اکیسویں صدی کا چیلنج ہمارے سامنے ہے‘ جس میں تعلیم کا کردار مرکزی ہے اور ترقی کے سفر میں وہی ممالک سبقت لیں گے جن کے افراد تعلیم یافتہ، ہنرمند اور اکیسویں صدی کی مہارتوں سے لیس ہوں گے۔ یہ سخت مقابلے کی صدی ہے‘ جس میں اوسط درجے کے افراد کیلئے جگہ نہیں ہوگی۔ مسابقت کی اس صدی میں صرف وہی کامیاب ہوں گے جو تعلیم تخلیق اور تنقیدی شعور رکھتے ہوں گے۔ جونہ صرف جدید علوم سے آگاہ ہوں گے بلکہ اپنی زندگیوں اور معاشرے میں ان علوم کے اطلاق کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں گے۔ یوں اب مختلف ممالک تعلیم اور تعلیمی اصلاحات کو مرکزتوجہ بنائے ہوئے ہیں اور تعلیم کیلئے فنڈز میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
تعلیمی بہتری کے لیے جہاں تعلیمی اداروں کی عمارات‘ نصاب، درسی کتب، امتحانی نظام اور تعلیمی اداروں کے ماحول میں بہتری کی ضرورت ہے تاکہ طلبا کو سازگار ماحول (Enabling Environment) دیاجا سکے‘ وہیں استاد کی بنیادی اہمیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تربیتِ اساتذہ کے پروگرامز کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ اگر ہم تعلیم میں معیاری تبدیلی چاہتے ہیں تو تعلیمی عمل میں استاد کے کلیدی کردار کو تسلیم کرنا ہوگا اور تربیتِ اساتذہ کے پروگرامز میں اکیسویں صدی کے تعلیمی تقاضوں کے مطابق بہتری لانا ہو گی۔ اس وقت کئی شہروں میں تربیتِ اساتذہ کے متعدد پروگرام چل رہے ہیں۔
تربیتِ اساتذہ کے ان مراکز میں ہرسال بلا مبالغہ ہزاروں ڈگریاں لے رہے ہیں‘ لیکن کلاس روم کے اندر تعلیمی عمل میں اس تربیت کا کوئی اثرنظر نہیں آتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ تربیتِ اساتذہ کے بیشتر اداروں کا دقیانوسی نصاب اور فرسودہ طریقۂ تدریس ہے‘ جس کا محورومرکز اساتذہ کو مٹھی بھر تدریسی طریقے سکھانا ہے‘ جن کی بدولت وہ کلاس روم میں وقت گزار سکیں۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے تربیتِ اساتذہ کے بیشتر پروگرام Method کے گرد گھومتے ہیں اور اس Method کا اوّل و آخر مقصد ''علم‘‘ کی ترسیل (Transmission) ہے۔ تعلیم کا یہ پیراڈائم Paradigm)) دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے متروک ہوچکا ہے کیونکہ اس کی عمارت جن تین مفروضوں پر استوار تھی‘وہ مفروضے جدید تحقیق نے غلط ثابت کر دیے ہیں۔ پہلا مفروضہ یہ تھاکہ طلبا ایک سادہ تختی کی طرح ہوتے ہیں جس پر استاد کچھ بھی لکھ سکتا ہے۔ دورِ جدید کی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ طلبا نہ تو سادہ تختی ہوتے ہیںاور نہ ہی خالی برتن کہ اس میں استاد اپنا علم انڈیل دے بلکہ بچے انتہائی کم عمری میں اپنے الگ خیالات، تصورات اور مشاہدات کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کی شخصیت کی بڑی حد تک تکمیل ابتدائی سالوں میں ہو جاتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق تو پیدائش سے پیشتر بھی بچے کا ذہن خالی تختی نہیں ہوتا بلکہ اس پر بھی نقوش (Imprints) ہوتے ہیں۔ ٹرانسمیشن پیراڈائم کے دوسرے مفروضے کے مطابق استاد سب علوم جانتا ہے اور وہ علم حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ یہ مفروضہ بھی غیر منطقی ہے کوئی شخص بھی سارے علم کی واقفیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور دورِ حاضر میں تو طلبا کو استاد کے علاوہ علم کے بہت سے ذرائع بھی میسر ہیں۔ ٹرانسمیشن پیراڈائم کے تیسرے مفروضے کے مطابق علم ایک جامد چیز ہے۔ یوں ان مفروضوں کی روشنی میں استاد کا واحد مقصد اس جامد علم کو طلبا کے خالی ذہنوں میں منتقل کرنا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کے بیشتر سرکاری سکولوں میں ابھی تک تدریس کا یہی طریقہ رائج ہے۔ امتحانی نظام اسی طریقہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے‘ اور امتحانی پرچوں میں ایسے سوالات دیے جاتے ہیں جو محض یادداشت کا امتحان ہوتے ہیں‘ اور طلبا کو سوچنے، سمجھنے اور تجزیہ کرنے کا موقع بھی نہیں دیا جاتا ہے۔ امتحان میں اچھے نمبروں کا حصول اب محض رٹے پر ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے تربیتِ اساتذہ کے بیشتر پروگرام ایسے اساتذہ تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں جو تخلیق، جدتِ فکر اور تنقیدی شعور سے مالامال ہوں اور جو سکولوں میں رائج ٹرانسمشن پیراڈائم یا طریقۂ تدریس میں کوئی تبدیلی لا سکیں۔ شعبۂ تعلیم سے چار دہائیوں کی وابستگی کے دوران میرا مشاہدہ تھاکہ ان پروگرامز کے دوران شرکا میں کوئی جوہری اور دیرپا تبدیلی نہیں آتی‘ یوں اگر تربیت یافتہ اورغیر تربیت یافتہ اساتذہ کی کلاس میں کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو ہمیں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ یعنی ہمارے ہاں تربیتِ اساتذہ کے پروگراموں کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ یوں لگتا ہے‘ تربیت اساتذہ کے پروگرام بنانے والوں کے نزدیک پیشہ ورانہ تربیت کا واحد مقصد پروگرام کے شرکا کو چند تدریسی مہارتوں سے روشناس کرانا ہے‘ وہ بھی نام کی حد تک۔ تربیتِ اساتذہ کے بیشتر پروگراموں میں Teaching Practice محض اشک شوئی ہوتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے تربیتِ اساتذہ کے پورے نظام کو ازسرِ نو دیکھا جائے۔ اس کیلئے اہم بات یہ ہے کہ پیشہ ورانہ تربیت کے اجتماعی تصور کو سامنے رکھا جائے جس کے مطابق تدریسی مہارتوں کے ساتھ ساتھ علم اور رویے کی سطحوں پر بھی تبدیلی ضروری ہے۔ چونکہ علم اور رویے کی سطحی تبدیلی میں نسبتاً زیادہ وقت درکار ہوتا ہے اور تبدیلی کا مظاہرہ بھی نسبتاً مشکل ہے؛ چنانچہ تربیتِ اساتذہ کے بیشتر پروگراموں کے پروفیشنل ڈویلپمنٹ کے ان دواہم پہلوؤں پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔
وقت آگیا ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر تربیتِ اساتذہ کے پروگراموں میں جوہری تبدیلیاں لائی جائیں۔ اکیسویں صدی میں تین طرح کی مہارتیں اہم ہیں‘ جن میں Life skills, Literacy skills, Learning skills شامل ہیں۔ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ تبدیلی کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے۔ وہ تبدیلی جو ماضی میں برسوں میں رونما ہوتی تھی اب مہینوں اور ہفتوں کی بات ہے۔ باہرکی دنیا جس تیزی سے تبدیل ہورہی ہے اسی رفتار سے ہمیں اس کی تفہیم کرنا ہوگی۔ اپنے نصا ب کوجدید تقاضوں اور ضروریات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ ان مہارتوں پر زور دینا ہوگا جو زندگی میں طلبا کی مددگار ہوں۔ تعلیمی عمل کو روایتی کلاس روم سے نکال کراس کا تعلق جدید میڈیا کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ کلاس روم میں ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا کہ طلبا نہ صرف سوال کر سکیں بلکہ انہیں اختلافِ رائے کا حق بھی حاصل ہو۔ اکیسویں صدی کے چیلنجز کے مقابلے کیلئے جہاں کلاس رومز‘ نصاب، درسی کتب، نظامِ امتحان میں بنیادی تبدیلیاں درکار ہیں‘ وہیں ایسے اساتذہ کی بھی ضرورت ہے جو اس سارے عمل کو ممکن بنا سکیں۔ اساتذہ کے تربیتی پروگرامز کو یکسر بدلنا ہوگا‘ جواساتذہ میں کشادگیٔ فکر کے راستے کھولنے کے بجائے تنگ نظری کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں تربیتِ اساتذہ میں اس امرکو یقینی بنانا ہوگا کہ تبدیلی کا عمل ہمہ جہت ہو جس میں اساتذہ کے تعلیمی تصورات میں تبدیلی (Conceptual Change) ان کی تدریسی مہارتوں میں تبدیلی (Pedagogical Change) اور ان کے رویے میں تبدیلی (Attitudinal Change) پر بیک وقت کام کیا جائے۔ اسی طرح تربیتِ اساتذہ کے پروگرامز میں لٹریسی سکلز‘ لرننگ سکلز اور لائف سکلز کے ماڈیولز (Modules) ہوں۔ اسی طرح Reflective Teaching ‘ Critical Thinking اور Technology کے حوالے سے الگ الگ ماڈیولز ہوں ان ماڈیولز کو Teaching Process سے اس طرح مربوط کیا جائے کہ پروگرامز میں تھیوری اور پریکٹس کا مؤثر امتزاج ہواور یوں اساتذہ کو Reflection in action کا عملی موقع مل سکے۔ امید ہے ہائر ایجوکیشن کا قائم کردہ ادارہ NAHE تربیتِ اساتذہ کے پروگرامز کی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے انہیں جدید بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے عملی اقدامات کرے گا۔