہ نہیں تھی، نیویارک سے لاہور صرف ووٹ ڈالنے آیا تھا۔ ظاہر ہے یہ عمران خان کا ووٹر اور سپورٹر تھا۔ الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرنے کے علاوہ ڈیفنس میں تحریک انصاف کے دھرنے میں تین چار دن تک حصہ لے کر اب واپس امریکہ جارہا تھا اور الیکشن کے مجموعی نتائج اور خاص طور پر لاہور کے نتائج سے بہت مایوس اور دل گرفتہ تھا۔ جہاز میں کئی اور نوجوان بھی ملے جو امریکہ سے زندگی میں پہلی بار صرف ووٹ ڈالنے آئے تھے۔ چند ایک بہت ہی زیادہ دکھی تھے اور آئندہ الیکشن میں امریکہ سے پاکستان آنے کے سوال پر کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے۔ امریکی پاکستانیوں کی اکثریت تحریک انصاف کو توقع سے کم سیٹیں ملنے پر حیران و پریشان ہے۔ ہر شخص ایک ہی سوال کرتا ہے کہ کیا میاں نوازشریف سسٹم میں کوئی بہتری لا سکیں گے؟ کیا عوامی مسائل جن میں فی الوقت لوڈ شیڈنگ سرفہرست ہے کا کوئی حل نکل سکے گا؟ میں انہیں کہتا ہوں کہ کم از کم لوڈ شیڈنگ کے بارے میں میاں نوازشریف کی ترجیحات سابقہ حکومت کی نسبت بہت بہتر ہیں۔ ان خرابیوں کو فوری طور پر جتنا ا ور جس طرح درست کیا جاسکے ،اس بارے میں ان کی لائن آف ایکشن بہترین ہے۔ اب مسئلہ صرف خلوص نیت کا رہ جاتا ہے اور اس کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا کہ میاں صاحب کا ماضی بھی اس سلسلے میں کوئی حوصلہ افزا نہیں ہے تاہم امید ہے کہ معاملات حسب سابق نہیں ہوں گے۔ نیویارک کے جے ایف کے ائیرپورٹ پر اتر کر سیدھے نیو جرسی چلے گئے اور وہاں سے ہائفورڈ کنیکٹی کٹ چلے گئے۔ پھر واپس نیوجرسی آئے پھر وہاں سے لاس اینجلس اور ہوسٹن سے ہوتے ہوئے شکاگو آگئے۔ انور مسعود صاحب شکاگو سے نیوجرسی چلے گئے جب کہ میں اپنے دوست اعجاز احمد کے پاس اٹلانٹا چلا گیا۔ اٹلانٹا امریکی ریاست جارجیا کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ شنید ہے کہ قبائلی علاقوں میں میزائلوں سے حملے کرنے والے امریکی ڈرون حملہ آور طیاروں کو اٹلانٹا سے ہی کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اعجاز احمد کا تعلق ملتان سے ہے اور پچھلے پچیس سال سے امریکہ میں ہے۔ اعجاز کا اور میرا تعلق اس کے بھتیجے مسعود کی وجہ سے قائم ہوا تھا۔ مسعود میرے زمانہ طالب علمی کا دوست ہے۔ گزشتہ کئی سال سے ایسا ہورہا تھا کہ میں امریکہ جاتا تھا مگر اعجاز سے ملاقات نہیں ہو پاتی تھی۔ تاہم اعجاز کے پاکستان آنے پر اس سے ضرور ملاقات ہوجاتی تھی۔ نومبر میں اعجاز ملتان آیا تو اس بار میرا بیٹا اسد بھی میرے ہمراہ تھا۔ حسب سابق اعجاز سے وعدہ ہوا کہ اس بار امریکہ آیا تو اس سے ملاقات ضرور ہوگی۔ امریکہ روانگی سے قبل اسد نے مجھے تاکید کی کہ میں اعجاز انکل کو ضرور ملوں ،پھر مجھے کہنے لگا آپ نے ان سے وعدہ کیا تھا اور انسان کو اپنا وعدہ نبھانا چاہیے۔ میرا اعجاز کو ملنا اب بہت ضروری ہوگیا تھا۔ لہٰذا جونہی مشاعروں میں چار دن کا وقفہ ہوا میں اعجاز کو ملنے اٹلانٹا چلا گیا۔ سفر اور مصروفیات کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک نیویارک میں مقیم چھوٹے بھائیوں جیسے دوست شوکت فہمی سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ لاس اینجلس میں جانا اور شفیق کے پاس تین چار دن نہ گزارنا ایک ناممکن سی بات ہے مگر اس دفعہ شفیق کے گھر انور مسعود صاحب اور میں صرف ایک بار کھانے پر گئے پھر اگلے روز اس سے مشاعرے میں ملاقات ہوئی لیکن میں نے کسی نہ کسی طرح اعجاز سے ملنے کا وقت نکالا اور اڑھائی دن اس کے ساتھ گزارے مگر یہ اڑھائی دن پلک جھپکتے گزر گئے۔ اعجاز نے بے شمار پروگراموں کی پلاننگ کر رکھی تھی مگر اس کے چوتھائی پر بھی عمل نہ ہوسکا۔ اعجاز جب مجھے اٹلانٹا سے آرلینڈو چھوڑنے آرہا تھا تو بار بار وقت کی کمی کا گلہ کررہا تھا۔ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اگر سارے پروگرام پورے ہوجاتے تو اگلی بار اٹلانٹا آ کر کیا کرتے؟ باقی رہ جانے والے کام اگلی بار کریں گے۔ اعجاز کا اٹلانٹا کے قریبی شہر کالٹن میں کاروں کا خاصا بڑا شو روم ہے جہاں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ کسی قسم کی بینک فنانسنگ کے بغیر کاروبار چلا رہا ہے۔ پاکستان میں ایک دو جگہوں پر فلاحی منصوبے بھی چلا رہا ہے مگر میں ان کی تفصیل میں دو وجوہات کی بنا پر نہیں لکھ رہا۔ پہلی یہ کہ اعجاز شہر ت سے کوسوں دور بھاگنے والا شخص ہے اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اگر ایسی کوئی بات اخبار میں آجائے تو معاملہ ’’ایک انار اورسو بیمار‘‘ والا بن جاتا ہے۔ اٹلانٹا سے آرلینڈو کا سفر تقریباً سات گھنٹے کا تھا مگر یہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔ سارا راستہ آسمان سے چھاجوں مینہ برستا رہا اور ہم یادوں کے ورق پلٹتے رہے۔ آرلینڈو میں ہیلپنگ ہینڈ کے مشاعرے میں شرکت کیلئے اعجاز ایک دن آرلینڈو رک گیا۔ یہ پاکستان میں غریب، مستحق اور تعلیمی سہولتوں سے دور گائوں میں رہنے والے بچوں کی تعلیم کے لیے کوشاں ایک ایجوکیشن ٹرسٹ کے لیے فنڈ ریزنگ کے سلسلے کا چوتھا مشاعرہ تھا۔ اس فنڈ ریزنگ میں اعجاز نے خاصی بڑی رقم پاکستان میں بچوں کی تعلیم کی اس فنڈ ریزنگ مہم میں عطیہ دی۔ انور مسعود صاحب کہنے لگے کہ خالد تمہارے مزے ہیں۔ تم اپنا ایک ذاتی سامع ساتھ لیے پھرتے ہوئے جو تمہیں داددیتا ہے اور پاکستان میں بچوں کو تعلیم کے زیور سے روشناس کروانے کے لیے عطیہ بھی دیتا ہے۔ پاکستان کے دیہات میں اس ایجوکیشن ٹرسٹ کے تحت چلنے والے تین سو پچیس سکول جن میں اڑتالیس ہزار سے زیادہ بچے تعلیم حاصل کررہے ،اپنی نوعیت کی پاکستان کی سب سے بڑی این جی او ہے۔ شہروں میں رہنے والے پاکستان کے پسماندہ دیہاتی علاقوں میں تعلیم کے لیے کوشاں اس ادارے کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ اگلے کسی کالم میں انشاء اللہ اس حیران کن پراجیکٹ پر روشنی ڈالوں گا۔ فی الحال میں اس کالم کے ذریعے اپنے بیٹے کو اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ وعدے کے مطابق اس کے انکل اعجاز کو اس بار مل آیا ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved