کہا جاتا ہے کہ بین االاقوامی تعلقات کی راہ میں پاکستان کا سفر اب تک کم و بیش لاحاصل رہا ہے۔ رہنا ہی تھا کہ ہم نے کچھ پانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ملتا انہیں ہے جو کچھ پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے کسی کے لیے کوئی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ ایک زمانے سے معاملہ یہ ہے کہ ع
جو مل گیا اُسی کو مقدّر سمجھ لیا
جو کچھ مل جائے اُس پر اکتفا کرنا اچھی روش نہیں۔ دنیا میں بہت کچھ ہوتا رہتا ہے۔ ایسے میں اگر حُسنِ اتفاق سے کچھ مل جائے یا ہاتھ آجائے تو اُسے کامیابی سمجھ کر خوش اور مطمئن نہیں ہوا جاسکتا۔ جو کچھ پانے کی تمنا ہو اُسے پانے کے لیے کوشش کرنا پڑتی ہے۔ شعوری سطح پر کیے جانے والے فیصلے اور منصوبہ سازی ہی کچھ دے سکتی ہے۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ وقت اور حالات کے رحم و کرم پر رہنے کو زندگی سمجھ بیٹھے ہیں۔
جب اللہ نے یہ سرزمین بخشی تب ہمیں غیر معمولی احتیاط کے ساتھ، خوب سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کرنا تھا۔ کسی کا رفیق بھی ہونا تھا تو اس خیال کے ساتھ کہ آبرو بھی رہے اور مدعا بھی پورا ہو جائے۔ مگر صاحب، جو ہونا تھا وہ تو ہوکر ہی رہا۔ باقی دنیا سے کئی قدم آگے جاکر زندگی بسر کرنے والے مغرب نے ہمیں بھی اپنی چمک دمک سے یوں متاثر کیا کہ ہم کسی اور کی طرف دیکھ ہی نہ سکے۔ اودھ کے معزول تاجدار واجد علی شاہ اخترؔ کے بقول ع
غمزہ و عشوہ و انداز و ادا نے مارا
ہم مغرب کی ہر ادا کے قتیل ٹھہرے۔ فریفتہ ہو رہنے کی کیفیت یہ تھی کہ بہت تیزی سے سب کچھ لُٹاکر بھی کسی درجے میں پچھتاوا تھا نہ تاسّف۔ ایک بار مغرب کی طرف چل پڑے تو چل پڑے۔ پھر کہاں مُڑ کے دیکھنا تھا۔ اُس کی جو بھی فرمائش رہی اُس سے بڑھ کر ہی جاں نثاری دکھائی جاتی رہی ؎
تم تو دل مانگو ہو، یاں جان تلک ہے حاضر
بات یہ بھی ہے کوئی آپ کے فرمانے کی
اہلِ مغرب پر فدا ہونے والوں کی کمی نہیں رہی مگر ہم نے تو حد ہی کردی ہے۔ مغرب کی چمک دمک سے متاثر ہیں، نام نہاد تہذیب سے مرعوب ہیں۔ مرعوبیت کا عالم یہ ہے کہ اپنی علمی وراثت پر ذرا بھی فخر نہیں۔ فخر تو دور کی بات رہی، یہاں تو کئی نسلیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے اپنے اسلاف کے علمی اور فنی کارناموں سے واقف ہونے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔ مغرب کی ہر ادا پر جان و دل نثار کرنے سے ہم نے کبھی دریغ نہیں کیا۔ ہم تو جاں نثاری کے معاملے میں کئی قدم آگے جاکر کچھ کرنے کے عادی رہے ہیں۔ بعض مواقع پر تو ہماری حالت نجم الدولہ اسداللہ خاں غالبؔ کے اس شعر کا مصداق تھی ؎
آج واں تیغ و تبر باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا
یہ تو ہمارا معاملہ ہوا اور اُدھر مغرب نے بھی کمال ہی کیا۔ ہر معاملے میں اپنے مفادات کو خاطر خواہ حد تک تحفظ بھی فراہم کیا اور اپنے سَر کوئی الزام بھی نہ لیا۔ سیاسی و سفارتی مہارت کی کیفیت یہ رہی کہ کسی بھی قوم یا خطے کو اپنی مرضی کے مطابق تاراج کرنے پر بھی مغرب کے سَر کوئی الزام نہ آیا۔ جو برباد ہوئے اُن کی ذہنی غلامی اور مرعوبیت ایسی تھی کہ زبانِ بے زبانی سے کہتے رہے ؎
ویسے تو تمہی نے مجھے برباد کیا ہے
الزام کسی اور کے سَر جائے تو اچھا!
مغرب نے ہمیں کیا دیا؟ یہ سوال قابلِ غور ہے مگر اِس سے زیادہ قابلِ غور سوال یہ ہے کہ ہم اُسے کیا کیا دے چکے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ مغرب نے ہمیں کچھ خاص نہیں دیا اور تلخ تر حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنا بہت کچھ مغرب کے قدموں میں ڈال چکے ہیں۔ سفارت ہو یا معیشت، علم و فن کا میدان ہو یا کھیل کود کا ... ہر معاملہ اب تک تو صرف خسارے کا ثابت ہوا ہے۔ ہم تو یہی سوچ کر خوش ہوتے رہے ہیں ؎
ہوئے جو خاک اُس کوچے میں ہم، یہ آبرو پائی
لگے سو بار قدموں سے، لگے سو بار دامن سے
مرعوبیت ہو تو ایسی ہو کہ ہم بربادی کو بھی اپنے لیے اعزاز سمجھتے رہے ہیں اور اِس پر کبھی پچھتاوا محسوس ہوا ہے نہ شرم ہی آئی ہے۔ قومی مفادات کو مقدم رکھنے کا خیال بھی قریب سے نہیں گزرا۔ جو کچھ مغربی آقاؤں نے چاہا وہ ہم بصد شوق کرتے رہے۔ اس قدر جاں نثاری کا ایسا صِلا ملنا چاہیے تھا کہ دنیا دیکھتی مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہ ہوا۔ جو کچھ ہم نے مغربی آقاؤں کے لیے کیا اُس کے جواب میں جو کچھ ملا وہ ضرورت اور توقعات سے بہت کم رہا۔ دل و جاں لُٹانے کے جواب میں صرف الجھنیں اور بربادی ملی مگر ہمارا معاملہ تو یہ رہا کہ ع
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
وقت نے ایسی کروٹ بدلی ہے کہ ہمارے لیے اپنے آپ کو بدلنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا۔ دل چاہے یا نہ چاہے، اب تو معاملات کا رخ بدلنا ہی پڑے گا۔ معاملہ محض پریشانی اور بربادی تک محدود نہیں رہا، بقاء تک آگیا ہے۔ غلطی کی گنجائش رہی نہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں پاکستان کو نئی راہوں پر چلنا ہے۔ غلامی کی روش ترک کرنی ہے، خود داری کے ساتھ اپنی بات منوانے کا عزم کرنا ہے اور پھر اِس عزم پر کاربند بھی ہونا ہے۔ امریکا اور یورپ سے ہمیں کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ اب سوچ اور پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے ؎
شیشہ ہاتھ آیا نہ ہم نے کوئی ساغر پایا
ساقیا! لے، تری محفل سے چلے، بھر پایا
عقل کو ورطۂ حیرت میں رکھنے والی مادّی ترقی اور اس کے نتیجے میں ہر شعبے کے لیے پیدا ہونے والی آسانیوں کے ساتھ ساتھ اکیسویں صدی اپنے ساتھ بہت سی مشکلات اور تقاضے بھی لائی ہے۔ ایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ جس در سے تاحال کچھ خاص حاصل نہیں ہوا اُس پر مزید حاضری نہ دی جائے۔ نئی منزلوں کی تلاش ہے تو نئے ہم سفر بھی تلاش کرنا ہوں گے۔ بہت کچھ سوچنے اور کہہ دینے کا وقت آگیا ہے۔ یہ معاملہ اچھی خاصی جرأت کا متقاضی ہے۔ کرنے کا کام اب یہ ہے کہ ہر معاملے میں مغرب کو وکیل سمجھ کر اُس سے مدد کے طالب ہونے کی روش ترک کرتے ہوئے باقی دنیا کی طرف دیکھا جائے۔ نئی ابھرتی ہوئی قوتیں بھی ہمیں بہت کچھ دے سکتی ہیں۔ مغرب کو ہم آزما چکے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ طاقت کے دوسرے کھلاڑیوں کو بھی اپنا بنانے کی کوشش کی جائے۔ اب ہمیں طے کرنا ہے کہ اِس مقام سے آگے کس طور بڑھنا ہے۔ نئی راہ کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ نئے ہم سفر بھی منتخب کرنے ہیں۔ مغرب کے معاملے میں ہمارا انجام ''نمرود کی خدائی‘‘ والا رہا ہے۔ دانش کہتی ہے ؎
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اُسے اِک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
ہر اعتبار سے لازم ہوگیا ہے کہ عالمی سیاست و سفارت کے تناظر میں نئے ساتھی تلاش کیے جائیں۔ اب تک جن سے گہرا تعلق رہا ہے اُن کی ناراضی کی پروا نہ کی جائے۔ اُنہیں بہت پیار سے یہ پیغام دیا جائے ؎
خفا مت ہو، مجھ کو ٹھکانے بہت ہیں
مرا سر رہے، آستانے بہت ہیں