تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     08-08-2020

نیا نقشہ اور نئی بحث

پاکستان کا وہ نیا سیاسی نقشہ جو رواں ہفتے حکومتِ پاکستان نے جاری کیا‘ اس کے حوالے سے ملا جُلا رد عمل سامنے آیا ہے۔ جہاں کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد اسے خوش آمدید کہتی اور اسے اپنے ساتھ یکجہتی کا ایک اظہار قرار دیتی نظر آ رہی ہے وہیں کچھ لوگوں کے خیال میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روندتے ہوئے انڈیا نے وادی کا جس غیر قانونی انداز میں الحاق کیا‘ یہ پاکستان کی جانب سے اس بھیانک قدم کے تناسب سے ظاہر کیا جانے والا رد عمل ہرگز نہیں ہے۔
پاکستان کی جانب سے جاری کردہ نئے نقشے میں کشمیر (وہ علاقہ جو انڈیا کے قبضے میں ہے) کو متنازعہ علاقہ ظاہر کیا گیا ہے جب کہ وہ علاقہ جو پاکستان کے زیر انتظام ہے اسے آزاد جموں و کشمیر کا نام دیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قومی سطح پر براہِ راست نشر کی جانے والی ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ (اس نقشے کے ذریعے) ہم نے اُن کے (انڈیا کے) غیر قانونی قبضہ کو چیلنج کر دیا ہے اور اس علاقے پر اپنا دعویٰ جتا دیا ہے۔
نیا نقشہ چار اگست کو جاری کیا گیا‘ یعنی اُس دن سے ایک روز قبل جب ایک برس قبل بھارت نے لاکھوں کی تعداد میں فوجی نفری کو پہلے سے ہی زیر محاصرہ سری نگر وادی میں بھیج کر کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ ختم کر کے اسے باقاعدہ اپنے وفاق کا حصہ بنا لیا تھا۔ لندن میں قائم جموں و کشمیر کونسل آن ہیومن رائٹس (جے کے سی ایچ آر) کے سربراہ ڈاکٹر سید نذیر گیلانی پاکستان کی جانب سے اٹھائے جانے والے اس حالیہ قدم پر کچھ زیادہ پُر جوش نہیں دکھائی دیے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ 'ٹویٹر‘ پر جاری کردہ اپنے چار مربوط پیغامات میں انہوں نے کہا: ''جنابِ وزیر اعظم ہم کشمیر کے حوالے سے آپ کے اقدامات کو سراہتے ہیں۔ مودی حکومت کشمیری عوام پر غاصبانہ انداز میں حملہ آور ہے‘ اس نے بار دِگر اِن پر قبضہ کیا اور انہیں حوالۂ زنداں کر دیا ہے۔ ہم گزشتہ روز جاری کیے جانے والے پاکستان کے سیاسی نقشے میں کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں سے اپنی وابستگی کے اظہار پر بھی اطمینان رکھتے ہیں۔ امریکہ نے بیان دیا ہے کہ یہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی مثبت ذمہ داری ہے اور یہ کہ جب تک متحارب فریقین کسی اور حل پر متفق نہیں ہو جاتے تب تک اس مسئلے کا حل وہی ہے جو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل تجویز کر چکی ہے‘ اور یہی فیصلہ برقرار رہے گا‘‘۔ نیا سیاسی نقشہ مندرجہ بالا رد عمل سے متناسب نہیں ہے۔ اس مسئلے کے حل کی تجاویز فرانس کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 539ویں اجلاس‘ ہالینڈ کی جانب سے 566ویں اجلاس‘ چین کی جانب سے 765ویں اجلاس‘ کینیڈا کی جانب سے 235ویں اجلاس‘ ارجنٹائن کی جانب سے 240ویں اجلاس اور امریکہ کی جانب سے 768ویں اجلاس میں بیان کی جا چکی ہیں۔
گیلانی صاحب نے اپنے ایک الگ مضمون میں‘ جسے کشمیر کے بارے میں قانون سازی کے حوالے سے انسائیکلوپیڈیا کا درجہ دیا جا سکتا ہے‘ عمومی طور پر سب لوگوں کو وہ وعدے یاد دلائے ہیں‘ جو مختلف اقوام نے کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر گزشتہ سات دہائیوں میں کیے۔ ڈاکٹر سید نذیر گیلانی لکھتے ہیں ''13 اگست 1948ء اور یکم جنوری 1949ء کو منظور ہونے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اگر فریقین پیش کیے جانے والے منصوبے کے حوالے سے اتفاق رائے پر نہیں پہنچ پاتے تو اس کے بعد ثالثی کی گنجائش موجود ہے‘ اور کرائی جانے والی یقین دہانی کو مزید پختہ کرنے کے لیے یہ ثالثی کسی ایک ثالث یا ان ثالثوں پر مشتمل کمیٹی کرے گی جس کا تقرر کوئی سیاسی ادارہ یا باڈی نہیں بلکہ عالمی عدالت انصاف کے صدر کریں گے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ ہم بار بار ان قراردادوں کی جانب اس لیے لوٹتے ہیں کہ فریقین یعنی انڈیا اور پاکستان نے ان پر اپنی رضا مندی ظاہر کر رکھی ہے‘‘۔
10 نومبر 1951ء کو سکیورٹی کونسل کے 566ویں اجلاس میں نیدرلینڈز (ہالینڈ) کے نمائندے نے بات کرتے ہوئے کہا: ''(فریقین کے) کسی بھی متفقہ فیصلے پر نہ پہنچنے سے (کشمیری عوام کے) حق خود ارادیت پر کوئی زد نہیں آتی۔ اس کا مقصد تو ان طریقوں اور ذرائع کو اختیار کرنا ہے جن کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے عوام اپنی رائے کا اظہار آزادی سے کر سکیں اور وہ اپنے حق انتخاب کو کسی بھی قسم کے خوف و لالچ سے آزاد ہو کر استعمال کر سکیں‘‘۔ برطانیہ نے تجویز پیش کی تھی کہ اکتوبر 1948ء میں کشمیر میں رائے شماری کرا لی جائے۔ گیلانی یاد دلاتے ہیں کہ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے رائے شماری ایڈمنسٹریٹر ایڈمرل نمیز نے کشمیر میں یکم نومبر 1950ء کو رائے شماری کرانے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ نمیز کو امریکی وزارتِ خارجہ میں ایک عارضی دفتر تفویض کر دیا گیا اور یہاں ان کی معاونت جنوبی ایشیائی ڈویژن کا سٹاف کر رہا تھا۔ پاکستان اور انڈیا کے سفارت کاروں نے باری باری خیر سگالی کے اظہار کے لیے نمیز کے دفتر کا دورہ بھی کیا تھا۔
مذکورہ بالا حقائق کی سچائی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے گیلانی مارچ 1950ء میں بھیجا گیا ایک خفیہ ٹیلی گرام نمبر268 پیش کرتے ہیں۔ یہ ٹیلی گرام واشنگٹن کے انڈین سفارت خانے سے دہلی میں باجپائی کو بھجوایا گیا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیو پالیٹکس نے ایسی کروٹ بدلی کہ دنیا کشمیر میں رائے شماری کے اپنے وعدے کو بھول گئی اور بات اس حد تک پہنچ گئی کہ انڈیا نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو کاملاً نظر انداز کرتے ہوئے پانچ اگست 2019 ء کو کشمیر کو اپنا انگ بنا کر وفاق میں شامل کر لیا۔ اپنے مضمون کے اختتامی حصے میں گیلانی لکھتے ہیں ''یہ البیتروس کی مانند خود اپنے گلے میں ڈالا ہوا مصیبت کا طوق ہے۔ انڈیا کو یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ جب تک جموں و کشمیر میں‘ آزاد کشمیر میں‘ گلگت بلتستان میں ‘انڈیا میں‘ پاکستان میں اور دنیا بھر میں کہیں بھی کوئی ایک بھی کشمیری زندہ ہے انڈیا کو ہر دم جنگ کا دھڑکا لگا رہے گا‘‘۔ آگے چل کر گیلانی مزید کہتے ہیں کہ انڈیا نے کشمیری عوام سے کیے گئے تمام وعدوں کو بری طرح پامال کیا ہے۔ نہ صرف کشمیری عوام بلکہ انڈیا نے تو برطانیہ اور پاکستان سے اکتوبر 1947ء میں کیے گئے اپنے وعدوں کا پاس بھی نہیں کیا اور باقی سب کچھ تو چھوڑ دیں وہ تو اس عہد سے بھی مکر گیا جو اس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ساتھ جنوری 1948ء میں کیا تھا۔
ان حالات میں مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کے موقف کو تازہ رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس عالمی مسئلے کا تقاضا ہے اس سے وقت کی گرد ہٹائی جائے اور عالمی فورمز پر اسے پوری توانائی سے اٹھایا جائے۔ کیا پہلے ایسا کیا جا رہا تھا یا نہیں‘ اس بحث سے قطع نظر مستقبل کی کشمیر پالیسی میں زیادہ تحرک اور توانائی کی ضرورت ہو گی۔ اس تناظر میں پاکستان کی جانب سے جاری کیا جانے والا نیا سیاسی نقشہ بڑی حد تک مددگار ثابت ہو سکتا ہے‘ مگر شرط یہ ہے کہ عالمی اور علاقائی فورمز میں اس سیاسی نقشے کو زیر بحث لایا جائے اور پاکستان کے سفیر اس کا پُر زور دفاع کریں۔ ان کے اس مؤقف کی حمایت میں دلائل کا کافی وزن موجود ہے‘ مگر یہ دلائل‘ خواہ کس قدر ہی وزنی کیوں نہ ہوں‘ اُس وقت تک غیر مؤثر ہیں جب تک دنیا کے معتبر فورمز پر انہیں زیر بحث نہیں لایا جاتا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کا نیا سیاسی نقشہ اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved